علی گڑھ کے درزی جو ’چھوٹے نواب‘ سے صدور تک سبھی کے لیے خاص شیروانیاں تیار کرتے ہیں

اختر مہدی علی گڑھ کے مشہور درزی مہدی حسن کے صاحبزادے ہیں۔ انھیں اپنے والد سے وراثت میں شیروانی سلائی کی روایت اور ہنر حاصل ہوا اور ساتھ ساتھ ملک کی مشہور و معروف شخصیات کے لیے شیروانی سلائی کرنے کا شرف بھی۔
سیف علی خان
Getty Images

گرمی کی ایک شام اختر مہدی شیروانی کے کپڑوں پر بڑی باریکی سے قینچی چلانے میں مصروف تھے کہ فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ سامنے سے کوئی شخص انھیں بتا رہا تھا کہ اداکار سیف علی خان نے شیروانی کی پیمائش کے لیے انھیں بُلایا ہے۔

وی وی آئی پی یا فلمی دنیا کی اہم شخصیات کے فون اکثر اختر مہدی کو آتے رہتے ہیں۔ تاہم سیف علی خان کے گھر سے شیروانی کے لے فون آنا نہ صرف انھیں ایک خاص طرح کی خوشی دے رہا تھا بلکہ ان سے ملاقات کا ایک موقع بھی۔

اختر مہدی ممبئی پہنچ جاتے ہیں، وہاں سیف کی باڈی فیٹنگ پیمائش لیتے ہیں اور واپس علی گڑھ آتے ہیں۔

تین عدد شیروانیاں تیار کر کے واپس ممبئی پہنچتے ہیں، جہاں اس بار ان کی ملاقات سیف علی خان کی اہلیہ کرینہ کپور سے بھی ہوتی ہے۔

اختر مہدی جب یہ کہانی بی بی سی کو سنا رہے تھے تو ان کے لہجے سے صاف جھلک رہا تھا کہ وہ سیف علی خان کے بڑے مداح ہیں۔

اختر مہدی، علی گڑھ کے مشہور درزی مہدی حسن کے صاحبزادے ہیں۔ انھیں اپنے والد سے وراثت میں شیروانی سلائی کی روایت اور ہنر حاصل ہوا اور ساتھ ساتھ ملک کی مشہور و معروف شخصیات کے لیے شیروانی سلائی کرنے کا شرف بھی۔

اختر مہدی بتاتے ہیں کہ ان کے والد دراصل ایک سادہ سے درزی ہوا کرتے تھے اور سنہ 1944 کے آس پاس وہ تلاش معاش کے لیے ممبئی آئے تھے۔

ممبئی میں مہدی حسن کی ملاقات شیروانی کے ٹیلر عبدالرئیس سے ہوئی اور ان سے ہی انھوں نے شیروانی کی سلائی سیکھی۔

اختر مہدی کے مطابق تقسیم سے قبل انڈیا میں بہت کم ایسے مقامات تھے جہاں شیروانی کا پیشہ ورانہ کام ہوتا تھا۔

https://www.youtube.com/watch?v=8JR49jGTHzI

’اس زمانے میں علی گڑھ یونیورسٹی میں شیروانی پہننے کا رواج تھا، جو آج بھی ہے۔ میرے والد نے علی گڑھ کا سفر کیا اور اس طرح 1947 میں علی گڑھ کے تصویر محل علاقے میں ایک دکان لے کر حسن ٹیلر کے نام سے کام شروع کیا۔‘

اختر مہدی نے بتایا کہ ان کے والد انڈیا کے مرحوم صدر ذاکر حسین کے لیے تقریباً 18 سال تک مسلسل شیروانیاں سلائی کرتے رہے۔ دکان کے ریکارڈ کے مطابق صرف ذاکر حسین کے لیے 178 شیروانیاں سلائی کی گئیں۔

ذاکر حسین نے سنہ 1962 سے 1967 تک انڈیا کے نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دیں اور بعد سنہ 1967 سے لے کر اپنی وفات یعنی 3 مئی 1969 تک انڈیا کے صدر کے عہدے پر فائز رہے۔

اختر مہدی
BBC
اختر مہدی، علی گڑھ کے مشہور درزی مہدی حسن کے صاحبزادے ہیں، انھیں اپنے والد سے وراثت میں شیروانی سلائی کی روایت اور ہنر حاصل ہوا

پھر یہ سلسلہ چل پڑا اور مہدی حسن ٹیلرز کی تیار کردہ شیروانی کو انڈیا کی بااثر شخصیات جیسے متعدد صدور، وزرائے اعظم اور سیاسی شخصیات سے لے کر بالی ووڈ ستاروں تک نے زیب تن کیا۔

ان میں سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام، آنجہانی صدر پرنب مکھرجی، سابق صدر رام ناتھ کووند، سابق انڈین وزیر اعظم منموہن سنگھ، انڈین ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ میں مفتی سعید، این ڈی تیواری، فاروق عبد اللہ کے علاوہ گورنروں میں عارف محمد خان، سید سبط رضی سمیت اراکین پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے جج بھی شامل ہیں۔

اختر مہدی کے مطابق ’بالی ووڈ سٹار سیف علی خان، جاوید اختر، راج ببر اور مجروح سلطانپوری بھی ان کی تیار کردہ شیروانیاں زیب تن کر چکے ہیں۔‘

اختر مہدی نے حال ہی میں انڈیا کے اپوزیشن رہنما راہل گاندھی کے لیے بھی شیروانی تیار کی۔ انھوں نے بتایا کہ ’راہل گاندھی کا سائز انھوں نے ہیلی پیڈ پر لیا تھا، جہاں راہل گاندھی کے مداحوں کی بھیڑ لگی تھی۔ وہ ایک ریلی کی غرض سے علی گڑھ آئے تھے۔‘

اختر مہدی بتاتے ہیں کہ ان کے ایک بھائی بھی خاندانی نام سے ہی شیروانی تیار کرتے ہیں۔

ان کے مطابق ان کی سلائی میں سب سے خاص بات ہوتی ہے باڈی فٹنگ اور کپڑے کا فال، یعنی سامنے دامن کس طرح نیچے کی طرح گرتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’آرڈر جتنے بھی ہوں، وہ سارے کپڑوں کی کٹائی خود کرتے ہیں۔ عام و خاص سب کے لیے قینچی چلاتے ہیں اور اس لیے ان کی دکان پر اکثر بھیڑ ہوتی ہے، جس میں اہم تقریبات کے لیے شیروانی سلوانے کے امیدوار زیاد ہوتے ہیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اختر مہدی نے بتایا کہ ’ہماری شیروانیاں نہ صرف انڈیا بلکہ امریکہ، برطانیہ، متحدہ عرب امارات اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں بھی مقبول ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پرانے طلبہ شیروانی کا آرڈی یہیں دیتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’میرے پاس ایک ڈائری ہے، جس میں سب لوگوں کے نمبر اور ان کی پیمائش رکھتا ہوں، جو میرے پرانے کسٹمرز ہیں، ان کو میں نام سے جانتا ہوں اور وہ جب بھی مجھے فون کرتے ہیں، میں پرانی ڈائری دیکھتا ہوں اور اگر کچھ آپڈیٹ ہو تو اسے اپنی ڈائری میں درج کر لیتا ہوں۔‘

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ’جو وی آئی پی لوگ ہیں، انھیں اپنی دکان پر بلا نہیں سکتے، اس لیے وہ خود ہی ان کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں۔‘

’کوئی سیاسی شخصیت ہو تو ان کے گھر پر جاتا ہوں، اسی لیے مجھے ہر ہفتہ دلی کے کئی چکر لگانے پڑتے ہیں۔ کبھی پیمائش کے لیے تو کبھی شیروانی چیک کروانے کے لیے۔

’فائنل ڈیلیوری کے لیے کبھی میں خود جاتا ہوں، تو کبھی کسی کے ہاتھ بھیجوا دیتا ہوں۔‘

شیروانی
Getty Images
(فائل فوٹو)

اختر مہدی کے پاس کئی دلچسپ قصے ہیں۔ جو وہ بتاتے ضرور ہیں تاہم اپنے مداحین کی پرائیویسی کی وجہ سے شائع کرنے سے منع کرتے ہیں۔

انڈیا کے سابق نائب صدر حامد انصاری اکثر شیروانی کی سلائی بنائی کے لیے کچھ تبصرے کرتے تھے، جسے دوہرا کر اختر مہدی خوب مسکراتے ہیں مگر ان تبصروں کو شائع نہ کرنے کی درخواست بھی کی۔

دی برتھ آف شیروانی کتاب کے مطابق ’شیروانی کا آغاز 19ویں صدی کے اوائل میں ہوا، جب یہ مغل دور کے لباس ’انگرکھا‘ سے متاثر ہو کر تیار کی گئی۔ ابتدائی طور پر یہ لباس لکھنؤ میں مقبول ہوا اور بعد میں پورے برصغیر میں اشرافیہ اور نوابوں کے درمیان مقبولیت حاصل کی۔

شیروانی، مغربی فراک کوٹ کی طرز پر تیار کی گئی، جس میں بٹنوں کی قطار شامل تھی، جو اسے منفرد اور باوقار لباس بناتی تھی۔ اسے کئی رنگوں میں تیار کیا جاتا ہے تاہم عام طور پر اسے سیاہ یا سرمئی رنگوں میں تیار کیا جاتا ہے۔

اختر مہدی نے کہا کہ ’شیروانی آج بھی برصغیر کے مردانہ لباس کا ایک اہم جزو ہے، جو شادیوں، تقریبات اور قومی دنوں پر پہنی جاتی ہے۔ یہ لباس ثقافتی اور تاریخی ورثہ بھی ہے، جو برصغیر کی تاریخ، سیاست اور فیشن کو بیان کرتا ہے۔‘

مہدی حسن ٹیلرز پر نوابوں، امرا اور خاص و عام کے لیے شیروانی تیار ہوتی ہیں، جہاں اختر مہدی کے صاحبزادوں سمیت ایک درجن سے زائد عملہ کام کرتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.