ٹیکسٹائل کے برآمد کنندگان نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ بجٹ میں ان پالیسی اقدامات کو واپس لیا جائے جو 9 ارب ڈالر سے زائد کی ویلیو ایڈڈ برآمدات کو برقرار رکھنے والی سپلائی چینز میں خلل ڈال رہے ہیں۔
باوثوق ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کو لکھے گئے ایک مشترکہ خط میں پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر جی ایم ای اے) اور پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (پی ایچ ایم اے) نے ٹیرف سے متعلق رکاوٹوں اور پابندیوں پر مبنی پالیسیوں کو حل کرنے کے لیے فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ پالیسیاں سپلائی چین کو محدود کر رہی ہیں۔
ایسوسی ایشنز کے مطابق ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن اسکیم (ای ایف ایس) میں حالیہ تبدیلیوں نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (ایس ایم ایز) کو منفی طور پر متاثر کیا ہے، ان کا مطالبہ ہے کہ اسکیم کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے تاکہ استحکام، عالمی مسابقت اور خریداروں کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ انہوں نے آئندہ بجٹ میں برآمد کنندگان کے لیے فائنل ٹیکس نظام کی بحالی کا مطالبہ کیا، جس سے تعمیل کے اخراجات اور انتظامی پیچیدگیاں کم ہوں گی اور ایس ایم ایز کو مالی استحکام حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
وزیراعظم سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ہدایت کریں کہ سیلز ٹیکس اور کسٹمز چھوٹ کے خودکار اور تیز رفتار نظام کے علاوہ مقامی ٹیکسز اور لیویز ڈرا بیک (ڈی ایل ٹی ایل) اور ڈیوٹی ڈرا بیک آف ٹیکسز (ڈی ڈی ٹی) کی فوری ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔
ایسوسی ایشنز نے درخواست کی کہ ڈی ایل ٹی ایل اسکیم کو بغیر کسی شرط کے ایک آسان اور کاغذ سے پاک طریقہ کار کے تحت جاری رکھا جائے تاکہ لیکویڈیٹی کے مسائل کو دور کیا جاسکے۔ مزید برآں، حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وہ پاکستان کے موجودہ 29 فیصد ٹیرف میں کمی اور برآمدی مسابقت میں اضافے کے لیے امریکا کے ساتھ ملبوسات کے ٹیرف کو صفر پر لانے کے لیے نتیجہ خیز مذاکرات کرے۔
خط میں خبردار کیا گیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو برآمدی یونٹس کی بڑے پیمانے پر بندش، غیر ملکی زرمبادلہ میں کمی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے، مزید کہا گیا کہ یہ اقدامات نہ صرف پاکستان کے سب سے بڑے روزگار فراہم کرنے والے برآمدی شعبے کے تحفظ بلکہ ایک کھرب ڈالر کی برآمدات کے ہدف کے حصول کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔ ملبوسات کے برآمد کنندگان نے اس جانب توجہ دلائی کہ عالمی خریدار اب ایسے تصدیق شدہ اور اعلیٰ کارکردگی والے مواد کا مطالبہ کرتے ہیں جو پاکستان میں آسانی سے دستیاب نہیں، تاہم اس طرح کے ضروری خام مال کی درآمد اب بھی ڈیوٹی اور فرسودہ ضوابط کی وجہ سے رکاوٹ کا شکار ہے۔
پی آر جی ایم ای اے کے ریجنل چیئرمین ڈاکٹر ایاز الدین اور پی ایچ ایم اے کے زونل چیئرمین عبدالحمید نے بجٹ سے قبل وزیراعظم سے براہ راست اور فوری ملاقات کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ اگر بروقت مداخلت نہ کی گئی تو پاکستان عالمی سورسنگ پیٹرن میں تبدیلی کے عمل سے محروم ہو جائے گا، جو نئے برآمد کنندگان کے لیے نئے مواقع پیدا کر رہا ہے۔ ڈاکٹر ایازالدین نے نشاندہی کی کہ پاکستان اب بھی کپاس پر مبنی برآمدات پر انحصار کر رہا ہے، جبکہ دنیا کی تقریباً 80 فیصد ملبوساتی تجارت اب مصنوعی اور فنکشنل ٹیکسٹائل پر منتقل ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک صحیح خام مال تک رسائی حاصل نہیں ہوگی توسیع یا تنوع ممکن نہیں، ہمیں ایسی اشیا درآمد کرنے پر جرمانہ ادا کرنا پڑ رہا ہے جو پاکستان میں تیار ہی نہیں ہوتیں۔
جبکہ عبدالحمید نے بتایا ایچ ایس کوڈز 54، 55 اور 96 کے تحت آنے والے مصنوعی ریشے، تکنیکی دھاگے، پرفارمنس فیبرکس اور اہم لوازمات (کریٹیکل ٹرمز) جو کہ پاکستان میں دستیاب نہیں، ان پر بھی درآمدی ڈیوٹی عائد ہے۔ انہوں نے کہا کہ دستیاب نہ ہونے والے خام مال پر محصولات برقرار رکھنا برآمدات پر ٹیکس لگانے کے مترادف ہے، اس سے پہلے کہ وہ برآمد ہوں۔
پی آر جی ایم ای اے کے سابق چیئرمین اعجاز کھوکھر اور ساجد سلیم منہاس نے نشاندہی کی کہ ایس ایم ایز کو کمزور پالیسیوں اور عالمی تقاضوں کے مطابق لچکدار نہ ہونے والے ضوابط کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اعجاز کھوکھر نے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم اور وزارت تجارت کو ایک تفصیلی خط بھیجا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن اسکیم میں ان پٹ کی مدت کو 60 دن سے کم کرکے صرف 9 ماہ کرنا ملبوساتی شعبے کے لیے غیر حقیقی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹرز عام طور پر جسٹ ان ٹائم اور نو اسٹاک ماڈلز پر کام کرتے ہیں، جن کے لیے متنوع آرڈرز کے تحت طویل ان پٹ سائیکل درکار ہوتا ہے، موجودہ پالیسیوں کی وجہ سے آپریشنل خلل اور تعمیل کے بوجھ میں اضافے کا خطرہ ہے۔
ساجد سلیم منہاس نے کہا کہ مقامی اسپننگ انڈسٹری آج کی عالمی فیشن مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں، چونکہ ہم خریداروں کے مطلوبہ مواد تیار نہیں کرتے اس لیے ہمیں کم از کم ان کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دی جانی چاہیے، ورنہ ہم خود کو تیزی سے بڑھنے والی مارکیٹ سے باہر کر رہے ہیں۔
اعجاز کھوکھر نے مختلف ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر کو ایک مسلسل مسئلہ قرار دیا، ان کے مطابق ڈی ایل ٹی ایل، ڈی ڈی ٹی، سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس کی واپسی میں تاخیر کے باعث برآمد کنندگان کو شدید لیکویڈیٹی بحران کا سامنا ہے، اس مسئلے کے حل کے لیے ریفنڈ پروسیسنگ کا ایک خودکار اور بروقت نظام متعارف کروانے کی درخواست کی گئی ہے۔
مزید برآں، دونوں ایسوسی ایشنز نے ’میڈ ان پاکستان‘ گارمنٹس کے فروغ کے لیے ایک موثر قومی مارکیٹنگ مہم کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے وزارت تجارت سے مطالبہ کیا کہ وہ سفارت خانوں، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور ہدفی (بی2بی) ایونٹس کے ذریعے عالمی سطح پر پاکستانی مصنوعات کی رسائی اور مرئیت کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرے۔