مس برطانیہ کے ساتھ بھارت میں ایسا کیا سلوک ہوا جو وہ مقابلہ حُسن چھوڑ کر چلی گئیں؟

image

دنیا کی نظریں جہاں عالمی مقابلہ حسن پر جمی تھیں، وہیں 24 سالہ ملیا میگی مس انگلینڈ 2024 نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے بھارت میں خواتین کے ساتھ برتاؤ کے جھوٹے چمکتے چہرے کو بے نقاب کر دیا۔

بھارتی شہر حیدرآباد میں منعقدہ اس ایونٹ میں شرکت کے دوران ملیا نے ایسے تجربات کا سامنا کیا، جنہیں وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتیں۔ برطانوی میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ، "ہمیں یوں پیش کیا گیا جیسے کوئی سرکس ہو، جیسے ہم نمائش کی چیزیں ہوں، نہ کہ خودمختار خواتین۔"

ملیا کے مطابق انہیں اور دیگر شرکاء کو ہر وقت بال گاؤنز میں رہنے پر مجبور کیا گیا — حتیٰ کہ ناشتے کے دوران بھی۔ اس ماحول میں نہ کوئی پروفیشنلزم تھا اور نہ ہی عزت نفس کی کوئی پرواہ۔ ہمیں کاروباری افراد کے ساتھ وقت گزارنے کو کہا گیا، جو صرف شو میں سرمایہ کار تھے، مگر وہ ہمیں سننے یا سمجھنے کے لیے نہیں، تفریح کے لیے وہاں تھے۔

میگی نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے سماجی مشن اور ہمدردی پر بات چھیڑنے کی کوشش کی تو ردعمل صرف لاتعلقی اور سطحی گفتگو تھی۔

مجھے بورنگ کہا گیا، ایک خاتون نے میرے چہرے کے سامنے تالیاں بجا کر مجھے 'متوجہ' کرنے کی کوشش کی — مجھے لگا جیسے میرا وقار کچلا جا رہا ہو۔

16 مئی کو ملیا نے نہایت باوقار انداز میں مقابلے سے علیحدگی کا اعلان کیا اور اپنے آبائی شہر کارنوال (برطانیہ) واپس روانہ ہوگئیں۔ ان کی جگہ اب شارلٹ گرانٹ (مس لیورپول) عالمی مقابلے میں برطانیہ کی نمائندگی کریں گی۔

ملیا کا یہ قدم صرف ایک ذاتی احتجاج نہیں، بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے؛

"خوبصورتی صرف ظاہری نہیں، خودداری بھی خوبصورتی ہے۔"

یہ واقعہ ایک مرتبہ پھر اس سوال کو جنم دیتا ہے: کیا عالمی پلیٹ فارمز پر خواتین کو واقعی عزت دی جاتی ہے، یا وہ اب بھی محض 'شو پیس' سمجھی جاتی ہیں؟


About the Author:

Salwa is a skilled writer and editor with a passion for crafting compelling narratives that inspire and inform. With a degree in Journalism from Karachi University, she has honed her skills in research, interviewing, and storytelling.

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.