دریا میں گاڑی پھینکنے سے تھانے کے چکر لگانے تک: پولیس اپنے ہی دوست کے مبینہ قاتل تک کیسے پہنچی؟

دیپن پٹیل گاڑیوں کی نمبر پلیٹ بنانے کا کام کرتا تھا۔ اس دوران ان کا تعارف آر ٹی او ایجنٹ ہاردک پرجاپتی سے ہوا۔ کچھ ہی عرصے میں دونوں اچھے دوست بن گئے لیکن کسی کو اندازہ نہیں ہو سکتا تھا کہ ایک دن ان دو دوستوں میں سے ایک دوسرے کے قتل کا ملزم ہو گا۔

’میں بوڑھا ہو گیا ہوں، میرا اکلوتا بیٹا لاپتہ ہو گیا ہے، اس لیے محلے کے لوگوں نے ہماری مدد کی، جس میں دیپن کا دوست بھی تھا، جو مدد کے بہانے تھانے آیا کرتا تھا، وہ تفتیش میں پیشرفت کا جائزہ لیتا اور پھر یہ ساری تفصیلات جمع کر کے ثبوت مٹا دیتا تھا۔ اگر وہ ہمارے ساتھ نہ ہوتا تو اپنے بیٹے کی گلی سڑی لاش ڈھونڈنے کے بجائے، میں اس کا چہرہ دیکھ پاتا۔۔‘

یہ الفاظ ہیں گردے کے مرض میں مبتلا مکیش پٹیل کے جن کا اکلوتا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ 62 برس کے مکیش پٹیل ضلع گجرات کے شہر وڈودرا کے رہائشی ہیں۔

انھوں نے چار برس قبل مقامی سگریٹ کی ایک کمپنی سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ تاہم اب بیٹے کی موت کے بعد پورے خاندان کی ذمہ داری ایک بار پھر ان کے کندھوں پر آ گئی ہے۔

دیپن پٹیل گاڑیوں کی نمبر پلیٹ بنانے کا کام کرتا تھا۔ اس دوران ان کا تعارف آر ٹی او ایجنٹ ہاردک پرجاپتی سے ہوا۔ کچھ ہی عرصے میں دونوں اچھے دوست بن گئے لیکن کسی کو اندازہ نہیں ہو سکتا تھا کہ ایک دن ان دو دوستوں میں سے ایک دوسرے کے قتل کا ملزم ہو گا۔

دیپن کے والد مکیش کی طرف سے درج مقدمے کے مطابق کچھ عرصہ قبل دیپن اور ہاردک کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوا اور پھر دونوں میں صلح بھی ہو گئی تھی۔ تاہم، سات مئی کو جب دیپن اپنے سسرال جا رہے تھے تو ہاردک نے انھیں ایک جگہ بلایا اور انھیں قتل کر دیا۔

اب اس پورے معاملے میں ہاردک پرجاپتی کو تکنیکی نگرانی کی بنیاد پر گرفتار کر لیا گیا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔

بی بی سی گجراتی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پولیس آخر کار اس قتل کے ملزم تک کیسے پہنچی۔

ہر روز پولیس سٹیشن آنے والے ہاردک کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کو ثبوت کیسے ملے؟

وڈودرا کرائم برانچ کے پولیس افسر ہرپال سنگھ راٹھوڑ نے بی بی سی گجراتی کو بتایا کہ ’پولیس نے تحقیقات شروع کیں اور سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کرنے کے بعد پتہ چلا کہ دیپن کی کار کو رات 9:27 بجے ہالول-وڈودرا ہائی وے پر گولڈن چوکی سے گزرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ کار ہالول کی طرف جارہی تھی۔۔ درج کرائی جانے والی شکایت میں دیپن کے والد کے بیان میں ہاردک کے ساتھ لڑائی کا بھی ذکر ہے۔‘

ہرپال سنگھر کا دعویٰ ہے کہ ’اس دوران جب ہم نے ہاردک سے پوچھ گچھ کی تو وہ اپنی کہانی بدلتا رہا اور کہتا رہا کہ وہ دیپن کو ڈھونڈنے میں مگن رہا، اس لیے میرا شبہ مزید پختہ ہو گیا کہ ہاردک اس واقعے میں ملوث ہے۔'

ان کے مطابق ’جب ہم نے ان کے اور دیپن کے موبائل فون کی لوکیشن چیک کی تو دونوں کے لوکیشن بھی ایک ہی مقام کی نکلی۔۔۔ ہالول-وڈودرا آر ٹی او سے ہالول ہائی وے تک۔‘

آخرکار سچ کیسے سامنے آیا اس کے بارے میں بات کرتے ہوئےہرپال سنگھ نے بتایا کہ ’ہاردک کی ایک گرل فرینڈ ہے اور ہاردک نے اس کی ملاقات دیپن سے کروائی تھی۔ ہاردگ کی گرل فرینڈ اور دیپن کا تعلق ایک ہی ذات سے تھا تو کچھ ہی عرصے میں ہاردک کی گرل فرینڈ نے دیپن کے ساتھ بہت سی باتیں شیئر کرنا شروع کر دیں۔

’اسی دوران دیپن نے ہاردک سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ ان کی ذات سے تعلق رکھنے والی کسی خاتون کے ساتھ تعلقات نہ رکھیں۔۔‘

ہرپال سنگھ کا کہنا ہے کہ ’اس معاملے پر دونوں کے ناراض ہونے کے بعد ہاردک نے ایک ماہ تک دیپن کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا، انھوں نے 15 دن پہلے قتل کے لیے ایک کٹر خریدا تھا اور دارجی پورہ سے مرچیں بھی خریدی تھیں۔ سات تاریخ کو جب دیپن اپنے گھر سے نکلے تو ہاردک نے ان سے لفٹ مانگی۔ آگے جا کر جب ہاردک نے گاڑی کو ایک جگہ پر کھڑا کیا تو دیپن نے ان کی آنکھوں میں مرچیں پھینک دیں اور پھر کٹر سے دیپن پر پے درپے وار کیے۔‘

پولیس افسر کے مطابق ہاردک اس کے بعد کٹر اور دیپن کی لاش کو لے کر گاؤں سے ہوتا ہوا ہالول کی طرف نکل گیا تاکہ گاڑی سی سی ٹی وی میں نظر نہ آ سکے۔‘

وہاں انھوں نے دیپین کی لاش نرمدا کی نہر میں پھینک دی، ہم اس جگہ گئے، نہر کے پشتے پر خون کے دھبے ملے۔ خون آلود کپڑے کنویں میں ملے جہاں ہاردک نے اپنے خون آلود کپڑے پھینکے تھے۔‘

ہرپال سنگھ کا کہنا ہے کہ ’ہاردک کی کوئی مجرمانہ تاریخ نہیں ہے، لیکن جس طرح انھوں نے قتل کیا اور شواہد کو مٹایا وہ انتہائی چالاک قاتلوں کو بھی شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے۔‘

قتل کے بعد ہاردک نے جو حکمت عملی اختیار کی تھی اس کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہاردک نے دیپن کی سوئفٹ کار کی نمبر پلیٹ ہٹا دی اور کار کو دو دن کے لیے وسنا گاؤں میں اپنے دوست کے گھر چھوڑ آئے۔‘

اس کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ سفر کرتے اور دیپین کی تلاش کے لیے تھانے آتے تاکہ وہ معلومات حاصل کر سکیں کہ پولیس کی تفتیش کہاں تک پہنچی ہے۔ اس دوران دیپن کی لاش ملی تو ہاردک نے جہاں سے لاش ملی تھی، اس کے مخالف سمت میں دریائے ماہی میں کار کے ایکسلیٹر پر پتھر رکھ دیا اور کار کو دریا میں پھینک دیا تاکہ پولیس کی تفتیش کا رخ موڑا جا سکے۔

ہرپال سنگھ کے مطابق کار تک پہنچ کر ہمارے شکوک و شبہات مزید بڑھ گئے۔ ان کے مطابق ہاردک دوران تفتیش اپنی بے گناہی پر مصر تھا مگر پھر مزید تفتیش کے دوران ثبوت تک مل گئے۔

دیپن کے گھر والوں کا کیا کہنا ہے؟

دیپن کے والد مکیش پٹیل کا کہنا ہے کہ ہاردک دیپن کی تلاش میں ان کے ساتھ گھوم رہا تھا، اس لیے انھیں اس پر شک نہیں ہوا۔ لیکن ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ صورت حال ہو گی۔‘

ان کے مطابق ’دیپن اچھی کمائی کر رہا تھا، اس لیے اس نے قرض پر کار لی تھی۔ میں نے سوچا کہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد سکون کی سانس لے سکوں گا، لیکن میرے بیٹے کو قتل کر دیا گیا اور ہمیں اس کی بوسیدہ لاش ملی۔ اب مجھے بڑھاپے میں اپنی چار برس کی پوتی اور دیپین کے ہونے والے بچے کی ذمہ داری اٹھانا پڑے گی۔‘

دیپن کی حاملہ بیوی سونل پٹیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جس دن دیپن کا قتل ہوا میں میں اپنے والدین کے گھر پر تھی۔ ہاردک نے مجھے سات تاریخ کو فون کیا اور پوچھا کہ دیپن کہاں ہے کیوں کہ اس کا فون کال وصول نہیں کر رہا تھا تو میں نے فون کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ اس لیے میں نے اپنے سسر کو فون کیا اور بتایا کہ دیپن میری طرف آنے والا تھا لیکن اب اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔‘

’میری چار برس کی بیٹی 7 تاریخ سے اپنے والد کے بغیر نہیں سوئی۔ میرے شوہر کے قتل سے تین دن پہلے انھوں نے میری بیٹی ویہانا کے نام کا ٹیٹو بنوایا تھا۔ ہم اپنے دوسرے بچے کے مستقبل کے خواب دیکھ رہے تھے اور میرا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی یتیم ہو گیا۔

دارجی پورہ میں رہنے والے اشوک پٹیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ہاردک کے بہن بھائی یہاں گھر کو تالے لگا کر چلے گئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بھاو نگر سے وڈودرا آنے والے ہاردک پرجاپتی ایک بیچلر ہیں۔ ہاردک کا بھائی ہتیش پرجاپتی وڈودرا میں رکشہ چلاتا ہے۔ ہاردک اپنے بہنوئی کے ساتھ رہتے تھے۔ چونکہ منجل پور کا کرایہ زیادہ تھا تو تقریباً ڈھائی سال پہلے انھوں نے دیپن کی مدد سے 50 روپے ماہانہ کے حساب سے درجی پور میں مکان کرایہ پر لیا۔ پتہ نہیں وہ اب کہاں ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.