یہ مسجد دراصل کعبہ کے ارد گرد تعمیر کی گئی۔ اس مسجد کی تعمیر کا آغاز کعبہ کے گرد ایک صحن سے ہوا تھا اور صدیوں سے اس کی توسیع اور تعمیر نو کا سلسلہ چلتا آ رہا ہے۔

مکہ میں واقع مسجد الحرام کو مذہب اسلام کی سب سے عظیم اور مقدس ترین مسجد تصور کیا جاتا ہے۔ یہ سعودی عرب کے مغرب میں واقع شہر مکہ کے وسط میں واقع ہے۔ مسجد الحرام کے وسط میں کعبہ ہے جو اسلامی عقائد کے مطابق اللہ کی عبادت کے لیے زمین پر بنایا جانے والا پہلا گھر ہے۔
مسلمانوں کے نزدیک یہ مقام دنیا میں سب سے زیادہ مقدس ہے اور ان کا قبلہ ہے۔
چونکہ فتح مکہ کے موقع پر اس مسجد کے احاطہ میں داخل ہونے والوں کو مارنا یا قتل کرنا حرام قرار دیا گیا تھا، اس لیے اس مسجد کا نام ’مسجد الحرام‘ رکھا گیا۔
یہ مسجد دراصل کعبہ کے اِرد گرد تعمیر کی گئی اور اس کا آغاز کعبہ کے گرد ایک چھوٹے سے صحن سے ہوا تھا یعنی ابتدائی طور پر مسجد کا کُل رقبہ کعبہ اور اس کے گرد موجود چھوٹا سا صحن تھا تاہم صدیوں سے اس مسجد کی توسیع اور تعمیر نو کا سلسلہ چلتا آ رہا ہے اور اب گنجائش کے لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے جہاں بیک وقت 30 لاکھ افراد جمع ہو سکتے ہیں۔
اسلامی عقیدے کے مطابق اس مسجد کی تعمیر کا آغاز حضرت ابراہیم کے دور میں ہوا اور انھوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کے ساتھ مل کر مسجد الحرام کی تعمیر کی تھی۔

بریٹینکا انسایکلوپیڈیا کے مطابق تاریخ اسلام میں اس مسجد کی سب سے پہلی توسیع مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمر بن خطاب کے ہاتھوں 638 عیسوی میں ہوئی۔ اگر اسلامی دور کی بات کی جائے تو اس جگہ پر پہلی تعمیر کعبہ کے گرد ایک دیوار تھی جو خلیفہ ثانی کے دور میں ہوئی۔
بعد میں آنے والے مسلم خلفا نے مسجد کی جزوی چھتیں، کالم اور تزین و آرائش میں لگاتار اضافہ کیا۔ عباسی خلیفہ المہدی (775-785) کے دور میں زیادہ بڑے پیمانے پر مسجد کی تزئین و آرائش کی گئی اور مسجد کے ڈھانچے کو دوبارہ تعمیر کر کے اسے وسعت دی گئی۔
اس تعمیر کے دوران مسجد کی بیرونی دیواروں کو وسعت دے کر اس طرح تعمیر کیا گیا کہ کعبہ صحن کے عین وسط میں موجود رہے۔

اس کے بعد سے توسیع کا عمل مستقل چلتا رہا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ساتویں اور آٹھویں صدی یعنی اسلام کے اوائل کے عرصے میں اس مسجد کی توسیع کرتے ہوئے مسجد میں پختہ ستون اور دیواریں تعمیر کی گئیں۔
اسلام کے ابتدائی دنوں سے ہی مسجد الحرام کی توسیع کی غرض سے مکہ شہر میں واقع اہم اور تاریخی عمارتوں کو گرانے کی ضرورت پڑتی رہی ہے۔
14ویں صدی کے اوائل میں مسجد الحرام کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ مسجد کی ایک اور تزئین و آرائش سنہ 1571 میں کی گئی، جب عثمانی سلطان سلیم دوم نے شاہی معمار سنان کو مسجد الحرام کی عمارت میں بہتری لانے کی ہدایت کی۔ شاہی معمار سنان نے مسجد کی چپٹی چھت کو چھوٹے گنبدوں سے بدل دیا۔ عثمانی دور میں کی گئی تعمیرات جدید ڈھانچے کے سب سے قدیم باقی حصے ہیں۔
بریٹینیکا انسائیکلو پیڈیا کے مطابقمسجد الحرام میں پہلی مرتبہ روشنی کا نظام حسین ابن علی (مکہ کے امیر 1908-16 اور حجاز کے بادشاہ 1916-24) کے دور میں نصب کیا گیا تھا۔
مسجد کے ڈھانچے میں سب سے زیادہ تبدیلیاں 20ویں صدی کے دوسرے نصف (1950 سے 2000 کے دوران) میں ہوئیں، جب بڑھتے ہوائی سفر نے مکہ جانے والے زائرین کی تعداد میں اضافہ کیا اور سعودی عرب کی تیل کی دولت نے اس کے حکمرانوں کو بڑے پیمانے پر تعمیراتی منصوبوں کے لیے مسجد کی تعمیر میں پیسہ لگانے کے قابل بنایا۔
مسجد الحرام میں متعدد مرتبہ توسیع کی جا چکی ہےمسجد کی پہلی سعودی توسیع کا کام سنہ 1955 میں شاہ سعود کے دور میں شروع ہوا۔ سنہ 1973 میں مکمل ہونے والی اس توسیع نے عثمانی دور کی مسجد کے ارد گرد نئی تعمیرات کا اضافہ کیا اور اس کی زیادہ سے زیادہ گنجائش پانچ لاکھ نمازیوں تک بڑھ گئی۔ الصفا اور المروہ کے درمیان گزرنے والے راستے کو وسیع کر کے مسجد کے ڈھانچے میں ضم کر دیا گیا۔
مسجد کی ایک اور توسیع کا آغاز سنہ 1984 میں سعودی شاہ فہد کے دور میں کیا گیا تاکہ عازمین حج کی بڑھتی تعداد کو سنبھالا جا سکے۔ مسجد کی اردگرد کی عمارتوں کو مسمار کر دیا گیا تاکہ توسیع کے لیے جگہ بنائی جا سکے اور مسجد کے ارد گرد ایک وسیع پکی جگہ بنائی گئی۔
حج کے دوران عازمین حج کی بھیڑ کو کم کرنے کے لیے مسجد کی عمارت میں برقی زینے نصب کیے گئے اور پیدل چلنے والوں کے لیے سرنگیں اور گزرگاہیں بنائی گئی۔ ایک جدید مواصلاتی نظام اور ایک جدید ان ڈور اور آؤٹ ڈور ایئر کنڈیشننگ سسٹم بھی نصب کیا گیا۔ اس توسیع کے بعد مسجد کا رقبہ تقریباً 3,840,000 مربع فٹ تک بڑھ گیا اور اس میں 820,000 نمازیوں کی گنجائش بن گئی۔
پہلے توسیعی منصوبے کے دوران مسجد الحرام کا فضائی منظر
تیسرے توسیعی منصوبے کے بعد مسجد الحرام کا فضائی منظر1400 برس سے زیادہ قدیم یہ مسجد آج وسعت پاتے پاتے 15 لاکھ مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے اور اس میں ایک دن میں 30 لاکھ افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش موجود ہے۔
مسجد الحرام کے احاطے میں مسلمانوں کے لیے دو مقدس مقامات ہیں جن میں ایک مقام ابراہیم اور دوسرا آب زم زم کا کنواں ہے۔ زم زم کا کنواں مسجد الحرام کے اندر مطاف کے صحن میں بیت اللہ سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔
مسجد کے صحن کے مشرق اور شمال میں الصفا اور المروہ کی دو چھوٹی پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان حجاج سعی کرتے ہیں۔ 20 ویں صدی میں دونوں پہاڑیوں کے درمیان ایک راہداری تعمیر کر کے اسے مسجد کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا۔
مسجد الحرام کی جدید عمارت صدیوں کی ترقی کا نتیجہ ہے۔
گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران سعودی عرب کی حکومت نے مسلمانوں کے سب سے مقدس مقام مسجد الحرام کو وسعت دینے کے لیے کوششیں کی ہیں تاکہ یہاں ہر سال آنے والے دسیوں لاکھوں مسلمانوں کو حج اور عمرہ جیسے مذہبی فریضے ادا کرنے میں زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جا سکیں۔

سعودی عرب سلطنت کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمان آل سعود سنہ 1932 سے 1953 تک اپنے دور حکمرانی میں مسلسل اس کی تعمیر و توسیع کرواتے رہے۔
تاہم باضابطہ طور پر اس مسجد کی توسیع کا پہلا مرحلہ سنہ 1955 میں شروع کیا گیا جبکہ سنہ 1988 میں دوسرا اور سنہ 2011 میں اس کی تعمیر و توسیع کا تیسرا مرحلہ شروع کیا گیا۔ مسجد الحرام کی یہ وسعت 70 برس قبل کی مسجد الحرام کے مقابلے تقریباً دس گنا زیادہ ہے۔
مسجد الحرام کے خانہ کعبہ کے اطراف واقع صحن جسے مطاف کہا جاتا ہے یہاں سنہ 1950 میں فرش کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے سنگ مرمر لگایا گیا۔
سعودی دور میں مطاف کی آخری توسیع شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور میں ہوئی۔ اب مطاف کی تمام منزلوں پر طواف کی مجموعی گنجائش ایک گھنٹے کے اندر ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی ہے۔
سعودی حکومت کی جانب سے مسجد الحرام کی پہلی توسیع کے دوران متعدد مینار بھی تعمیر کیے گئے تھے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق مسجد الحرام کی عمارت کے مختلف حصوں میں برقی زینے بھی لگائے گئے ہیں جبکہ روشنی اور ایئرکنڈیشنگ کا بھرپور نظام، اعلی ترین آڈیو اور وڈیو سسٹم اور عازمین کے لیے صحن میں سائے کے لیے بڑی بڑی خودکار نظام کے تحت کھلنے والی چھتریاں بھی نصب ہیں۔
سعودی حکومت کے مطابق مسجد الحرام کی توسیع کے لیے جدید ترین تعمیراتی ٹیکنالوجی اور سسٹم کو استعمال میں لایا گیا ہے۔
سعودی حکومت نے مسجد الحرام کی توسیع کے منصوبے میں حجاج کرام کے لیے زیادہ بہتر سہولیات فراہم کی ہیں اور عازمین کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر مسجد میں وضو کرنے کی سہولیات کو 2,479 سے بڑھا کر 12,639 تک لایا جا رہا ہے۔
مسجد کی توسیع میں یہاں موجود راہداریوں میں بھی اضافہ کیا گیا اور اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ یہ مستقبل میں عازمین کی بڑھتی تعداد سے مطابقت رکھتی ہو۔
مسجد الحرام کی عمارت اسلامی فن تعمیر کا ایک شاہکار نظر آتی ہے جہاں خوبصورت کشیدہ کاری سے مزید گنبد، بلند و بالا میناروں کے ساتھ ساتھ 27 مربع میٹر تک قرآن کی آیات کی خطاطی کی گئی ہے۔
اس عالیشان مسجد میں سکیورٹی اور ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے کیمرے اور سینسرز بھی لگائے گئے ہیں۔