انڈیا تسلیم نہیں کرتا لیکن جنگ بندی امریکی ثالثی میں ہوئی، لڑائی میں پاکستان کو کوئی بیرونی مدد حاصل نہیں تھی: جنرل ساحر شمشاد کا بی بی سی کو انٹرویو

پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان نے انڈین طیارے گرانے کے شواہد متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو دکھائے ہیں جبکہ انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان کو کسی بھی قسم کی کوئی بیرونی مدد حاصل نہیں تھی۔
جنرل ساحر شمشاد
BBC

پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کا کہنا ہے کہ انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان نے انڈیا کے چھ لڑاکا طیارے مار گرائے اور اس حوالے سے تمام شواہد بھی موجود ہیں جو متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو دکھائے گئے ہیں۔

بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار فرینک گارڈنر کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں جنرل ساحر شمشاد مرزا کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس اس دعوے کے ثبوت ہیں، ہم 2025 میں ہیں اور اس دور میں ہر ہتھیار، عسکری آلات کا ایک ڈیجٹل الیکٹرونک سگنیچر ہوتا ہے اور ہمارے پاس اس حوالے سے تمام شواہد ہیں اور ہم نے متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو یہ دکھائے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’مار گرائے جانے والے انڈین طیاروں میں تین رفال، ایک ایس یو 30، ایک میراج 2000 اور ایک مگ 29 طیارہ تھا اس کے علاوہ ڈرون بھی تباہ کیا گیا۔‘

یاد رہے کہ پاکستان انڈیا کے چھ طیاروں کو مار گرانے کا دعویٰ کرتا ہے تاہم انڈیا کی جانب سے ان دعوؤں کی آج تک نہ تو تصدیق کی گئی ہے اور نہ ہی تردید۔

جنرل ساحر شمشاد کا مزید کہنا تھا کہ انڈین کارروائی کے جواب میں پاکستان نے جو کارروائی کی وہ اپنے وسائل سے کی۔ انھوں نے کہا کہ ’جیسا کہ انڈیا کے پاس بھی روسی، فرانسیسی ساختہ ہتھیار تھے تو پاکستان نے بھی غیر ملکی ہتھیار ضرور استعمال کیے مگر انڈین طیاروں کو گرانے کے لیے جو بھی وسائل اور حکمت عملی استعمال کی گئی وہ پاکستان کی اپنی تھی۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ کشیدگی کے 96 گھنٹے کے دوران انڈیا کے خلاف تمام عسکری کارروائی پاکستانی فوج نے اپنے وسائل سے کی۔

’اس عرصے کے دوران، جب ہم مختلف آلات استعمال کرتے رہے اور یقیناً انڈینز بھی ایسا ہی کرتے ہیں، وہ آلات جو ہم نے دوسرے ممالک سے خریدے ہیں، تو ایسا کرنا ایک منطقی بات ہے۔ اس کے علاوہ، کہیں سے بھی کوئی براہِ راست مدد نہیں ملی، سوائے پاکستان کی اپنے اندرونی وسائل اور معاونت کے۔‘

انھوں نے واضح کیا کہ ’انڈیا کے ساتھ لڑائی کے دوران کسی بھی قسم کی کوئی بیرونی مدد پاکستان کو حاصل نہیں تھی۔ نہ کوئی انٹیلیجنس نہ کسی اور قسم کی مدد پاکستان کو حاصل تھی۔‘

واضح رہے کہ بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر نے ان سے یہ خصوصی انٹرویو پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ تنازعے اور جنگ بندی کے تناظر میں کیا ہے۔

’انڈیا تسلیم نہیں کرتا لیکن جنگ بندی امریکی ثالثی میں ہوئی‘

طیارے کا ملبہ
Getty Images

پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ تنازع میں سیز فائر میں امریکہ کے کردار کے متعلق اور انڈیا کی جانب سے ایسی کسی ثالثی کوشش کو جھٹلانے پر بات کرتے ہوئے جنرل ساحر شمشاد کا کہنا تھا کہ ’یہ مشترکہ کوشش تھی اور بالآخر اس میں سب سے اہم کردار امریکہ نے ادا کیا۔ حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان کے دوست ممالک جنگ بندی کی کوشش کر رہے تھے لیکن آخری دن امریکہ نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔‘

’جب کشیدگی بڑھی تو بین الاقوامی برادری میں اس (کشیدگی) کے بڑھنے سے متعلق خدشات بڑھے اور ہمارے اتحادیوں اور بین الاقوامی دوستوں نے جنگ بندی کی کوششیں تیز کر دی مگر اس میں کلیدی کردار امریکہ نے ادا کیا۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ انڈیا اس کو تسلیم نہیں کرتا لیکن جنگ بندی امریکی ثالثی میں ہوئی اور اس کا سب سے پہلے اعلان خود امریکی صدر ٹرمپ نے کیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے مذاکرات ہوں گے تو ہم مذاکرات کی شروعات کا انتظار کر رہے ہیں۔‘

جنرل ساحر شمشاد کا کہنا تھا کہ ہم نے انڈیا کو متعدد بار مسئلہ کشمیر سمیت متعدد معاملات پر جامع مذاکرات کی دعوت دی لیکن اس کے لیے آپ کو سامنے والے فریق کی بھی آمادگی چاہیے۔

’جب تک وہ آمادگی نہیں ہو گی، معاملات حل نہیں ہوں گے اور خطے میں امن و استحکام نہیں آئے گا۔ ہم تیار ہیں مگر اگلا فریق اس پر تیار نہیں، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ تیسرا فریق آ کر ان معاملات کو حل کروائے۔ ہماری خواہش تھی کہ ہم دونوں ممالک ان مسائل کو خود حل کر لیں لیکن وہ تیار نہیں اور ہم اب بھی غیر رضامند فریق کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔‘

جنرل شمشاد کا فرینگ گارڈنر کو انٹرویو
BBC

’پاکستان نے تنازع میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق بالکل بھی نہیں سوچا‘

جنرل ساحر شمشاد نے بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کی جانب سے حالیہ تنازع میں جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ایسا بالکل بھی نہیں سوچا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں آپ کو واضح کر دوں کہ کشیدگی کے مکمل عرصے کے دوران اور سیز فائر ہونے تک نہ ایسی کوئی بات ہوئی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی نقل و حرکت کی گئی۔ کشیدگی کے دوران پاکستان نے خالصتاً روایتی جنگی بنیادوں پر جوابی کارروائی کی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’جہاں تک اس تنازع کی بات ہے تو میں پاکستان کے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے ڈپٹی چیئرمین کی حیثیت سے واضح کر دوں کہ یہ مکمل طور پر روایتی جنگی بنیاد پر دیکھا گیا اور جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق نہ کوئی بات ہوئی اور نہ ہی کوئی اجلاس ہوا۔‘

’جن مقامات کو انڈیا نے نشانہ بنایا وہ تمام تصوراتی کیمپ تھے‘

پہلگام حملے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کے انڈین الزام پر جواب دیتے ہوئے جنرل ساحر شمشاد کا کہنا تھا کہ ’کسی کے ملوث ہونے پر الزام اس وقت عائد کیا جاتا ہے جب آپ کے پاس کوئی ثبوت، کوئی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ ہو، لیکن اگر ایسی کسی بھی چیز کی عدم موجودگی میں آپ واقعے کے 24 گھنٹے کے اندر کسی دوسرے ملک پر الزام عائد کرنا شروع کر دیں تو یہ منطق کی نفی کرتا ہے۔‘

’جب پاکستان نے انڈیا کو پہلگام واقعے کی آزاد اور مستند تحقیقات کروانے کی پیشکش کی تو اس کو مسترد کر دیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سات مئی کی رات کو انڈیا نے میزائل اور ڈرونز کے ذریعے پاکستان کے اندر چھ مقامات پر حملہ کیا اور یہ تمام مقامات انڈیا کے لیے ’تصوراتی عسکریت پسندوں کے کیمپ‘ تھے۔ دراصل یہ تمام مقامات پر عام شہریوں کے گھر تھے اور کچھ مساجد تھیں، جنھیں نقصان پہنچا اور انڈیا کی اس کارروائی میں ہم نے معصوم بچوں اور خواتین کو کھویا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر انڈیا کو پاکستان سے کوئی مسئلہ ہے تو اس متعلق ان کے پاس کوئی ثبوت بھی ہونا چاہیے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اس وقت سات لاکھ انڈین فوجی ہیں اور وہاں کی آبادی تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ ہے تو اگر کوئی پہلگام جیسی کارروائی کر کے بھی فرار ہے تو اس متعلق آپ کے پاس کوئی تو ثبوت ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ ’انڈیا جن تنظیموں کا ذکر کرتا ہے وہ تمام ختم ہو چکی ہیں، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا جن مقامات کو انڈیا نے نشانہ بنایا یہ تمام تصوراتی کیمپ تھے، حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں۔‘

’ماضی میں یہاں کچھ مسائل تھے لیکن پاکستان نے وہاں 900 سے زیادہ ایسے مقامات کو ختم کیا اور وہاں موجود تمام افراد کو قومی دھارے میں شامل کیا۔ یہ تمام کیمپ اس دور میں بنے تھے جب سراج الدین حقانی جیسے افراد وائٹ ہاؤس میں بیٹھتے تھے اور انھیں جنگجو قرار دیا جاتا تھا اور جب 1979 میں سب نے ہاتھ جھاڑ لیے تو وہ یہاں تھے اور ہم نے اس کو ختم کیا۔‘

ساحر شمشاد نے دعویٰ کیا کہ ’آج پاکستان میں کوئی ایسا کیمپ موجود نہیں اور آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اگر انڈیا میں کچھ ہوا تو اس کا ذمہ دار پاکستان ہو گا، بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کہاں ہیں؟

مریدکے میں وہ مقام جس کو انڈیا نے نشانہ بنایا تھا
BBC
مریدکے میں وہ مقام جس کو انڈیا نے نشانہ بنایا تھا۔ پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق مریدکے میں ہونے والے حملوں میں مسجد اُم القرا اور اس کے اردگرد واقع کوارٹر نشانہ بنے

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے انڈیا اندرونی مسئلے کو بیرونی اور بیرونی مسئلے کو اندرونی بنانے کی کوشش کر رہا ہے، مسئلہ کشمیر ایک بیرونی معاملہ ہے، یہ تقسیم کے وقت سے متنازع ہے اور انھوں نے اسے اندرونی معاملہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کو ختم کیا، اس اقدام نے کشمیر کے عوام میں ایک بے چینی پیدا کی اور وہ اس سے خوش نہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کشمیر میں اس وقت مایوسی ہے اور کشمیری عوام میں بے چینی ہے اور جب تک اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت اس معاملے کو حل نہیں کیا جائے گا تو نہ صرف کشمیر بلکہ جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام متاثر رہے گا۔‘

’اس لیے پاکستان نے مذاکرات کی پیشکش کی اور اس مسئلہ کے حل کے لیے جامع مذاکرات کیے جائیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو 2007 سے 2012 کے درمیان جامع مذاکرات کا دور ہوا جس میں پانی، امن، کشمیر، خطے میں استحکام سمیت چھ اہم معاملات زیر بحث تھے لیکن جب یہ انڈیا کی موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے اس ضمن میں ایک بھی اجلاس نہیں ہوا۔‘

سندھ طاس معاہدہ کو انڈیا کی جانب سے معطل کرنے سے متعلق ساحر شمشاد کا کہنا تھا کہ ’سندھ طاس معاہدہ جو سنہ 1965، سنہ 1971 اور 1999 میں بھی موجود رہا مگر اس مرتبہ پہلگام واقعے کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر ہی بنا کسی تحقیقات، ابتدائی تفتیش اور شواہد کے معطل کر دیا گیا۔‘

’یہ معاہدہ 24 کروڑ افراد کو متاثر کرتا ہے۔ یہ اب بھی معطل ہے اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ جب آپ کو پانی کی ضرورت ہو یا آپ چاہیے تو پانی کو روک دیں اور جب ضرورت نہ ہو پانی کو دریاؤں میں چھوڑ دیں، اس لیے پاکستان نے اسے اپنی بقا کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اپنے خلاف جنگی اقدام کہا ہے اور جب آپ کی بقا کا مسئلہ ہو تو ایسا کوئی اقدام جنگی اقدام قرار دینا جائز ہے۔‘

جوہری ہتھیار
Getty Images

’مستقبل میں شاید عالمی برادری کے حرکت میں آنے سے قبل ہی بہت سا نقصان ہو جائے‘

جنرل ساحر شمشاد مرزا کا جنگ بندی کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں مستقبل میں کوئی بھی تنازع بھڑکنے کا امکان اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب کہا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک میں کسی بھی وقت تنازع جوہری جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا اور ہم اسے روایتی جنگ تک محدود رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ میں بین الاقوامی برادری کو حقیقت بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ شہروں کو نشانہ بنائیں گے اور روزانہ پاکستان کے دس شہروں میں معصوم شہریوں کو نقصان پہنچائیں گے تو پھر اس کی کوئی حد نہیں۔ ایک ایسے دور میں جب لڑائی روایتی محاذ سے آگے نکل کر سائبر، ڈرونز، مصنوعی ذہانت اور الیکٹرونک وار فیئر میں ہو، تو پھر تنازع کیا صورت اختیار کرے اس بارے میں کہنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

’اس لیے میں کہتا آیا ہو کہ وہ (انڈیا) اس تنازع کو اس حد تک بڑھا چکے ہیں اور ڈیٹرینس کو اس حد تک کم سطح پر لے آئے ہیں کہ اگر مستقبل میں کچھ ہو تو شاید عالمی برادری کے حرکت میں آنے سے قبل ہی بہت سا نقصان ہو جائے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.