اپنی کتاب ’حیدر اور ان کے بیٹے ٹیپو سلطان کی تاریخ‘ میں میسٹر لا ٹو لکھتے ہیں کہ حیدر کا قد تقریباً 5 فٹ 6 انچ تھا۔ ان کا رنگ گندمی اور چہرہ کھردرا تھا۔ وہ پیدل یا گھوڑے پر میلوں کا سفر کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ سفید ململ کے کپڑے اور پگڑی پہننے کو ترجیح دیتے تھے۔

سنہ 1757 میں پلاسی کی جنگ جیتنے کے ایک عشرے کے اندر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹروں نے محسوس کیا کہ ہندوستانی شہزادوں کی فوجی صلاحیتیں تیزی سے بڑھرہی ہیں اور ان کے لیے پلاسی جیسی فتح کو دہرانا مشکل ہو گا۔
ہندوستانی شاہی ریاستوں کو یورپی فوجی ٹیکنالوجی سے مماثل ہونے میں صرف ایک دہائی لگی۔ 1760 کی دہائی کے وسط تک یہ واضح ہوتا جا رہا تھا کہ ان کی فوجی صلاحیتوں اور انگریزوں کے درمیان فرق کو عملی طور پر ختم کر دیا گیا تھا۔ انگریزوں کو سب سے پہلے حیدر علی کی طرف سے جنوب میں ایک چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔
لیون بی بورنگ اپنی کتاب ’حیدر علی اور ٹیپو سلطان‘ میں لکھتے ہیں ’میسور 18ویں صدی میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کا مرکز تھا۔ میسور دنیا کے مشرقی حصے کی تاریخ میں سب سے زیادہ جرات مندانہ اور دلچسپ سرگرمیوں کی جائے پیدائش سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں انگریزوں کو اپنے سب سے خطرناک حریف کا مقابلہ کرنا پڑا تھا۔‘
اگرچہ حیدر علی اور ان کے بیٹے ٹیپو سلطان کی حکومت صرف 38 سال تک چلی لیکن اس مختصر عرصے میں ایسے واقعات رونما ہوئے جنھوں نے برطانوی سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا۔

پیدائشی جنگجو
حیدر علی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پنجابی نژاد تھے اور میسور کی فوج میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ 1776 میں انھوں نے میسور کے وڈیار بادشاہ کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ انھوں نے میسور کی فوج کا حجم بڑھایا اور چھوٹی پڑوسی ریاستوں کو فتح کرنا شروع کیا۔
عرفان حبیب اپنی کتاب ’حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے تحت مزاحمت اور جدیدیت‘ میں لکھتے ہیں کہ ’حیدر نے فرانسیسی کمانڈروں کو اپنی فوجوں کو تربیت دینے کے لیے بلایا۔ انھوں نے سری رنگا پٹنہ کے دفاعکو مضبوط کرنے کے لیے فرانسیسی انجینئروں کو استعمال کیا۔
حیدر نے اپنی بحریہ بنانے کی بھی کوشش کی۔ 1766 میں ان کے پاس دو بڑے جنگی جہاز، سات چھوٹے جنگی جہاز اور 40 کشتیاں تھیں۔ ان سب کی کمان سٹینیٹ نام کے ایک یورپی کے پاس تھی۔‘
حیدر علی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پیدائشی سپاہی تھے۔ وہ نہ صرف گھڑ سواری میں ماہر تھے بلکہ تلوار بازی اور بندوق چلانے میں بھی ماہر تھے۔
لیون بورنگ لکھتے ہیں ’حیدر میں تھکاوٹ کو برداشت کرنے کی قابلِ ذکر حد تک صلاحیت تھی۔ فوجیوں کی قیادت کرتے ہوئے وہ اپنی جان کو لاحق خطرے کی بالکل فکر نہیں کرتے تھے، اس لیے ان کے سپاہی ان کے لیے کوئی بھی خطرہ مول لینے کے لیے تیار تھے۔ حیدر کی خاصیت جنگ کے دوران پرسکون رہنا اور تیز اور اچانک حملہ کرنا تھا جس میں وہ سب سے زیادہ کامیاب رہے۔‘
حیدر علی گھڑ سواری اور بندوق چلانے میں ماہر تھےحیدر کا روز کا معمول
اپنی کتاب ’حیدر اور ان کے بیٹے ٹیپو سلطان کی تاریخ‘ میں میسٹر لا ٹو لکھتے ہیں کہ حیدر کا قد تقریباً 5 فٹ 6 انچ تھا۔ ان کا رنگ گندمی اور چہرہ کھردرا تھا۔ وہ پیدل یا گھوڑے پر میلوں کا سفر کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ سفید ململ کے کپڑے اور پگڑی پہننے کو ترجیح دیتے تھے۔
’انھیں زیورات کا شوق نہیں تھا۔ اگرچہ حیدر ظاہری شکل میں پرکشش نہیں تھے لیکن ان کی موجودگی سے اعتماد اور توانائی کا تاثر ملتا تھا۔ وہ روزانہ آدھی رات کو سو جاتے اور صبح چھ بجے سورج نکلنے کے ساتھ ہی بیدار ہو جاتے۔‘
میسور لکھتے ہیں ’میسور کا بادشاہ بننے کے بعد انھوں نے اپنے چہرے کے تمام بال منڈوائے، ان کی نہ داڑھی تھی نہ مونچھیں، نہ پلکیں، نہ ابرو۔ وہ صبح 8 سے 9 کے درمیان محل سے دربار میں آتے جس کے بعد وہ بالکونی پر چڑھ کر ہاتھیوں اور گھوڑوں کو سلام کرتے۔۔ حیدر پڑھے لکھے نہیں تھے اور انھوں نے بڑی مشکل سے اپنے نام کا پہلا حرف لکھنا سیکھا۔‘
حیدر راوانی کنڑ، تیلگو، مراٹھی اور تامل روانی سے بول سکتے تھے لیکن انھیں فارسی یا عربی کی کوئی سمجھ نہیں تھی۔ اپنی ناخواندگی کے باوجود ان کی یادداشت بہت اچھی تھی۔ ان کے پاس ان لوگوں کو پہچاننے کی بھی غیر معمولی صلاحیت تھی جن سے وہ دہائیوں پہلے ملے تھے۔

حیدر نے کھلے عام اعلان کیا کہ تمام مذاہب خدا کا تحفہ ہیں
حیدر کے دور میں مذہبی معاملات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ حیدر نے میسور کے مشہور دسہرہ تہوار کو جاری رکھنے کی اجازت دی جو 1610 سے منایا جا رہا تھا۔ انھوں نے ذاتی طور پر دسہرہ تہوار میں شرکت کی۔
وہ وجئے دشمی کے دسویں دن جلوس کے آگے ہاتھی پر سوار ہو کر نکلے۔ مارک ولکس نے اپنی کتاب ’ہسٹوریکل سکیچز آف دی ساؤتھ آف انڈیا ان این اٹیمپٹ ٹو ٹریس دی ہسٹری آف میسور‘ میں لکھا ہے، ’تمام مسلمان بادشاہوں میں حیدر سب سے زیادہ روادار تھے۔ وہ نہ تو اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھنا جانتے تھے اور نہ ہی انھیں سکھایا گیا تھا۔ انھوں نے کھلے عام اعلان کیا کہ تمام مذاہب خدا کا تحفہ ہیں اور خدا کی نظر میں تمام مذاہب برابر ہیں۔‘
حیدر نے 27 اپریل 1769 کو سرینگری مٹھ کے جگد گرو شنکراچاریہ کو ایک خط لکھا۔ اے کے شاستری اپنی کتاب ’سرنگری دھرمستھان کے ریکارڈز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایک خط میں بتایا گیا ہے کہ حیدر نے بھگوان کے لیے ایک ہاتھی، پانچ گھوڑے، ایک پالکی، پانچ اونٹ، ایک ساڑھی، ایک تھیلی اور دس ہزار روپے بھیجے تھے۔‘
انھوں نے جگد گرو کو ایک عظیم اور مقدس روح کے طور پر مخاطب کیا۔
راکٹ کا پہلا استعمال

اگست 1767 میں حیدر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ اس وقت حیدر کی فوج کی تعداد 50 ہزار تھی۔ اس وقت کمپنی حیدر کی جدید فوجی طاقت سے بے خبر تھی۔ حیدر کے سپاہیوں کی رائفلیں اور توپیں جدید فرانسیسی ٹیکنالوجی پر مبنی تھیں۔ ان کی توپوں کا بور اور رینج کمپنی کی توپوں سے کہیں زیادہ تھا۔
فرانسیسی مؤرخ ژاں میری لافون انڈیا اور فرانس کے تعلقات (1630-1976) پر مبنی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’حکمتِ عملی سمیت بہت سے معاملات میں حیدر کے دستے انگریزوں سے زیادہ ہوشیار تھے۔ وہ اونٹوں سے راکٹ فائر کرنے میں ماہر ہو چکے تھے۔ بعد میں انگریزوں نے بھی یہ تکنیک اپنائی۔‘
بالآخر انگریزوں کو حیدر کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے پر مجبور کیا گیا جس سے بہت سی ہندوستانی شاہی ریاستوں کو یہ احساس ہوا کہ جنگ میں انگریزوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔

انگریزوں پر حملہ
7 فروری 1780 کو وڈگاؤں کے معاہدے کے ایک سال بعد مراٹھا لیڈر نانا فڈنویس نے اپنے پرانے دشمن حیدر علی کو خط لکھا جس میں مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر انگریزوں کے خلاف افواج میں شامل ہوں۔
ایک ماہ کے اندر حیدرآباد کے نظام نے بھی حیدر کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ موسم گرما تک ان تینوں طاقتوں نے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا۔
ایک ماہ بعد برطانوی اڈے مدراس تک یہ خبر پہنچی کہ حیدر کو فرانس سے ہتھیاروں کی ایک بڑی کھیپ ملی ہے۔ آخر کار 17 جولائی 1780 کو حیدر علی نے انگریزوں پر دوبارہ حملہ کر دیا۔ اس بار ان کے پاس دو گنا فوج تھی۔
ان کی فوج 60 ہزار گھڑ سوار، 35 ہزار پیادہ اور 100 توپوں پر مشتمل تھی۔ کاغذوں می کمپنی نے مدراس کے دفاع کے لیے 30 ہزار فوجیوں کو تعینات کیا تھا لیکن حقیقت میں اس مہینے صرف آٹھ ہزار فوجیوں کو اکٹھا کیا جا سکا۔
مارک ولکس اپنی کتاب ’ہسٹوریکل سکیچز آف دی ساؤتھ آف انڈیا‘ میں لکھتے ہیں ’حیدر جس رفتار سے آگے بڑھے اس نے برطانوی فوجیوں کی تعداد میں مزید کمی کردی۔ ان فوجیوں میں سے بہت سے خاندان آرکوٹ میں رہتے تھے، اپنی بیویوں اور بچوں کی حفاظت کے لیے ان فوجیوں نے انگریزوں کو چھوڑ دیا یا تو انھوں نے حیدر کے سامنے ہتھیار ڈال دیے یا اپنے اڈوں کے دروازے کھول دیے۔ مدراس، ویلور اور آرکوٹ کے آس پاس کے دیہاتوں کو آگ لگا دی گئی۔‘

منرو اور بیلی کی افواج کو متحد کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی
25 اگست 1780 کو جنوبی ہندوستان کی سب سے بڑی برطانوی فوج نے حیدر کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے مدراس سے کانچی پورم کی طرف مارچ کیا۔ اس فوج کی قیادت جنرل ہیکٹر منرو کر رہے تھے، وہی جنرل جس نے 15 سال قبل بکسر کی جنگ میں شجاع الدولہ کو شکست دی تھی۔
اس بار ان کی فوج صرف پانچ ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی جنھیں مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی تھی اور وہ حیدر کی ایک لاکھ کی بڑی فوج کا سامنا کر رہے تھے۔ تیس میل شمال میں کرنل ولیم بیلی کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے فوجیوں کے ساتھ منرو کی فوج میں شامل ہوں۔
غلام حسین خان اپنی کتاب ’سیر المطخرین‘ میں لکھتے ہیں ’حیدر کے پاس اتنے سپاہی تھے کہ انھوں نے سمندر کی غضبناک لہروں کی طرح پوری زمین کو ڈھانپ لیا، ان کے پیچھے آنے والا توپ خانہ ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ اسی دوران تیز بارش شروع ہو گئی اور بیلی کو دریائے کورتلیئر کے اس پار اپنے دستوں کو پہنچانے میں گیارہ دن لگے۔ اس دوران حیدر کے بیٹے ٹیپو نے اپنے 11 ہزار سپاہیوں کو منرو اور بلی کی فوج کے بیچ پہنچا دیا۔‘
جب حیدر کی فوج نے بیلی کی فوج کا محاصرہ کر لیا
دونوں افواج کے درمیان چھ ستمبر کو لڑائی چھڑ گئی۔ کیپٹن موات لکھتے ہیں کہ دونوں افواج کے مابین جب لڑائی جاری تھی تو، اس وقت شدید بارش ہو رہی تھی۔
اُن کے بقول بیلی کی فوج کی کمزوریاں اس جنگ کے دوران کھل کر سامنے آئیں، دونوں افواج کے درمیان دوبدو لڑائی کے بجائے، فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے لڑائی ہوئی۔
کچھ دیر بعد اُنھیں ڈھول بجنے کی آواز سنائی دینے لگی، بیلی نے سمجھا کہ منرو کے آدمی اُن کی مدد کے لیے آ رہے ہیں۔ جب یہ ایک دوسرے کے قریب پہنچے تو اُنھیں اندازہ ہوا کہ حیدر اپنی 25 ہزار فوج کے ساتھ وجود ہے۔
بیلی کا چھوٹے بھائی نے اس جنگ سے متعلق لکھا کہ ’ہمیں حیدر علی کی گھڑ سوار فوج نے گھیرے میں لے لیا، اُن کے پیچھے توپیں تھیں۔ لگ بھگ 50 توپوں نے ہمیں گھیر لیا۔‘
’حیدر نے لڑائی میں کچھ وقفے کا حکم دیا اور اپنی توپوں کو آگے لانے کا حکم دیا، ہمارے پاس اُن کا مقابلہ کرنے کے لیے وسائل نہیں تھے۔‘

انگریزوں کی شکست
اپنا تمام تر اسلحہ استعمال کرنے کے بعد بیلی نے ایک سفید کپڑا، تلوار پر چڑھایا اور ہتھیار ڈالنے کی کوشش کی۔ بیلی نے اپنے فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا، کچھ تک اس کے احکامات نہیں پہنچے اور فائرنگ کرتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ حیدر نے سرنڈر تسلیم نہیں کیا۔
حیدر علی کی گھر سوار فوج نے شکست خوردہ، برطانوی فوج کا قتل عام شروع کیا۔ برطانوی مصنفین نے اس میدان جنگ کی دردناک کہانیاں بیان کی ہیں۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ بہت سے برطانوی فوجی دم گھٹنے سے ہلاک ہوئے۔ کچھ فوجی تو حرکت کرنے سے بھی قاصر تھے، کیونکہ جنگ میں کام آنے والے اُن کے ساتھیوں کی لاشیں اُن کے اُوپر پڑی تھیں۔
کچھ فوجی ہاتھیوں کے پاؤں تلے بھی کچلے گئے۔ کچھ کے کپڑے پھٹ چکے تھے اور وہ شدید گرم موسم میں پیاس سے بے حال تھے۔ برطانوی فوج کے 86 افسران میں سے 36 مارے جا چکے تھے۔ 34 زخمی ہوئے تھے اور 16 کو جنگی قیدی بنا لیا گیا۔
بیلی اس جنگ میں زخمی ہوئے اور اُن کے سر اور کمر پر چوٹیں آئیں۔ اُن کی ایک ٹانگ بھی اس جنگ میں ضائع ہو گئی۔ آخرکار بیلی کو ایک توپ کے ساتھ باندھ کر حیدر کے سامنے پیش کیا گیا۔ پہلی مرتبہ کمپنی کے فوجیوں کو پتہ چلا کہ شکست کیا ہوتی ہے اور جنگی قیدی بننے کا کیا مطلب ہے۔
برطانوی قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک
لگ بھگ سات ہزار برطانوی فوجیوں کو اس جنگ کے دوران قید کر لیا گیا۔ ایک قیدی جیمز سکری نے اپنی کتاب میں لکھا کہ حیدر کی قید میں تین سال بعد میں بھول چکا تھا کہ کرسی پر بیٹھنا کیسے ہے، چھری اور کانٹے کے ساتھ کھایا کیسے جاتا ہے۔
سکری کا کہنا تھا کہ ’میں انگریزی زبان کا استعمال بھی بھول گیا تھا، میری جلد سیاہ ہو گئی تھی اور میں یورپین لباس کو ناپسند کر رہا تھا۔‘
مایا جسنوف اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ’اگر حیدر علی نے بیلی کی شکست کے بعد لڑائی جاری رکھی ہوتی تو اس بات کا بہت زیادہ امکان تھا کہ وہ سینٹ جارج قلعے پر قبضہ کر لیتے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ کمپنی کے لیے یہ خوش قسمتی کی بات تھی کہ حیدر اپنی فوج کا تحفظ چاہتے تھے۔ اُنھوں نے براہ راست تصادم کی پالیسی کو ترک کرنے میں عافیت جانی اور کمپنی پر مخصوص حملوں اور فرار کی پالیسی اپنائی۔
اگلے چند مہینوں میں، گورنر جنرل ہیسٹنگز مراٹھوں کے ساتھ حیدر کا اتحاد توڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہیسٹنگز نے مراٹھا کمانڈر مہادجی سندھیا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کے تحت مراٹھا انگریزوں کے اتحادی بن گئے۔ نتیجے کے طور پر، حیدر انگریزوں کے ساتھ اگلی جنگ میں اپنی کامیابی کو دہرانے سے قاصر رہے۔
ولیم ڈیلریمپل اپنی کتاب ’دی انارکی‘ میں لکھتے ہیں کہ اگر حیدر اور ان کے ساتھیوں نے 1780 میں کمپنی پر دباؤ کم نہ کیا ہوتا تو انگریز ہمیشہ کے لیے ہندوستان چھوڑ چکے ہوتے۔ بعدازاں میسور اور پونے کی عدالتوں نے اس موقع سے فائدہ نہ اُٹھانے پر ہمیشہ افسوس کا اظہار کیا۔

کمر کے کینسر سے موت
سنہ 1782 میں حیدر کی کمر پر ایک پھوڑا نمودار ہوا اور رفتہ رفتہ یہ بڑا ہوتا گیا اور بعد میں پتہ چلا کہ حیدر کو کینسر ہے۔
دوسری اینگلو میسور جنگ کے دوران حیدر کی سنگین بیماری نے اس کی طاقت اور رفتار کو نمایاں طور پر کم کر دیا۔ سات دسمبر 1782 کو زمین سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچنے والا یہ شخص 60 سال کی عمر میں وفات پا گیا۔
شما راؤ نے اپنی کتاب ’ماڈرن میسور فرام بیگننگ ٹو 1868‘ میں لکھا ہے، ’یہ کہنا کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ حیدر کی موت کا وقت ہندوستانی تاریخ کا صرف ایک واقعہ نہیں تھا۔ ان کی موت نے ہندوستان میں برطانوی اقتدار کی بنیاد ڈالی۔‘