ایسٹ انڈیا کمپنی: دنیا کی ’طاقتور ترین کارپوریشن‘ جس کے افسران کی کرپشن، بدانتظامی اور لالچ اس کے زوال کا باعث بنی

بیورج نے اپنی کتاب کا اختتام ( ایک انگریز افسر) فرانسس کے اس خط سے کیا ہے جو انھوں نے نند کمار کی پھانسی کے صرف دو دن بعد(اعلیٰ افسر) سر ایڈورڈ ہیوز کو لکھا،'نند کمارکوسات یا آٹھ سال پہلے کی گئی ایک جعلسازی کا مجرم قرار دیا گیا، سزا سنائی گئی اور گزشتہ ہفتے سنیچر کے روز پھانسی دے دی گئی۔ میرے برادر نسبتی (میکریبی) اپنی سرکاری حیثیت کے باعث وہاں تھے۔ اس تمام کارروائی کے دوران می

نند کمار کو پھانسی تو جعلسازی کے الزام میں دی گئی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بنگال کے اِس سرکاری اہل کار کا اصل جرم ایسٹ انڈیا کمپنی کے پہلے گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز پر بدعنوانی کے الزامات لگانا تھا جس کی پاداش میں ان کے دوست جج نے اپنے فیصلے میں مبینہ واقعہ ہندوستان میں ہونے کے باوجود برطانیہ کے قانون کا سہارا لیا جس میں اس جرم کی سزا موت مقرر تھی۔

تب تک مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی 1707 میں وفات کے بعد مغل سلطنت بکھرنے پر ہندوستان میں تجارت کے لیے اجازت کی محتاج برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی خود عملی طور پر ایک خودمختار ریاست بن چکی تھی لیکن اس عروج کے ساتھ ساتھ کمپنی میں منافع خوری اور کرپشن کی ایسی گراوٹ بھی آئی کہ مبصرین کے مطابق انصاف، طاقت اور سازش کی سرحدیں دھندلا گئیں اور نند کمار کا ’عدالتی قتل‘ ہوا۔

ہنری بیورج نے اپنی کتاب ’دی ٹرائل آف مہاراجا نند کمار: اے نیریٹوآف اے جوڈیشل مرڈر‘ میں ’ثبوتوں‘ کے ساتھ لکھا ہے کہ ’جس دستاویز کی جعل سازی کا الزام تھا وہ اصل تھی اور استغاثہ اسے جعلی ثابت کرنے میں ناکام رہا تھا، اس سے پہلے یہ مقدمہ نہیں بنایا گیا‘ اور یہ بھی کہ ’واقعاتی ثبوت ہیں کہ اب مقدمہ بنانے والے اصل میں ہیسٹنگز ہی تھے۔‘

 رابرٹ کلائیو
Getty Images
نیشنل آرمی میوزیم نے رابرٹ کلائیو کو بہادر، ہوشیار اور بے رحم فوجی کمانڈر کے طور پر طورپر بیان کیا

انھوں نے گواہیوں کو’مشکوک‘ قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ ’مقدمہ غیرمنصفانہ طریق سے چلایا گیا، ہیسٹنگز کے ہم راز چیف جسٹس ایلیجا امپی کا رویہ برا رہا۔‘

انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ’جیوری متعصب اور نااہل تھی اور یہ پھانسی ناانصافی پر مبنی تھی چاہے نند کمار کو قصوروار ہی کیوں نہ مان لیا جائے، اور یہ دراصل رشوت اور بدعنوانی کی تحقیقات کو دبانے کی ایک سازش کا نتیجہ تھی۔‘

بیورج نے اپنی کتاب کا اختتام ( ایک انگریز افسر) فرانسس کے اس خط سے کیا ہے جو انھوں نے نند کمار کی پھانسی کے صرف دو دن بعد (اعلیٰ افسر) سر ایڈورڈ ہیوز کو لکھا تھا: ’نند کمارکو سات یا آٹھ سال پہلے کی گئی ایک جعلسازی کا مجرم قرار دیا گیا، سزا سنائی گئی اور گذشتہ ہفتے سنیچر کے روز پھانسی دے دی گئی۔ میرے برادر نسبتی (میکریبی) اپنی سرکاری حیثیت کے باعث وہاں تھے۔ اس تمام کارروائی کے دوران نند کمار نے انتہائی وقار اور سکون کا مظاہرہ کیا اور ایسا حوصلہ دکھایا جیسے انھیں انجام کی کوئی پروا نہ ہو۔‘

’چاہے وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزام کے مجرم تھے یا نہیں، یہاں کسی شخص کو اس میں شک نہیں کہ اگر وہ سیاست میں پیش پیش نہ ہوتے تو ان کے دیگر ’جرائم‘ انھیں نقصان نہ پہنچاتے۔‘

ایسٹ انڈیا کمپنی: تجارت سے طاقت تک

31 دسمبر 1600 کو لندن میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے مشرق کے ساتھ تجارت کے مکمل اختیارکے ساتھ اپنے قیام کے کچھ عرصے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان آئی۔

شروع میں مغل حکمرانوں نے انگریز تاجروں کو خوش آمدید کہا۔ دونوں فریقوں کو تجارت میں فائدہ نظر آیا۔ کمپنی 1668 تک ہندوستان کے مختلف ساحلی علاقوں میں قدم جمانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس نے مدراس (جنوب مشرقی ساحل)، بمبئی (سورت سے کچھ جنوب میں جہاں کمپنی نے پہلا قدم رکھا)، اور سب سے اہم کلکتہ (شمال مشرقی ساحل) میں اپنی تجارتی کوٹھیاں اور فیکٹریاں قائم کر لیں۔

مگر صدی کے آخر تک مغلوں سے کمپنی کے تعلقات بگڑ گئے۔

جب مزید تجارتی مراعات مانگنے پر انکار ہوا تو کمپنی نے بندرگاہیں بند کر دیں اور مغلوں سے جنگ چھیڑ دی، جسے اینگلو-مغل جنگ (1686–1690) کہا جاتا ہے۔

اورنگزیب عالمگیر نے انگریزوں کو شکست دی۔ انھیں لگا کہ یہ تاجر کوئی بڑا خطرہ نہیں اس لیے صرف معافی اور جرمانے پر اکتفا کیا۔

لیکن عالمگیر کی وفات کے بعد مغل سلطنت کا شیرازہ بکھرنے لگا اور یہی وقت تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے طاقت اور پیسہ سمیٹا۔ کمپنی نے اپنی ابتدائی فتوحات کے بعد فرانس اور ہالینڈ کو بھی برصغیر سے نکال باہر کیا۔

برطانیہ کے نیشنل آرمی میوزیم نے رابرٹ کلائیو کو ’نواب جنرل‘ کہتے ہوئے ایک ’بہادر، ہوشیار اور بے رحم فوجی کمانڈر‘ کے طور پر طور پر بیان کیا ہے جنھوں نے’برطانیہ کے لیے ہندوستان میں ایک سلطنت کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔‘

رابرٹ کلائیو نے نواب سراج الدولہ کے درباریوں جگت سیٹھ، رائے دُرلبھ، یار لطف خان اور امیر چند کو رشوت دی، حتیٰ کہ فوج کے سربراہ میر جعفر کو بھی خریدا اور 23 جون 1757 کی جنگ پلاسی آسانی سے جیت لی۔ برطانوی مورخ پی ای رابرٹس نے لکھا کہ ’یہ جنگ کم اور بھاگ دوڑ زیادہ تھی۔‘

مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکار لارڈ کلائیو کو بنگال کے جملہ حقوق کی دیوانی پیش کرتے ہوئے
Getty Images
مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکار لارڈ کلائیو کو بنگال کے جملہ حقوق کی دیوانی پیش کرتے ہوئے

سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے غلاموں کی تجارت پر انحصار کرتے ہوئے برائن ڈوینان کی انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے لیے تحقیق ہے کہ سنہ 1757میں بنگال میں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کے بعد کمپنی کی بد انتظامی اور 1770 کے خوفناک قحط کے نتیجے میں بنگال کی زمینی آمدن میں شدید کمی واقع ہوئی جس کے باعث کمپنی دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔

برطانیہ کے نیشنل آرمی میوزیم کے مطابق کلائیو ایک لالچی سرمایہ کار بھی ثابت ہوئے جنھوں نے اپنی سیاسی اور فوجی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے بھاری دولت جمع کی۔

کلائیو نے دو مرتبہ بنگال کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دیں (60-1758 اور (67-1764) ان کی پہلی مدتِ حکمرانی میں بنگال کی باقاعدہ لوٹ مار ہوئی اور جب وہ برطانیہ واپس گئے تو پارلیمان میں ایک بدعنوان ’نواب‘ کے طور پر ان کی شدید مذمت کی گئی۔

’اگرچہ انھوں نے بعد میں بنگال کے انتظام میں اصلاحات اور بدعنوانی کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن جب وہ 1767 میں واپس برطانیہ آئے تو انھیں ایک بار پھر شدید سیاسی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل جان برگوئن، ایڈمنڈ برک اور دیگر ارکانِ پارلیمان نے ان پر بدعنوانی کا الزام لگایا، جس پر کلائیو نے جواب دیا کہ ’میں اپنی ہی بردباری پر حیران ہوں۔‘

’اگرچہ پارلیمان نے ان کے حق میں قرارداد منظور کی، لیکن غالباً بیماری اور ڈپریشن کے امتزاج نے انھیں 24 نومبر 1774 کو خودکشی پر مجبور کر دیا۔ جب وہ مرے تو ان کی دولت تقریباً پانچ لاکھ پاؤنڈ تھی جو آج کے حساب سے تقریباً 33 ملین پاؤنڈ کے برابر ہے۔‘

جنگ پلاسی
Getty Images
برطانوی مورخ پی ای رابرٹس نے لکھا کہ جنگ پلاسی جنگ کم اور بھاگ دوڑ زیادہ تھی

کلائیو کی ذاتی آمدنی 234,000 پاؤنڈ سالانہ

مورخ رومیش چندر دت نے ’دی اکنامک ہسٹری آف انڈیا انڈرارلی برٹش رول‘ میں لکھا ہے کہ کمپنی کے ملازمین پہلے دولت کمانے آتے تھے، حکمرانی بعد میں کرتے تھے۔ بدانتظامی اور بدعنوانی کمپنی کے نظام سے الگ نہیں ہو سکتے تھے۔

تھامس میکالے لکھتے ہیں ’کلائیو نے ایک تاجر نہیں بلکہ فاتح اور راجاؤں کا آقا بن کر دولت کمائی۔‘

چندردت کے مطابق سنہ 1765سے 1780 کے دوران کمپنی کے افسران بنگال سے ہر سال اوسطاً 30 لاکھ پاؤنڈ برطانیہ منتقل کرتے رہے جو کل آمدنی کا 25 فیصد تھا۔ یہ دولت کا انخلاتھا جس نے مقامی معیشت کو تباہ کر دیا۔

لیکن ڈوینان لکھتے ہیں کہ 1772 میں کمپنی کی ایک ہنگامی قرضے کی درخواست پر برطانوی حکومت نے ایک ملین پاؤنڈ کا بیل آؤٹ دیا۔

’اس بحران کے بعد کمپنی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور برطانوی پارلیمانی کمیٹیوں کی تحقیقات کے نتیجے میں کمپنی پر سرکاری نگرانی مسلط کر دی گئی۔

پہلے 1773 کے ریگولیٹنگ ایکٹ کے تحت اور پھر 1784 کے انڈیا ایکٹ کے ذریعے جس کے بعد ہندوستان میں سیاسی فیصلوں پر حکومتِ برطانیہ کا کنٹرول قائم ہو گیا۔

ڈوینان کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس اپنی فوج تھی جو 1800 تک دو لاکھ سپاہیوں پر مشتمل ہو چکی تھی یعنی اُس وقت کی برطانوی فوج سے دو گنا بڑی۔

’کمپنی نے اسی فوج کے ذریعے اُن ہندوستانی ریاستوں اور نوابیوں کو زیر کیا جن سے اس نے ابتدا میں صرف تجارتی معاہدے کیے تھے۔ اس نے ظالمانہ ٹیکس وصولی، سرکاری سرپرستی میں لوٹ مار، اور ماہر اور غیر ماہر ہندوستانی مزدوروں کے معاشی استحصال کے تحفظ کے لیے بھی اپنی مسلح طاقت استعمال کی۔‘

لندن کاؤنٹی کاؤنسل کی تختی جس پر کلائیو کو ایڈمنسٹریٹر اور سولجر (فوجی) لکھا ہے
Getty Images
لندن کاؤنٹی کاؤنسل کی تختی جس پر کلائیو کو ایڈمنسٹریٹر اور سولجر (فوجی) لکھا ہے

برطانوی پارلیمنٹ کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرگرمیوں، خاص طور پر اس کے ملازمین کے رویے نے برطانیہ میں شدید عوامی غصہ پیدا کیا۔

’کمپنی کے وہ ملازمین جو بدعنوان تجارت اور دیگر ذرائع سے بے حد دولت مند بن گئے تھے وہ ’نواب‘ کہلاتے تھے۔ خدشہ تھا کہ یہ افراد، ان کے ایجنٹ اور رشوت لینے والے، برطانوی پارلیمنٹ کو بھی بدعنوانی میں مبتلا کر دیں گے اور وہاں ایک ناقابل شکست ’ایسٹ انڈین مفاد‘ قائم ہو جائے گا۔

’کمپنی کے ناقص انتظام پر بھی سخت مایوسی تھی، خاص طور پر 1772 میں جب کمپنی دیوالیہ ہو گئی۔ اس کے ردِعمل میں لارڈ نارتھ کا ریگولیٹنگ ایکٹ 1773 پیش کیا گیا۔ کمپنی کے کئی اہلکاروں کے ظالمانہ اور بدعنوان رویے پر بھی شدید تنقید کی گئی۔

’پلاسی کے فاتح رابرٹ کلائیو 1761 سے شروزبری کے ایم پی تھے۔ انھیں مئی 1773 میں پارلیمنٹ میں تین دن تک مسلسل اپنے دفاع میں تقریریں کرنی پڑی، جب جنرل جان برگوئن (ایم پی برائے پریسٹن) نے ان کے خلاف سخت الزامات لگائے۔

’ایڈمنڈ برک (ایم پی برائے مالٹن) کمپنی کی بدعنوانی اور اخلاقی زوال کے سب سے شدید ناقد بنے۔ انھوں نے سابق گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز (1773–85 17) کے خلاف بدانتظامی اور کرپشن کے الزامات پر مواخذے کی مہم چلائی۔

ہیسٹنگز پر نند کمار کے مقدمے سمیت ’سنگین جرائم اور خلاف ورزیوں‘ کا الزام لگا کر 1787 میں مواخذہ کیا گیا۔ یہ مقدمہ 1788 میں ویسٹ منسٹر ہال میں شروع ہوا اور پارلیمانی تاریخ کا سب سے طویل مواخذہ بن گیا۔

’برک نے ہیسٹنگز کو گناہوں کا سپہ سالار، جہنم کا مکڑا، اور لاشوں کو نوچنے والا گِدھ قرار دے کر ان پر شدید حملے کیے۔ لیکن تمام تر جوش و خروش اور اخلاقی دلائل کے باوجود ہیسٹنگز کو اپریل 1795 میں بری کر دیا گیا۔‘

’کلائیو اور ہیسٹنگز کے خلاف مقدمات نے عوامی دلچسپی اور جوش کو ابھارا۔ اس دور میں ایونجیلیکل تحریک کے اثر سے برطانوی عوام میں یہ احساس بڑھ رہا تھا کہ ہندوستان پر برطانوی حکمرانی کو اخلاقی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔‘

لیکن ڈونیان کے مطابق ’انیسویں صدی کے اوائل سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے غیرقانونی طور پر چین کو افیون فروخت کرنا شروع کی تاکہ وہ ہندوستانی چائے اور دیگر اشیا کی خریداری کا خرچ پورا کر سکے۔ چین کی طرف سے اس تجارت کی مخالفت کے نتیجے میں پہلی اور دوسری افیون جنگیں (42-1839) اور (60-1856) ہوئیں، جن میں دونوں بار انگریزوں کو فتح حاصل ہوئی۔‘

سابق گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز
Getty Images
سابق گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز

1813 اور 1833 کے چارٹر ایکٹس نے کمپنی کی چین اور ہندوستان کے ساتھ تجارت پر اجارہ داری ختم کر دی۔ اس کے بعد دیگر برطانوی تاجر بھی ہندوستانی منڈی تک رسائی حاصل کر سکتے تھے اور کمپنی محض ایک علامتی تجارتی ادارہ بن کر رہ گئی۔

پرسیول سپئیر(اے ہسٹری آف انڈیا) کے مطابق انیسویں صدی کے وسط تک کمپنی ایک تجارتی ادارے کے طور پر اپنی معنویت کھو چکی تھی۔

سنہ (58-1857) کی ’سپاہی بغاوت‘ جسے ہندوستان میں ’پہلی جنگِ آزادی‘ کہا جاتا ہے، ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ثابت ہوئی۔ اس کی قیادت خود کمپنی کے ہندوستانی سپاہیوں نے اپنے انگریز افسران کے خلاف کی جو جلد ہی عوامی حمایت حاصل کرکے ایک ہمہ گیر آزادی کی جدوجہد میں تبدیل ہو گئی۔

یہی بغاوت بالآخر 1858 میں کمپنی کے حکومتی اختیارات چھن جانے اور تاجِ برطانیہ کے براہِ راست قبضے کا سبب بنی۔ برطانوی تاج نے 274 سالہ کاروباری تاریخ کے بعد یکم جون 1874 کو ایسٹ انڈیا کمپنی کو تحلیل کر دیا۔

تاریخ دان مارک کارٹ رائٹ لکھتے ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی خود ہی اپنے زوال کی ذمہ دار تھی، اور اس کا انجام بنیادی طور پر ہندوستان میں شدید بدانتظامی کی وجہ سے ہوا۔

مورخ ولیم ڈالرمپل نے ’ڈاؤن ٹو ارتھ ‘میگزین کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ضروری ہے کہ برطانیہ کمپنی کی لوٹ مار، کرپشن اور اثاثوں کی چوری کو تسلیم کرے، اور ہندوستانیوں کو اس میں مقامی تعاون کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔

’جگت سیٹھ اور ہندو بینکاروں نے کمپنی کا ساتھ دیا۔ بنگال کے بھدرلوک طبقے نے مغل جاگیریں خریدیں۔ دیب، ملک اور ٹیگور خاندانوں نے ان جائیدادوں سے فائدہ اٹھایا اور کمپنی کے نظام میں شامل ہو گئے۔ بنگالی مڈل کلاس نے کمپنی کے بانڈز خریدے اور اس میں سرمایہ کاری کی۔ ان تمام عوامل کے بغیر کمپنی شاید کامیاب نہ ہو پاتی۔‘

ہنری بیورج کی کتاب سے علم ہوتا ہے کہ وارن ہیسٹنگز کی جانب سے نند کمار کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے جن مشکوک گواہوں کا سہارا لیا گیا وہ بھی تو آخر کو ہندوستان ہی سے تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.