شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان غیر روایتی ’معلومات کی جنگ‘ جس میں کم جونگ اُن کی برتری بڑھتی جا رہی ہے

شمالی اور جنوبی کوریا تکنیکی طور پر اب بھی جنگ کی حالت میں ہیں اور اگرچہ کئی برسوں سےدونوں جانب سے کوئی گولہ باری نہیں ہوئی لیکن اب یہ جنگ ایک زیادہ غیر روایتی محاذ پر لڑی جا رہی ہے اور وہ ہے معلومات کی جنگ۔
جنوبی کوریا
Getty Images

شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان موجود سرحد تہہ در تہہ گھنی خاردار تاروں سے لیس ہے وہیں سرحد کی حفاظت کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں چوکیوں پر چوکس گارڈز تعینات ہیں۔

لیکن ان سب کے درمیان ایک چیز انتہائی غیر معمولی ہے اور وہ ہے وہاں موجود سبز رنگ کے نظروں سے اوجھل ہونے والےدیوہیکل سپیکرز۔

گذشتہ ماہ ایک سہ پہر جب میں شمالی کوریا کی طرف نظر جمائے دیکھ رہا تھا تو ایک سپیکر سے جنوبی کوریا کے پاپ میوزک کی ایسی دھماکے دار آوازیں بلند ہوئیں جس میں تخریبی پیغامات بھی شامل تھے۔

اس دوران ایک خاتون کی آواز سرحد پار سے بلند ہوئی ’جب ہم بیرون ملک سفر کرتے ہیں تو اس سے ہمیں توانائی ملتی ہے۔‘

ایک واضح بات یہ ہے کہ شمالی کوریا کے لوگوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔

شمالی کوریا کی طرف سے میں فوجی پروپیگنڈا پر مبنی مدھم سی موسیقی سن سکتا تھا جو ان کی حکومت کی جانب سے اشتعال انگیز نشریات کو دبانے کی ایک کوشش تھی۔

شمالی اور جنوبی کوریا تکنیکی طور پر اب بھی جنگ کی حالت میں ہیں اور اگرچہ کئی برسوں سےدونوں جانب سے کوئی گولہ باری نہیں ہوئی لیکن اب یہ جنگ ایک زیادہ غیر روایتی محاذ پر لڑی جا رہی ہے اور وہ ہے معلومات کی جنگ۔

جنوبی کوریا
Getty Images
جنوبی و شمالی کوریا کی سرحد پر نصب خاردار تاروں کے درمیان ایک چیز انتہائی غیر معمولی ہے اور وہ ہے وہاں موجود سبز رنگ کے نظروں سے اوجھل ہونے والےدیوہیکل سپیکرز۔

جنوبی کوریا شمالی کوریا تک معلومات پہنچانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن بھرپور طریقے سے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی عوام کو تمام بیرونی معلومات سے بچا کر رکھ سکیں۔

یاد رہے کہ شمالی کوریا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں انٹرنیٹ کی رسائی تاحال نہ ہو سکی۔ وہاں تمام ٹی وی چینلز، ریڈیو سٹیشنز اور اخبارات ریاست کے زیرِ انتظام چلتے ہیں۔

واشنگٹن میں قائم سٹمسن سینٹر کے سینیئر فیلو اور شمالی کوریا کی ٹیکنالوجی اور معلومات کے ماہر مارٹن ولیمز اس کی وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس کنٹرول کی وجہ یہ ہے کہ کِم خاندان سے متعلق زیادہ تر کہانیاں حقیقت پر مبنی نہیں۔ وہ جو کچھ عوام کو بتاتے ہیں اس میں بہت کچھ جھوٹ شامل ہوتا ہے۔‘

جنوبی کوریا یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس جھوٹ کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد پرعیاں کر دیا جائے تو حکومت کا تختہ الٹ سکتا ہے۔

جنوبی کوریا کی حکومت کی جانب سے لاؤڈ سپیکر محض اس کوشش کا ایک ذریعہ ہیں لیکن پسِ پردہ زیرِ زمین ایک ایک زیادہ پیچیدہ تحریک بھی پنپ چکی ہے۔

چند ایک نشریاتی ادارے اور غیر منافع بخش تنظیمیں ہر رات گھپ اندھیرے میں شارٹ اور میڈیم ویو(ریڈیائی لہریں) پر معلومات شمالی کوریا میں نشر کرتی ہیں تاکہ وہاں کے لوگ چھپ کر یہ نشریات سن سکیں۔

سرحد پر خاردار تاریں
Getty Images

ہر ماہ ہزاروں یو ایس بی سٹکس اور مائیکرو ایس ڈی کارڈز سرحد پار سمگل کیے جاتے ہیں جن میں بین الاقوامی معلومات بھری ہوتی ہیں اور انہی میں جنوبی کوریائی فلمیں، ٹی وی ڈرامے، پاپ میوزک اور خبریں بھی موجود ہوتی ہیں، جن کا مقصد شمالی کوریا کے پروپیگنڈے کو چیلنج کرنا ہوتا ہے۔

مگر اب اس شعبے میں کام کرنے والوں کو خدشہ ہے کہ شمالی کوریا ان پر برتری حاصل کر رہا ہے۔

نہ صرف یہ کہ کم جونگ اُن غیر ملکی مواد رکھنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کر رہے ہیں بلکہ اس مہم کا مستقبل بھی خطرے میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

اس کام کے لیے مالی معاونت زیادہ تر امریکی حکومت فراہم کرتی ہے جو حالیہ دنوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امدادی کٹوتیوں سے متاثر ہوئی ہے۔

تو ایسے میں برسوں سے جاری اس معلوماتی جنگ میں دونوں فریق کہاں کھڑے ہیں؟

پاپ میوزک اور ٹی وی ڈراموں کی سمگلنگ

 میوزیکل بینڈ
Getty Images
غیر ملکی ڈراموں اور کے-پاپ میوزک کی یو ایس بی سٹکس شمالی کوریا میں سمگل کی جاتی ہیں

ہر ماہ جنوبی کوریا کی غیر منافع بخش تنظیم ’یونیفیکیشن میڈیا گروپ‘ (یو ایم جی) کی ایک ٹیم تازہ ترین خبریں اور تفریحی مواد چھانٹ کر ایسی پلے لسٹ تیار کرتی ہے جن کے بارے میں انھیں یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے عوام میں مقبول ہوں گی۔

پھر یہ مواد مخصوص ڈیوائسز پر لوڈ کیا جاتا ہے تاہم اس پر یہ درجہ بندی موجود ہوتی ہے کہ اس میں موجود مواد میں رسک فیکٹر یا خطرے کا مواد کس قدر ہو سکتا ہے۔

کم خطرے والی یو ایس بی پر جنوبی کوریا کے ٹی وی ڈرامے اور پاپ گانے ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان میں نیٹ فلکس کی رومانوی سیریز ’ون لائف گیوز یو ٹینگری‘ اور مقبول سنگر اورریپر جینی کا ایک گانا شامل تھا۔

زیادہ خطرے والے آپشنز میں وہ مواد ہوتا ہے جسے ٹیم ’تعلیمی پروگرام‘ کہتی ہے۔ اس میں ایسی معلومات ہوتی ہیں جو شمالی کوریائی عوام کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے بارے میں معلومات و آگاہی دیتی ہیں اور کم جونگ اُن کو اسی مواد سے سب سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے۔

یہ یو ایس بی اور ایس ڈی کارڈز پھر چین کی سرحد کی جانب روانہ کی جاتی ہیں جہاں یونفیکیشن میڈیا گروپ کے قابلِ اعتماد لوگ انھیں سرحد پار کروا کر شمالی کوریا پہنچاتے ہیں جو ایک انتہائی خطرناک عمل ہے۔

جنوبی کوریائی ٹی وی ڈرامے یوں تو بظاہر بے ضرر لگتے ہیں تاہم ان میں وہاں کی عام زندگی کے بہت سے پہلو دکھائے جاتے ہیں مثلاً لوگ اونچی عمارتوں میں رہتے ہیں، تیز گاڑیاں چلاتے ہیں اور مہنگے ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں۔

یہ سب کچھ نہ صرف ان کی آزادی کو سامنے لاتا ہے بلکہ شمالی کوریا کی پسماندگی اورمعاشی و سماجی ترقی میں پیچھے رہ جانے کو ثابت کرتا ہے۔ اور یہ کم جونگ اُن کے سب سے بڑے پروپیگنڈے کو چیلنج کرتا ہے کہ جنوبی کوریا کے لوگ غریب اور ظلم و ستم کا شکار ہیں۔

یونفیکیشن میڈیا گروپ کے ڈائریکٹر لی کوانگ بیک اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ یہ ڈرامے دیکھ کر رو پڑے اور یہ کہ انھوں نے پہلی بار اپنی ذاتی خواہشات اور خوابوں کے بارے میں سوچا۔‘

یہ جاننا مشکل ہے کہ کتنے لوگ واقعی ان یو ایس بی ڈرائیوز تک رسائی حاصل کرتے ہیں لیکن حالیہ عرصے میں منحرف ہونے والے افراد کی گواہیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ معلومات نہ صرف پھیل رہی ہیں بلکہ اثر بھی ڈال رہی ہیں۔

’زیادہ تر حالیہ شمالی کوریائی منحرفین اور پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ یہی غیر ملکی مواد تھا جس نے انھیں اپنی جان خطرے میں ڈال کر فرار ہونے پر آمادہ کیا۔‘

اس مواد کی ترسیل کا کام کرنے والی تنظیم ’لبرٹی ان نارتھ کوریا‘ سے منسلک سوکیل پارک کہتے ہیں کہ شمالی کوریا میں نہ کوئی حزب اختلاف موجود ہے نہ ہی کوئی معروف منحرف رہنما اور احتجاجی اجتماعات کرنا بھی بے حد خطرناک ہے۔

تاہم سوکیل پارک پرامید ہیں کہ شاید کچھ افراد انفرادی مزاحمت کی راہ اختیار کرنے کی تحریک پاسکیں گے۔

شمالی کوریا سے فرار

24 سالہ کانگ گیوری شمالی کوریا میں پلی بڑھیں جہاں وہ مچھلیوں کا کاروبار کرتی تھیں۔ پھر 2023 میں وہ کشتی کے ذریعے جنوبی کوریا فرار ہو گئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ غیر ملکی ٹی وی شوز دیکھنا ان کے فرار کی ایک بڑی وجہ بنا۔ ’مجھے گھٹن محسوس ہوتی تھی اور پھر اچانک دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ یہاں سے نکل جاؤں۔‘

گزشتہ ماہ سیول کے ایک پارک میں دوپہر کے وقت ہماری ملاقات ہوئی تو انھوں نے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ ریڈیو نشریات سنا کرتی تھیں۔

انھوں نے پہلا کورین ڈرامہ اُس وقت دیکھا جب وہ صرف 10 سال کی تھیں۔ کچھ برس بعد انھیں پتا چلا کہ یو ایس بی سٹک اور ایس ڈی کارڈز پھلوں کے ڈبوں میں چھپا کر شمالی کوریا سمگل کیے جا رہے ہیں۔

’جتنا زیادہ میں دیکھتی گئی اتنا ہی میرے اندر احساس بڑھتا گیا کہ حکومت ہم سے جھوٹ بول رہی ہے۔ میں پہلے سمجھتی تھی کہ ریاست کی طرف سے اتنی پابندیاں عام بات ہیں۔ مجھے لگتا تھا کہ دنیا کے باقی ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن پھر سمجھ آیا کہ یہ سب کچھ صرف شمالی کوریا میں ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ وہاں تقریباً ہر شخص جنوبی کوریا کے ڈرامے اور فلمیں دیکھتا تھا۔ وہ اور ان کے دوست یو ایس بی آپس میں تبدیل کرتے تھے۔

’ہم مقبول ڈراموں، اداکاروں، اور کے پاپ کے سٹارز پر بات کرتے تھے خاص طور پر بی ٹی ایس گروپ کے کچھ ممبرز ہمیں بہت پسند تھے۔‘

’ہم جنوبی کوریا کی ترقی یافتہ معیشت پر بھی بات کرتے لیکن شمالی کوریا کی حکومت پر براہِ راست تنقید کرنے کی جرات نہیں تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ان شوز نے ان کے بولنے اور لباس کے انداز کو بھی بدل دیا۔ ان کے مطابق ’شمالی کوریا کے نوجوان بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔‘

نوجوان کریک ڈاؤن اور سزاؤں کی زد میں

کم جونگ اُن ان خطرات سے بخوبی واقف ہیں اور اب اس کے خلاف بھرپور کارروائی کر رہے ہیں۔

عالمی وبا کے دوران انھوں نے چین کے ساتھ سرحد پر نئی برقی باڑیں نصب کرائیں تاکہ معلومات کی سمگلنگ کو مزید مشکل بنایا جا سکے۔

2020 سے نافذ کیے گئے نئے قوانین نے غیر ملکی میڈیا دیکھنے اور ان کی ترسیل کرنے والوں کے لیے سزائیں سخت کر دی ہیں۔ ایک قانون کے مطابق ایسے افراد کو قید یا سزائے موت تک دی جا سکتی ہے۔اور ان سب کا شدید اثر پڑا ہے۔

لی کوانگ بیک اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’پہلے یہ مواد بازاروں میں آسانی سے مل جاتا تھا، لوگ کھلے عام اس کو فروخت کرتے تھے لیکن اب صرف قابلِ اعتماد لوگوں سے ہی یہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘

جب کریک ڈاؤن شروع ہوا تو کانگ گیوری اور ان کے دوست بھی زیادہ محتاط ہو گئے۔

’اب ہم اس بارے میں آپس میں بات نہیں کرتے سوائے انتہائی قریبی رابطے والوں کے اور تب بھی ہم بہت خفیہ انداز میں بات کرتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ اب زیادہ نوجوانوں کو صرف جنوبی کورین مواد رکھنے پر پھانسی دیے جانے کی اطلاعات ہیں۔

موبائل فون
BBC

حال ہی میں کم جونگ اُن نے ان رویّوں کے خلاف بھی کارروائی تیز کر دی ہے جن کے تانے بانے کورین ڈرامے دیکھنے سے ملتے ہیں۔

2023 میں انھوں نے جنوبی کورین انداز میں بات کرنا یا وہاں کے الفاظ استعمال کرنا بھی جرم قرار دیا۔

’یوتھ کریک ڈاؤن سکواڈز‘ سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور نوجوانوں کے رویّے پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔

کانگ گیوری نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ فرار سے پہلے انھیں اکثر روکا جاتا تھا اور جنوبی کوریا کے انداز میں لباس یا بال بنانے پر سرزنش کی جاتی تھی۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ یہ سکواڈز ان کا فون ضبط کر کے ان کے میسیجز تک پڑھتے تھے تاکہ یہ جان سکیں کہ کہیں اس میں جنوبی کورین زبان کے الفاظ تو استعمال نہیں کیے۔

2024 کے آخر میں ایک شمالی کوریائی موبائل فون کو سمگل کر کے ملک سے باہر لایا گیا اور جانچنے پر انکشاف سامنے آیا کہ اس فون کو اس طرح پروگرام کیا گیا تھا کہ جب کوئی جنوبی کوریائی لفظ درج کیا جائے تو وہ خود بخود غائب ہو جائے اور اس کی جگہ شمالی کوریائی متبادل ظاہر ہو۔

اس اقدام سے سخت نگرانی اور ذہنی کنٹرول کی پالیسی سامنے آتی ہے۔

ولیمز کہتے ہیں۔ ’سمارٹ فونز اب شمالی کوریا کی طرف سے عوام کو ذہنی طور پر قابو میں رکھنے کے نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔‘

ان تمام سخت اقدامات کے بعد ان کا ماننا ہے کہ شمالی کوریا اب ’معلومات کی جنگ میں برتری‘ حاصل کرنا شروع کر چکا ہے۔

ٹرمپ
Getty Images

فنڈنگ میں کمی اور ٹرمپ کا کردار

جب 2024 میں ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہاؤس پہنچے تو انھوں نے متعدد امدادی تنظیموں کی فنڈنگ بند کر دی۔ ان میں وہ ادارے بھی شامل تھے جو شمالی کوریائی عوام کو معلومات فراہم کرنے کے لیے کام کر رہے تھے۔

انھوں نے دو وفاقی سطح پر مالی امداد حاصل کرنے والے نیوز اداروں ریڈیو فری ایشیا اور وائس آف امریکہ کی فنڈنگ بھی معطل کر دی جو شمالی کوریا میں رات کے وقت نشریات کرتے تھے۔

ٹرمپ نے وائس آف امریکہ پر انتہا پسندانہ اور ٹرمپ مخالف ہونے کا الزام لگایا جب کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے بیان آیا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا تاکہ ٹیکس دہندگان کی رقم انتہا پسند پروپیگنڈے پر خرچ نہ ہو۔

تاہم سیئول میں تعینات وائس آف امریکہ کے سابق بیورو چیف سٹیو ہرمن کا کہنا ہے کہ ’یہ نشریات اُن چند ایک کھڑکیوں میں سے ایک تھی جہاں سے شمالی کوریا کے لوگ دنیا کو دیکھ سکتے تھےاور اب وہ کھڑکی بنا کسی وضاحت کے بند کر دی گئی ہے۔‘

یو ایم جی اب بھی انتظار کر رہا ہے کہ آیا ان کی فنڈنگ ہمیشہ کے لیے بند کر دی جائے گی یا نہیں۔

’لبرٹی ان نارتھ کوریا‘ تنظیم کے سوکیل پارک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے ’غیر ارادی طور پر کم جونگ اُن کی مدد کر دی ہے‘ اور وہ اس اقدام کو ’تنگ نظری‘ قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے بڑھتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے باعث یہ ایک سنگین سکیورٹی خطرہ ہے اور چونکہ پابندیاں، سفارت کاری، اور عسکری دباؤ کم کو جوہری ہتھیار چھوڑنے پر مجبور کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے ’معلومات ہی واحد مؤثر ہتھیار باقی بچا ہے۔‘

’ہم صرف شمالی کوریا کے خطرے کو محدود کرنے کی کوشش نہیں کر رہے، بلکہ اسے حل کرنا چاہتے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے آپ کو ملک کی فطرت ہی بدلنی پڑے گی۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر میں کوئی امریکی جنرل ہوتا تو میں کہتا کہ ان سب پر جو بھی خرچ آتا ہے دراصل یہ ہمارے وسائل کا بہت اچھا استعمال ہے۔‘

اخراجات کا بوجھ کون اٹھائے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کام کی مالی ذمہ داری کون اٹھائے؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بوجھ صرف امریکہ پر کیوں پڑا ہے؟

اس کا ایک ممکنہ حل یہ ہو سکتا ہے کہ جنوبی کوریا خود اس کی فنڈنگ کرے لیکن یہاں شمالی کوریا کا معاملہ سخت سیاسی رنگ لیے ہوئے ہے۔

جنوبی کوریا کی لبرل اپوزیشن پارٹی عمومی طور پر پیانگ یانگ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے اور اس لیے ’معلومات کی جنگ‘ کو فنڈ کرنا ان کی پالیسی میں شامل نہیں ہوتا۔

اگلے ہفتے ہونے والے صدارتی انتخابات میں اس پارٹی کے سب سے نمایاں امیدوار پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ منتخب ہوئے تو وہ لاؤڈ سپیکر بند کرا دیں گے۔

پھر بھی سوکیل پارک پُرامید ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’اچھی بات یہ ہے کہ شمالی کوریائی حکومت لوگوں کے ذہنوں میں جا کر وہ معلومات نہیں نکال سکتی جو برسوں سے جمع ہو رہی ہیں۔‘

اور جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے انھیں یقین ہے کہ معلومات پھیلانا اور آسان ہوتا جائے گا۔

’میں واقعی یقین رکھتا ہوں کہ طویل مدت میں یہی وہ چیز ہو گی جو شمالی کوریا کو بدل دے گی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.