انڈیا کے ساتھ چار روزہ کشیدگی ختم ہونے کے باوجود سفارت کاری اور بیانات کا سلسلہ اب تک نئے تنازعات کو جنم دے رہا ہے
’بلاول بھٹو کو معلوم ہونا چاہیے کہ ٹیمو سستی کاپی نہیں ہوتی اگرچہ انھوں نے مودی پر درست تنقید کی اور اُن کا موازنہ نتن یاہو سے کیا۔‘
انڈیا اور پاکستان کے بیچ چار روزہ کشیدگی ختم ہونے کے باوجود دونوں ممالک میں سفارتکاری اور بیانات کا سلسلہ اب بھی نئے تنازعات کو جنم دے رہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جو امریکہ میں پاکستانی وفد کی سربراہی کر رہے ہیں، کا ایک بیان بھی اسی تناظر میں سامنے آیا جسے سوشل میڈیا پر کچھ لوگ سراہ رہے ہیں تو دوسری جانب چند لوگ اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔
اس بیان میں بلاول بھٹو زرداری نے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جنھوں نے خود بھی حال ہی میں ایک متنازع بیان دیا جس میں پاکستانی عوام کے بارے میں بات کرتے ہوئے ’گولی‘ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ بلاول نے مودی پر تنقید کی ہو۔ اس سے قبل 2022 میں جب بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ تھے، تب انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کوتنقید نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’اسامہ بن لادن مر چکا ہے لیکن گجرات کا قصائی‘ آج انڈیا کا وزیر اعظم بن کر بیٹھا ہے۔‘
انڈیا کی حکومت نے بلاول بھٹو کے اس بیان کو ’غیر مہذب‘ قرار دیا تھا جبکہ انڈیا کی ریاست اتر پردیش میں حکمران جماعت بی جے پی کے ایک مقامی رہنما نے اعلان کیا تھا کہ وہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا سر قلم کرنے والے کو دو کروڑ روپے کا انعام دیں گے۔
یاد رہے کہ پاکستانی حکومت نے سابق وزیرِ خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک وفد لندن، واشنگٹن اور برسلز بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ وفد ’عالمی سطح پر انڈیا کے پراپیگنڈے اور مذموم سازشوں کو بے نقاب کرے گا۔‘
اس وفد میں ڈاکٹر مصدق ملک، انجینیئر خرم دستگیر، سینیٹر شیری رحمان، حنا ربانی کھر، فیصل سبزواری، تہمینہ جنجوعہ اور جلیل عباس جیلانی بھی شامل ہیں۔
بلاول بھٹو نے کیا کہا ہے؟
بلاول بھٹو منگل کو نیو یارک میں اقوام متحدہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کے بعد سوالوں کے جواب دے رہے تھے جس کے دوران ان کا یہ بیان بھی سامنے آیا۔
بلاول نے اس سے قبل اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’دہشت گردی کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ بلاول نے کہا کہ یہ ایک ایسا آلہ ہے جسے انڈیا سمیت (انڈیا کے زیرانتظام) کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور ہمسائیہ ملک کے خلاف بھی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان اب بھی دہشت گردی کے خلاف انڈیا سے تعاون کرنا چاہتا ہے کیوں کہ ڈیڑھ ارب لوگوں کی قسمت کو نان سٹیٹ ایکٹرز یا دہشت گردوں کے ہاتھ میں نہیں دیا جا سکتا کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ دو جوہری طاقتوں میں جنگ ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کی حکومت اسی چیز کو خطے پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اگر انڈیا یا انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں کہیں بھی حملہ ہوا تو اس کا مطلب پاکستان سے جنگ ہے۔‘
بلاول بھٹو کا موقف تھا کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی پر اسے (پاکستان) بھی یہ حق حاصل ہے۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’دونوں ممالک ایک ایسا نظام طے کر سکتے ہیں جس میں اگر کسی ملک کو شکایت ہے تو اس کا حل تلاش کیا جائے، جس کے تحت دونوں ممالک ملک کر دہشت گردوں کی شناخت کر سکیں اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کو انصاف فراہم کر سکیں۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی کشمیر کے حل طلب معاملے، جو کشمیر میں دہشت گردی کی وجہ ہے، کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا نے پانی کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور سندھ طاس معاہدے پر انڈین حکومت کے اقدامات کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے کیوںکہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ اگر کسی ملک کا پانی روکا جائے گا تو وہ کس طرح ردعمل دے گا؟ کوئی بھی تہذیب یافتہ ملک اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘
تاہم اپنے خطاب کے بعد ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ’مودی کو دیکھیں وہ لگتا ہے نتن یاہو کی ٹیمو کاپی ہیں، سستی کاپی۔ ہم انڈیا کی حکومت سے کہتے ہیں کہ وہ بدترین قسم کی مثالوں سے متاثر نہ ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا اور اسرائیل کے اقدامات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ بلاول نے کہا کہ ’مودی کو ایک زمانے میں گجرات کا قصائی سمجھا جاتا تھا، پھر وہ کشمیر کے قصائی بنے اور وہ شاید وادی سندھ کی تہذیب کے قصائی بننا چاہتے ہیں جیسا کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے واضح ہوتا ہے۔‘

واضح رہے کہ ٹیمو ایک چینی ملکیت والی آن لائن مارکیٹ ہے جسے 2022 میں امریکہ اور گذشتہ سال برطانیہ میں لانچ کیا گیا تھا۔ اسے انتہائی سستے داموں سامان فروخت کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بحث: ’ٹیمو بُری کاپی نہیں‘
پاکستان میں بلاول بھٹو کے اس بیان کے بارے میں مختلف آرا کا اظہار ہو رہا ہے۔ تاہم ایک جانب جہاں ان کی سفارتکاری کو سراہا جا رہا ہے وہیں چند لوگوں نے ان کے اس مخصوص بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ان میں سے ایک تحریک انصاف کے سابق رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر بھی ہیں۔ تاہم ان کی تنقید کی وجہ کچھ انوکھی ہے۔
اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اسد عمر نے لکھا کہ ’بلاول بھٹو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے مودی کو درست طور پر تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کا موازنہ نتن یاہو سے کیا۔ بدقسمتی سے انھوں نے موازنے کے لیے جو لفظ استعمال کیا وہ درست نہیں تھا۔‘
اسد عمر کی رائے کے مطابق ’بلاول کو معلوم ہونا چاہیے کہ ٹیمو بری کاپی نہیں اور امریکہ میں بھی یہ ایک ایسی ایپ بن چکی ہے جس کو استعمال کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور عالمی سطح پر یہ ایمازون کو پیچھے چھوڑنے کے قریب ہے۔‘
اسد عمر نے کہا کہ ’یہ مغربی بیانہ ہے کہ چینی مصنوعات سستی کاپیاں ہوتی ہیں اور یہ پرانا ہو چکا ہے جبکہ پاکستانیوں کو تو کسی اور کے مقابلے میں یہ بات بہتر طور پر معلوم ہونی چاہیے کیوں کہ حالیہ تنازع میں انڈیا کے خلاف چینی ٹیکنالوجی نے سبقت حاصل کی۔‘
تاہم ایک اور سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ’بلاول بھٹو کا بیان، جس میں انھوں نے وزیراعظم مودی کو نتن یاہو کی ٹیمو کاپی قرار دیا، غیر سفارتی تھا اور اس نے جنوبی ایشیا میں تناو کی سنجیدگی اور اہمیت کو کم دکھایا۔‘
ایک اور صارف ایس ایچ قاضی نے لکھا کہ ’اس تنازع پر عالمی توجہ کی فوری ضرورت ہے اور بلاول بھٹو کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی برادری کے سامنے انصاف، احتساب اور علاقائی استحکام پر زور دیں نہ کہ ساؤنڈ بائٹس پر۔‘
ایسا ہی کچھ موقف ایک اور صارف کا بھی تھا جنھوں نے لکھا کہ ’اگرچہ ایسا بیان شاید پاکستان میں لوگوں کو پسند آئے لیکن یہ سنجیدہ سفارت کاری کے لیے اچھا نہیں اور ساتھ ہی ٹیمو اور اس کے ملازمین کے ساتھ بھی ناانصافی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ایسی بیان بازی ان کے مرتبے اور ہماری سیاست کو نہیں بھاتی۔‘