ایران کی حکومت کی طرف سے ایک ایسے منصوبے میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے جس کے تحت تہران مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے بیرون ملک رہائش پذیر مخالفین، صحافیوں اور سیاسی حریفوں کو اغوا یا قتل کر دیا جاتا ہے۔
ایران کی حکومت کی طرف سے ایک ایسے منصوبے میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے جس کے تحت تہران مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے بیرون ملک رہائش پذیر مخالفین، صحافیوں اور سیاسی حریفوں کو اغوا یا قتل کر دیا جاتا ہے۔
ایران کی اپنے مخالفین کو اغوا اورقتل کرنے والی ان کارروائیوں میں سنہ 2022 سے تیزی دیکھنے میں آئی۔ یہاں تک کہ مبینہ طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ایران کے ان اہداف کی فہرست میں شامل ہیں۔
برطانیہ کی پولیس نے اپنے ملک میں ایسے متعدد ایرانی شہریوں کو رواں ماہ کے آغاز پر گرفتار کیا، جن پر شبہ ہے کہ وہ دہشتگردی کے ایک حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ برطانوی پولیس اب ان مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔
بی بی سی کی طرف سے حاصل کی جانے والی معلومات کے مطابق گرفتار کیے جانے والے ان ایرانی شہریوں کا ہدف لندن میں اسرائیلی سفارتخانہ تھا۔
بی بی سی آئی انوسٹیگیشنز اور بی بی سی فارسی نے ترکی اور امریکہ میں ایسی عدالتی دستاویزات دیکھی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ایران دیگر ممالک میں قتل کروانے کے لیے جرائم پیشہ گروہوں کو بھرتی کر رہا ہے۔
ان الزامات کی ماضی میں ایرانی حکومت تردید کرتی آئی ہے تاہم ایرانی حکام نے اس خبر پر تبصرہ کرنے سے متعلق بی بی سی کی نئی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا۔
ان دستاویزات میں ناجی شریفی زندشتی کا نام بار بار سامنے آتا رہا، ان کا تعلق ایران سے ہے اور ان کی وجہ شہرت عالمی سطح پر ڈرگ سمگلنگ بنی۔
ان کا نام اس وقت بھی سامنے آیا جب سنہ 2017 میں ترکی کے شہر استنبول میں سعید کریمیان کے قتل کے مقدمے میںان پر فرد جرم عائد کی گئی۔
سعید کریمیان ایک فارسی ٹی وی نیٹ ورک کے سربراہ تھے جو مغربی فلمیں اور ایران کے لیے پروگرام نشر کرتے تھے۔ ایرانی حکام سعید کریمیان کو اسلامی اقدار کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتے تھے۔ ان کے قتل سے تین ماہ قبل ایران کی ایک عدالت نے انھیں ان کی عدم موجودگی میں چھ برس قید کی سزا سنائی تھی۔
امریکی اور ترک حکام یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی موت جرائم پیشہ افراد کے ذریعے ہونے والے قتل کی ایک کڑی ہے۔ جب سنہ 2019 میں ایران کی پاسداران انقلاب سے رشتہ توڑنے والے مسعود مولوی کو استنبول میں قتل کیا گیا تو اس واقعے سے سعید کریمیان کے قتل میں ناجی شریفی کا تعلق واضح ہوا۔
مسعود مولوی اعلی سطح کے ایرانی حکام کی بدعنوانی کو بے نقاب کر رہے تھے۔ ترک پولیس کو تحقیقات میں یہ پتا چلا کہ جب مسعود مولوی کو قتل کیا گیا تو اس وقت ناجی شریفی کا مالی جائے وقوعہ پر موجود تھا اور جب سعید کریمیان کو قتل کیا گیا تو اس وقت ان کا ڈرائیور وہاں پر موجود تھا۔
پولیس کو یہ شک ہے کہ مالی اور ڈرائیور کو ناجی شریف نے اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے بھیجا تھا۔ ناجی شریفی کو سعید کریمیان کے قتل کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا مگر پھر انھیں متنازع طور پر چھ ماہ کے اندر ہی رہا کر دیا گیا۔
ان کی رہائی ترکی میں ایک قانونی سکینڈل بن کر سامنے آئی۔ ایک اعلی عدالت نے ان کی دوبارہ گرفتاری کے احکامات دیے مگر وہ اس وقت تک ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ اس کے بعد ناجی شریفی ایران چلے گئے جس سے یہ شبہات پیدا ہوئے کہ کہیں وہ ایران کی انٹیلیجینس کے لیے تو یہ سب نہیں کر رہے تھے۔
ترکی کے صحافی چنگیز ایردینش نے دعویٰ کیا ہے کہ جب بھی ایرانی حکومت کے مخالفین کا قتل ہوتا ہے تو اس جگہ پر ناجی شریفی کے آدمی موجود ہوتے ہیںترکی کے تحقیقاتی صحافی چنگیز ایردینش نے دعویٰ کیا ہے کہ جب بھی ایرانی حکومت کے مخالفین کا قتل ہوتا ہے تو اس جگہ پر ناجی شریفی کے آدمی موجود ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ بہت منظم جرائم اور انٹیلیجینس ایجنسیز میں بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔
تقریباً 30 برس قبل ناجی شریفی کو ایران میں منشیات کی سمگلنگ کا مجرم ٹھہرایا گیا تھا اور انھیں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ اس کے بعد ایسی افوہیں بھی سامنے آئیں کہ ان کے جیل سے فرار کے بعد وہ ترکی چلے گئے تھے اور ہو سکتا ہے کہ ایرانی انٹیلیجنس نے یہ سارا منصوبہ تشکیل دیا ہو۔
ناجی شریفی کو بہت اچھی طرح جاننے والوں، جن کی شناخت ان کی حفاظت کی وجہ سے ظاہر نہیں کی جا رہی، نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر ایران میں سزائے موت پانے والا کوئی مجرم سکیورٹی گارڈ کو قتل کرنے کے بعد فرار ہو جاتا ہے تو ان کے زندہ ہونے کا امکان نہیں ہوتا جب تک کہ کہانی کوئی اور رخ نہ اختیار کر لے۔‘
انھوں نے بی بی سی ورلڈ سروس کو بتایا کہ ایران میں واپسی کا ان کے لیے ایک ہی طریقہ ہو سکتا تھا اور وہ یہ ہو سکتا تھا کہ وہ انٹیلیجنس ایجنسوں کے لیے کام کر رہے ہوں۔
سنہ 2020 میں ناجی شریفی کا نام ایک بار پھر ترکی میں ان کے خلاف ایک مقدمے میں فردِ جرم کی صورت میں سامنے آیا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک ایران مخالف حبیب چاب کو استنبول لے جانے کا جھانسہ دے کر اغوا کیا اور بعد میں انھیں ایرانی سرکاری ٹی وی پر دکھایا گیا۔
حبیب چاب کو پھانسی دے دی گئی۔ ناجی شریفی کے بھتیجے کو جیب چاپ کی گمشدگی کے سلسلے میں ترکی میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ناجی شریفی نے اس معاملے میں اپنے ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔
پھر سنہ 2021 میں ناجی شریفی کو امریکہ میں ایک مقدمے میں سزا سنائی گئی۔ مینیسوٹا کی ایک عدالت کی دستاویزات کے مطابق ناجی شریفی اور کینیڈین بائیکر گینگ ہیلس اینجلس کے ایک رکن کے درمیان رابطے کو بھی فردِ جرم کا حصہ بنایا گیا۔
ناجیشریفی نے مبینہ طور پر امریکی ریاست میری لینڈ میں دو ایرانی منحرف افراد کے قتل کے لیے 370,000 ڈالر کی پیشکش کی تھی۔ ایف بی آئی متحرک ہوئی اور حملہ کرنے سے پہلے ہی دو افراد کو گرفتار کر لیا۔
عدالتی دستاویزات کے بارے میں ہماری تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاسداران انقلاب اور اس کی بیرون ملک آپریشنز کرنے والی ’قدس فورس‘ سابق سوویت یونین کے ایک بدنام زمانہ بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہ، ’تھیوز ان لا‘ جیسی تنظیموں کے ساتھ مل کر اغوا اور قتل کی وارداتیں انجام دے رہی ہے۔
امریکی اور اسرائیلی انٹیلیجنس ذرائع کا کہنا ہے کہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے یونٹ 840 کی اہم ذمہ داری بیرون ملک دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کا قیام اور اس کی منصوبہ بندی کرنا ہے۔
مارچ میں نیویارک کی ایک جیوری نے بدنام زمانہ گینگ (تھیوز ان لا) سے وابستگی کی بنیاد پر دو افراد کو سزا سنائی۔ ان پر ایرانی نژاد امریکی مسیح علی نژاد کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کا الزام تھا۔ مبینہ طور پر ایرانی جاسوسوں نے ان کے قتل کے لیے پانچ لاکھ ڈالر کی رقم کی پیشکش کی تھی۔ اس سے دو برس قبل ان کے بروکلن میں گھر کے قریب سے ایک ’لوڈڈ‘ گن والے شخص کو گرفتار کیا گیا تھا۔
سنہ 2020 میں ایران نے پاسداران انقلاب کے ایک اعلی کمانڈر کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔ اس وقت سے امریکی حکام کا یہ مؤقف ہے کہ ایران اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کے ارکان کو قتل کرنا چاہتا ہے جنھوں نے قاسم سلیمانی کے قتل کے منظوری دی تھی۔
ان میں قومی سلامتی کے مشیر جون بولٹن اور سی آئی اے کے سابق سربراہ اور سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی شامل ہیں۔
امریکہ میں گذشتہ برس صدارتی انتخاب کے دوران وکلا صفائی نے ایران پر ٹرمپ کو قتل کرنے کی مبینہ سازش کا الزام عائد کیا تھا۔ ایران نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
اس طرح کے خطرات کے پیش نظر امریکہ اور برطانیہ نے ایرانی انٹیلیجنس آپریشنز سے منسلک افراد پر پابندیاں بھی عائد کی تھیں۔ ان افراد میں ناجی شریفی، ایران کے سفارت کار اور پاسداران انقلاب کے ارکان شامل تھے۔ ناجی شریفی نے ان الزامات کی تردید کی تھی کہ وہ ایرانی کی انٹیلیجنس سروس کے لیے کام کرتے ہیں۔
ایران انٹرنیشل کی اینکر سیما ثابت بھی ہدف تھیں مگر ان کی کار کو بم سے اڑانے کی کوشش ناکام رہیسنہ 2014 میں ایم آئی فائیو (MI5) کے ڈائریکٹر کین میکلم نے ایسے 20 حقیقی خطرات کے بارے میں بتایا تھا جن میں ایران سے منسلک افراد کو ہدف بنانا شامل تھا۔ ویسٹ لندن میں ایک ایسے مقدمے میں ایک چیچن شخص کو لندن میں ایک فارسی چینل ایران انٹرنیشنل کے دفتر کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انھیں ایرانی جاسوسوں کے لیے معلومات جمع کرنے کی پاداش میں سزا سنائی گئی۔
گذشتہ برس لندن میں ایران انٹرنیشنل کے پریزینٹر پوریا زراعتی پر چاقو سے حملہ کیا گیا۔ اس کے فوراً بعد برطانوی کاؤنٹر ٹیررازم پولیس کی درخواست پر رومانیہ سے دو افراد گرفتار کیے گئے تھے۔ برطانیہ کی سکیورٹی سروسز کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ گرفتار کیے جانے والے دونوں افراد کا تعلق جرائم پیشہ گروہ ’تھیوز ان لا‘ سے ہے، جنھیں مبینہ طور پر ایرانی کی ایجنسیوں نے بھرتی کیا تھا یعنی ان کی خدمات حاصل کی تھیں۔
ایران انٹرنیشل کی ہی ایک اور اینکر سیما ثابت بھی ہدف تھیں مگر ان کی کار کو بم سے اڑانے کی کوشش ناکام رہی۔
پولیس فائل کو دیکھتے ہوئے سیما نے بی بی سی کو بتایا کہ جب انھیں یہ پتا چلا کہ وہ میری کار سے بم نہیں باندھ سکے تو پھر جاسوسوں نے ان جرائم پیشہ شخص سے کہا کہ چپکے سے اپنا کام پورا کر لو۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس شخص نے پوچھا کہ کتنی خاموشی سے تو اسے جواب دیا گیا کہ اتنے چپکے سے جس طرح کچن کی چھری سے کام لیا جاتا ہے۔‘
سنہ 1992 میں برلن کے ایک ریستوران میں نقاب پوش مسلح افراد کے ہاتھوں چار ایرانی کرد رہنماؤں کے قتل کے بعد جرمن استغاثہ نے ان ہلاکتوں کا ذمہ دار پوری ایرانی قیادت کو ٹھہرایا۔ یہ حملہ ایرانی ایجنٹوں اور ایران کی حمایت یافتہ لبنانی شیعہ حزب اللہ تحریک کے ارکان نے کیا تھا۔
ایران کے وزیر انٹیلیجنس کے بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے اور ایک عدالت نے قرار دیا کہ قتل کا حکم ایران کے سپریم لیڈر اور صدر کے علم میں لایا گیا تھا۔
تب سے ایسا لگتا ہے کہ ایرانی حکومت اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لیے اغوا اور قتل کے لیے مجرمانہ تنظیموں کی خدمات حاصل کر رہی ہے۔
لیکن برطانیہ کے کاؤنٹر ٹیررازم پولیسنگ کے سربراہ میٹ جُوکس کہتے ہیں کہ پولیس کے لیے جرائم پیشہ گروہوں کے اندر رسائی حاصل کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ نظریاتی طور پر ایرانی حکومت سے وابستہ نہیں ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان گروہوں کے اندر ایران کی رسائی اور تعلق کو توڑنے کی پولیس بھرپور کوشش کر رہی ہے۔