فائبر آپٹک ڈرون: یوکرین جنگ کو تیزی سے بدلنے والا یہ خوفناک نیا ہتھیار کیا ہے؟

اس ڈرون کے نیچے کئی کلومیٹر لمبی کیبل لگی ہوتی ہے، جو پائلٹ کے پاس موجود کنٹرولر کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔ ڈرون میں ویڈیو اور کنٹرول سگنل کو ریڈیو فریکوئنسی کے ذریعے نہیں بلکہ کیبل کے ذریعے منتقل کیا جاتا ہے۔
فائبر آپٹک ڈرون
Getty Images
گذشتہ دو ہفتے کے دوران سیز فائر کی سفارتی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں جبکہ روس کی پیش قدمی بڑھ رہی ہے اور بی بی سی کو اس کا ثبوت رودینسک میں ملا

یوکرین کے قصبے رودینسک میں ایک ناخوشگوار سی بو تھی۔ یہاں داخل ہوئے ہمیں ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ہمیں سمجھ آ گئی یہ بو کہاں سے آ رہی ہے۔

250 کلوگرام کا ایک گلائیڈ بم اس علاقے کی مرکزی انتظامی عمارت پر گرا اور تین رہائشی بلاک تباہ ہو گئے۔ ہم اس بم گرنے کے ایک دن بعد یہاں پہنچے تھے لیکن ملبے کے ڈھیر سے ابھی بھی دھواں نکل رہا تھا۔ جب یوکرین کے فوجی کسی ڈرون کو مار گراتے ہیں تو ہمیں گولیوں کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔

رودینسک یوکرین کے جنگ زدہ شہر پوکرووسک سے تقریباً 15 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ روس گزشتہ سال کے موسم خزاں سے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یوکرینی افواج اب تک روسی فوجیوں کو آگے بڑھنے سے روکنے میں کامیاب رہی ہیں۔

تو اب روس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے اس شہر کو گھیرے میں لینے کی بجائے سپلائی کے راستے منقطع کر دیے ہیں۔

گذشتہ دو ہفتے کے دوران سیز فائر کی سفارتی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں جبکہ روس کی پیش قدمی بڑھ رہی ہے اور ہمیں اس کا ثبوت رودینسک میں ملا۔

ہمیں اس قصبے میں داخل ہوئے کچھ ہی لمحے ہوئے تھے کہ ہمیں اپنے اوپر ایک روسی ڈرون کی آواز سنائی دی۔ ہماری ٹیم بھاگ کر پاس ہی موجود ایک درخت کے نیچے چلی گئی۔

ہم نے خود کو درخت کے نیچے چھپا لیا تاکہ ڈرون ہمیں دیکھ نہ سکے۔ پھر ہمیں ایک زوردار دھماکے کی آواز سنائی دی، یہ کوئی دوسرا ڈرون تھا جو قریب ہی کسی جگہ کو نشانہ بنا رہا تھا۔

ہمارے اوپر موجود ڈرون ابھی بھی گردش کر رہا تھا۔ کچھ ہی منٹ بعد ہمیں خوفناک سرسراہٹ کی آواز سنائی دیتی ہے جو اس جنگ کا سب سے مہلک ہتھیار بن گیا ہے۔

جب یہ آواز آنا بند ہوئی تو ہمیں بھاگنے کا موقع ملا اور ہم نے 100 فٹ کے فاصلے پر موجود ایک خالی عمارت میں پناہ لی۔

وہاں سے ہمیں ڈرون کی آواز دوبارہ سنائی دی۔ ممکن ہے کہ ہمیں حرکت میں دیکھ کر یہ ڈرون واپس آیا ہو۔

رودینسک میں روس کے ڈرون حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ حملے پوکرووسک کے جنوب میں واقع روسی ٹھکانوں سے کہیں زیادہ قریب سے ہو رہے ہیں۔ یہ ڈرون غالباً پوکروسک کے مشرق سے صنعتی شہر کوستیانتینیفکاجانے والی اہم سڑک پر روس کے نئے قبضہ شدہ علاقے سے آ رہے تھے۔

رودینسک
BBC
رودینسک یوکرین کے جنگ زدہ شہر پوکرووسک سے تقریباً 15 کلومیٹر شمال میں واقع ہے

پناہ گاہ میں آدھا گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد جب ڈرون کی آواز آنا بند ہو گئی تو ہم جلدی سے اپنی کار کی جانب گئے اور رودینسک سے نکل آئے۔

ہائی وے کے کنارے ہمیں دھواں اٹھتا اور کچھ جلتا ہوا دکھائی دیا، غالباً وہاں کوئی ڈرون گرا تھا۔

ہم بیلیتسک شہر پہنچ گئے جو فرنٹ لائن سے دور ہے۔ ہم نے دیکھا کہ گذشتہ رات ہونے والے میزائل حملے کے بعد یہاں کئی مکان تباہ ہو چکے تھے۔ ان میں سے ایک گھر سویتلانا کا تھا۔

گھر کے ملبے سے اپنا کچھ سامان جمع کرتے ہوئے انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے ہمیں دور سے دھماکوں کی آواز آتی تھی لیکن اب ہمارے علاقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘

جب یہ حملہ ہوا تو خوش قسمتی سے سویتلانا اس وقت اپنے گھر پر موجود نہیں تھیں۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ ’علاقے کے مرکز میں جائیں، آپ کو اندازہہو گا کہ کتنی تباہی ہوئی۔ بیکری اور چڑیا گھر بھی تباہ ہو چکے ہیں۔‘

ان ڈرونز کی پہنچ سے دور ایک سیف ہاؤس میں ہماری ملاقات یوکرینی فوج کے سپاہیوں سے ہوئی۔ ایک فوجی سرہی نے ہمیں بتایا کہ ’آپ روسی حملوں کی شدت میں اضافہ محسوس کر سکتے ہیں۔ راکٹ، مارٹر گولے اور ڈرون، وہ شہر جانے والے سپلائی کے راستے منقطع کرنے کے لیے ہر چیز استعمال کر رہے ہیں۔‘

ان کا یونٹ تین دن سے اپنی پوزیشنوں پر تعینات ہونے کا انتظار کر رہا ہے تاکہ بادلوں یا تیز رفتار ہواؤں کی موجودگی میں انھیں ڈرون سے تحفظ مل سکے۔

تیزی سے تبدیل ہوتے تنازعے میں، فوجیوں کو بدلتی ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے نئے خطرات سے بھی نمٹنا ہوتا ہے اور تازہ ترین خطرہ فائبر آپٹک ڈرون ہے۔

اس ڈرون کے نیچے کئی کلومیٹر لمبی کیبل لگی ہوتی ہے، جو پائلٹ کے پاس موجود کنٹرولر کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔ ڈرون میں ویڈیو اور کنٹرول سگنل کو ریڈیو فریکوئنسی کے ذریعے نہیں بلکہ کیبل کے ذریعے منتقل کیا جاتا ہے۔

ایک یوکرینی فوجی نے ہمیں بتایا کہ ’اس کا مطلب ہے کہ اسے الیکٹرانک انٹرسیپٹرز کے ذریعے غیر فعال نہیں کیا جا سکتا۔‘

جب روس اور یوکرین کی اس جنگ میں بڑے پیمانے پر ڈرونز کا استعمال شروع ہوا تو دونوں ملکوں کی فوج نے اپنے الیکٹرانک وارفیئر نظام کا استعمال شروع کر دیا جو ڈرون کو ناکارہ بنا سکتا تھا۔

لیکن یہ حفاظتی نظامفائبر آپٹک ڈرون کی آمد سے ختم ہو گیا اور فی الحال ان آلات کی تعیناتی میں روس کو برتری حاصل ہے جبکہ یوکرین اپنی پیداوار بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

یوکرینی فوج میں ڈرون پائلٹ وینیا کے مطابق ’روس نے ہم سے بہت پہلے فائبر آپٹک ڈرون استعمال کرنا شروع کر دیے تھے جبکہ ہم اس وقت انھیں ٹیسٹ کر رہے تھے۔ یہ ڈرون ایسی جگہوں پر استعمال ہوتے ہیں جہاں ہمیں دوسرے ڈرونز کے مقابلے میں زیادہ نیچے جانا ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ ہم گھروں میں داخل ہو کر اپنے ٹارگٹ کو تلاش کر سکتے ہیں۔‘

سرہی کہتے ہیں کہ ’ہم اس بارے میں مذاق کرتے ہیں کہ اس تار کو کاٹنے کے لیے ہمارے پاس قینچیاں ہونی چاہیے۔‘

فائبر آپٹک ڈرونز کے کچھ نقصان بھی ہیں: ان کی رفتار کم ہوتی ہے جبکہ کیبل درختوں میں پھنس سکتی ہے لیکن روس کی طرف سے ان کے وسیع پیمانے پر استعمال کا مطلب یہ ہے کہ فوجیوں کو ان کی پوزیشنوں تک پہنچانا اور وہاں سے لے جانا اکثر میدان جنگ سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔

یوکرینی فوج میں چیف سرجنٹ اولیس کہتے ہیں کہ ’جب آپ کسی پوزیشن میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آیا آپ کو دشمن نے دیکھ لیا یا نہیں اور اگر آپ کو دیکھ لیا گیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات گزار رہے ہوں۔‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ فوجی اپنی پوزیشنوں پر زیادہ سے زیادہ وقت گزار رہے ہوتے ہیں۔

ہم نے اولیس اور ان کے ساتھی میکسیم سے ایک دیہی گھر میں ملاقات کی، جسے ایک عارضی اڈے میں تبدیل کیا گیا ہے اور جہاں فوجی اس وقت آرام کرتے ہیں جب وہ تعینات نہیں ہوتے۔

میکسیم نے ہمیں بتایا کہ ’میں نے ایک پوزیشن پر سب سے زیادہ لمبا عرصہ جو گزارا وہ 31 دن تھے لیکن میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے وہاں 90 اور یہاں تک کہ 120 دن بھی گزارے۔ ڈرونز کے آنے سے پہلے ہم ان پوزیشنز پر تین یا سات دن گزارتے تھے۔‘

’جنگ خون، موت اور گیلی مٹی کی طرح ہے، ایک ایسا سرد احساس جو سر سے پاؤں تک دوڑ جاتا ہے اور آپ ہر دن ایسے ہی گزارتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہم تین دن تک نہیں سوئے تھے۔ روسی جوق در جوق ہماری طرف آ رہے تھے۔ اگر ہم صرف ایک منٹ بھی چوکنا نہ رہتے تو اس کا مطلب تھا کہ ہم مر جائیں گئے۔‘

فائبر آپٹک ڈرونز، یوکرین جنگ
BBC
فائبر آپٹک ڈرونز کے کچھ نقصان بھی ہیں جیسے ان کی رفتار کم ہوتی ہے اور ان کی تار درختوں میں پھنس سکتی ہے

اولیس نے ہمیں بتایا کہ روسی فوج نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے۔ ’پہلے وہ گروپ کی صورت میں حملہ کرتے تھے لیکن اب وہ ایک وقت میں صرف ایک یا دو لوگوں کو بھیجتے ہیں۔ وہ موٹر سائیکل بھی استعمال کرتے ہیں اور کبھی کواڈ بائیکس بھی۔‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ حصوں میں فرنٹ لائن اب روایتی جنگی محاذ کی طرح نہیں کہ جن میں ایک طرف یوکرین اور دوسری طرف روس کے فوجی ہیں بلکہ یہ صورتحال شطرنج جیسی ہے، جہاں پر پوزیشنز آپس میں جڑی ہو سکتی ہیں۔

اس وجہ سے دونوں طرف سے پیشرفت دیکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ روس کی تمام تر حالیہ کامیابیوں کے باوجود اس کے لیے یہ آسان نہیں کہ وہ دونیتسک کے پورے خطے پر کنٹرول حاصل کر لے۔

یوکرین نے روس کی پیش قدمی کو خاصی مزاحمت سے روک رکھا ہے لیکن اس جنگ میں اپنی جگہ پر کھڑے رہنے کے لیے اسے ہتھیاروں اور گولہ بارود کی مسلسل فراہمی کی ضرورت ہے۔

ایک بہت بڑی روسی فوج کے خلاف یوکرین کی افرادی قوت کے مسائل بھی واضح ہیں۔ ہماری ملاقات بہت سے ایسے فوجیوں سے ہوئی، جنھوں نے یہ جنگ شروع ہونے کے بعد یوکرینی فوج میں شمولیت اختیار کی۔ ان کو صرف کچھ ماہ تربیت دی گئی لیکن اس جاری جنگ کے دوران انھیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔

میکسیم فوج میں آنے سے پہلے مشروبات کی ایک کمپنی میں کام کرتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ان کا خاندان ان کی فوج میں شمولیت کے بارے میں کیا کہتا ہے۔

اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’یہ بہت مشکل ہے، بہت زیادہ مشکل۔ میرا خاندان مجھے سپورٹ کرتا ہے لیکن میرا دو برس کا بیٹا ہے۔ میری اس سے زیادہ ملاقات نہیں ہوتی۔ میں اسے ویڈیو کال کرتا ہوں لیکن سب کچھ اتنا ہی ٹھیک ہے جتنا ایسے حالات میں ہو سکتا ہے۔‘

میکسیم ایک فوجی ہیں جو اپنے ملک کے لیے لڑ رہے ہیں لیکن وہ ایک باپ بھی ہیں جو اپنے دو برس کے بیٹے کو یاد کرتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.