انڈیا، پاکستان کشیدگی کے دوران اروناچل پردیش میں ناموں کو بدل کر چین کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟

چین اس سے پہلے بھی چار بار اروناچل پردیش کے دریاؤں، پہاڑوں، قصبوں اور دیہات کے نام بدل کر انھیں چینی نام دینے کا اعلان کر چکا ہے لیکن اس بار انڈیا اور پاکستان کشیدکی کے درمیان ناموں کی تبدیلی کے وقت کو تجزیہ کار محض اتفاق ماننے کے لیے تیار نہیں۔
اروناچل پردیش
Getty Images
چین کی وزارت شہری ہوابازی کی جانب سے جاری فہرست کے مطابق جن 27 مقامات کے نام تبدیل کیے گئے ہیں اُن میں اروناچل پردیش کے 15 پہاڑ، پانچ رہائشی علاقے اور پانچ پہاڑی درے، دو دریا اور ایک جھیل شامل ہیں

چین نے انڈیا کی ریاست اروناچل پردیش میں پہاڑوں، رہائشی علاقوں، دریاؤں اور پہاڑی دروں سمیت 27 مختلف مقامات کا انڈین نام بدل کر انھیں چینی نام دینے کا اعلان کیا ہے۔

چین کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان چار روزہ خونریز جھڑپوں کے بعد سیزفائر کا اعلان ہوئے ابھی چند روز ہی ہوئے تھے۔

چین کی وزارت شہری ہوابازی کی جانب سے جاری کی گئی فہرست کے مطابق جن 27 مقامات کے نام تبدیل کیے گئے ہیں اُن میں اروناچل پردیش کے 15 پہاڑ، پانچ رہائشی علاقے اور پانچ پہاڑی درے، دو دریا اور ایک جھیل شامل ہیں۔

ان مقامات کے نئے نام چینی اور تبتی زبانوں میں رکھے گئے ہیں۔

چینی وزارت شہری ہوابازی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’جغرافیائی ناموں کے انتظام سے متعلق سٹیٹ کونسل کی متعلقہ شقوں کے تحت اور متعلقہ محکموں کے مشورے سے چین کے زنگنان خطے کے کچھ جغرافیائی ناموں کو چینی نام دے دیا گیا ہے۔‘

یاد رہے کہ چین انڈیا کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کو جنوبی تبت قرار دیتا ہے اور چین نے اسے ’زنگنان‘ کا نام دے رکھا ہے۔ سنہ 1962 میں اس خطے میں انڈیا اور چین کے درمیان جنگ بھی ہو چکی ہے۔

دوسری جانب انڈیا نے چین کے اس اقدام کو ’بےمعنی‘ اور ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا ہے کہ ’بیجنگ انڈیا کی ریاست اروناچل پردیش کےمقامات کو نئے نام دینے کی بے معنی اور مضحکہ خیز کوششیں کرتا رہا ہے۔ ہم اپنے اصولی موقف کے مطابق ان کوششوں کو قطعی طور پر مسترد کرتے آئے ہیں۔ نئے نئے نام تخلیق کرنے سے یہ ناقابل تردید حقیقت نہیں بدل سکتی کہ اروناچل پردیش انڈیا کا اٹوٹ انگ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔‘

یاد رہے کہ چین اس سے پہلے بھی چار بار اروناچل پردیش کے دریاؤں، پہاڑوں، قصبوں اور دیہات کے نام بدل کر انھیں چینی نام دینے کا اعلان کر چکا ہے لیکن اس بار انڈیا، پاکستان کشیدکی کے بیچ چین کی جانب سے ناموں کی تبدیلی کے وقت کو تجزیہ کار محض اتفاق ماننے کے لیے تیار نہیں۔

Getty
Getty Images
سنہ 1962 میں اس خطے میں انڈیا اور چین کے درمیان جنگ بھی ہو چکی ہے

دلی یونیورسٹی میں چینی امور کی پروفیسر ڈاکٹر ریتوشا تیواری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ناموں کی تبدیلی کا وقت اتفاقیہ نہیں بلکہ یہ چین کی جانب سے بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا گیا اقدام ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اِس وقت انڈیا اور پاکستان کے درمیان صورتحال بہت کشیدہ ہے اور اس ٹکراؤ میں چین کا جو کردار ہے، وہ کُھل کر سامنے آیا۔ اگر یہ محض اتفاق ہوتا تو وہ اپنے کردار کو صاف رکھنے کے لیےنام بدلنے کا یہ قدم اس مرحلے پر نہیں اٹھاتے۔ اس وقت جب انڈیا، پاکستان سرحد پر زبردست کشیدگی کی صورتحال ہے تو اِن حالات میں یہ فہرست جاری کرنا اچھی نیت کا عکاس نہیں۔‘

پروفیسر ریتوشا تیواری کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح کا قدم چیننے اپریل 2024 میں بھی اٹھایا تھا جب انھوں نے اروناچل پردیش کے 30 مقامات کا نام بدل کر ان کا چینی نام رکھ دیا تھا۔

اسی طرح سنہ 2023 میں بھی چین کی وزارت شہری ہوابازی نے 11 جگہوں کے نام بدل کر انھیں چینی نام دیے تھے اور ان تمام مواقع پر انڈیا نےاس کے خلاف سخت احتجاج کیا تھا۔

اروناچل پردیش
BBC
سنہ 2024 میں چین کی جانب سے علاقوں کے نام بدلنے پر انڈیا کی وزارت خارجہ نے اسے ’نام ایجاد کرنے اور حقیقت کو تبدیل کرنے کی بے معنی کوشش‘ قرار دیا تھا

سنہ 2024 میں چین کی جانب سے علاقوں کے نام بدلنے پر انڈیا کی وزارت خارجہ نے اسے ’نام ایجاد کرنے اور حقیقت کو تبدیل کرنے کی ایک بے معنی کوشش‘ قرار دیا تھا۔

انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'اگر میں آپ کے گھر کا نام بدل دوں تو کیا وہ میرا ہو جائےگا؟'

پروفیسر ریتوشا تیواری کہتی ہیں کہ یہ معاملہ انڈیا کے اقتدار اعلیٰ سےمنسلک ہے۔ ’چین کی جانب سے یہ اچھے اشارے نہیں ہیں۔ چین پر یہ الزام بھی لگتا آیا ہے کہ وہ سفارتکاری کو دباؤ میں لانے کی کوشش کرتا ہے، یعنی وہ منفی سفارتکاری کو آگے بڑھاتا ہے۔ انڈیا ایک طرف چین سے اپنے تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کر رہا ہے اور ماضی میں پیدا ہونے والی کشیدگی سے دونوں ملک باہر آ چکے ہیں اور امن بحال ہو چکا ہے مگر ایسے میں علاقائی دعوی کرنا انڈیا کے اقتدار اعلیٰ کو براہ راست نقصان پہنچاتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں چین تاوانگ کے علاقے پر اپنا دعوی کرتا تھا مگر اب وہ دیگر جگہوں کو چینی نام دے کر پوری ریاست اروناچل پردیش پر دعویٰ کرنے لگا ہے۔ اس سے سرحدی تنازع اور بھی بڑھتا جا رہا ہے، اور یہی دونوں ملکوں کے تعلقات میں مسئلے کی بنیاد ہے۔

دفا‏عی امور کے تجزیہ کار پروین ساہنیکا کہنا ہے کہ ’یہ سیدھی سی بات ہے کہ چین نےاروناچل پردیش میں، جسے وہ زنگنان کہتا ہے، نام بدلنے کا اعلان اس وقت یہ بتانے کے لیے کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ یہ بیان دیتے رہتے ہیں کہ وہ پاکستان کی سکیورٹی کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اسی بات کو انھوں نے اس ٹائمنگ سے دوسرے طریقے سے بتایا ہے کہ وہپاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘

 گلوان وادی، انڈیا اور چین
Getty Images
سنہ 2020 میں لداخ میں گلوان وادی میں دونوں ملکوں کی افواج میں تصادم میں 20 انڈین اور چار چینی فوجی مارے گئے تھے تاہم ماہرین کے مطابق گذشتہ کچھ مہینوں سے تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی تھی جسے اس حالیہ اقدام کے نتیجے میں ٹھیس پہنچ سکتی ہے

انھوں نے کہا کہ چین کے اس اقدام پر کسی کو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ بقول ان کے یہ غلط سوچ ہے کہ انڈیا اور چین کے تعلقات معول کی طرف جا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ تعلقات نارمل نہیں ہو سکتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہہے انڈیا یہ طے کر چکا ہے کہ اسے یہ دکھانا ہے کہ وہ خطے میں چین کے ساتھ کمپیٹ (مقابلہ) کر رہا ہے، اس لیے اگر آپ مقابلہ کر رہے ہیں تو نارمل رشتہ نہیں ہو سکتا۔ دوسرے انڈیا یہ نہیں چاہتا کہ چین سے تعلقات کے سلسلے میں امریکہ ناراض ہو کیونکہ امریکہ اور چین کے درمیان اس وقت کشیدگی ہے۔ اسی لیے چین نے یہ ٹائمنگ منتخب کی، صرف یہ بتانے کے لیے چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہ تو ان کے ہتھیاروں اور بیانات سے نظر آ ہی رہا ہے، اب اس میں انھوں نے ایک کڑی اور جوڑ دی۔‘

یاد رہے کہ انڈیا اور چین کے درمیان انگریزوں کے دور حکومت میں میکموہن لائن کو سرحد کے طور پر تسلیم کیا گیا لیکن بعد میں چین نے اس لائن کو سرحد ماننے سے انکار کر دیا۔ اب دونوں ملکوں کے درمیان شمال مشرقی ریاستوں سے اتراکھنڈ ہوتی ہوئی لداخ خطے تک3800 کلومیٹر لمبی سرحدایکچول لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے۔

سنہ2020 میں لداخ میں گلوان وادی میں دونوں ملکوں کی افواج میں خونریز تصادم ہوا تھا جس میں 20 انڈین اور چار چینی فوجی مارے گئے تھے۔ اس ٹکراؤ کے بعد دوںوں ملکوں کے تعلقات بہت خراب ہو گئے تھے تاہم ماہرین کے مطابق گذشتہ کچھ مہینوں سے تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی تھی جسے اس حالیہ اقدام کے نتیجے میں ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.