انڈیا اور پاکستان کی جانب سے ایک دوسرے پر براہِ راست حملوں کے بعد پاکستان کا مؤقف دنیا کے سامنے رکھنے کے لیے پاکستان کے سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ پہلگام واقعے کے بارے میں امریکہ میں موجود انڈیا کے حامیوں نے بھی تسلیم کیا کہ انڈیا نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے، دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کو امریکہ میں مانا جاتا ہے۔

انڈیا اور پاکستان کی جانب سے ایک دوسرے پر براہِ راست حملوں کے بعد پاکستان کا مؤقف دنیا کے سامنے رکھنے کے لیے پاکستان کے سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ پہلگام واقعے کے بارے میں امریکہ میں موجود انڈیا کے حامیوں نے بھی تسلیم کیا کہ انڈیا نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے، دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کو امریکہ میں مانا جاتا ہے۔
اپنے دورے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یہ بھی کہا کہ اگر انڈیا نے پاکستان کا پانی بند کیا تو اُس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔
بلاول بھٹو لندن میں بی بی سی اردو کے نامہ نگار حسین عسکری سے خصوصی گفتگو کر رہے تھے جس میں انھوں نے واضح کیا کہ ’پاکستان کا مؤقف سچ پر مبنی اور بہت تگڑا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم امن کا پیغام لے کر آئے ہیں، ممکنہ جوہری تنازع کے پس منظر میں بات چیت کرنا چاہتے ہیں، ہم جس سے بھی مل رہے ہیں وہ نہ صرف ہمارے مؤقف کو سن رہا ہے بلکہ اس کو سراہ بھی رہا ہے اور مدد کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کر رہا ہے۔‘
واضح رہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ تنازعے کے بعد سابق وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں ایک سفارتی وفد واشنگٹن، لندن اور برسلز کے دورے پر ہے۔ یہ وفد سب سے پہلے امریکہ پہنچا تھا جہاں اُنھوں نے حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ امریکہ کا دورہ مکمل کر کے یہ سفارتی وفد اب لندن پہنچ چکا ہے۔
دوسری جانب انڈین رُکن پارلیمان ششی تھرور کی سربراہی میں ایک انڈین سفارتی وفد نے بھی حال ہی میں امریکہ کا دورہ کیا ہے۔
’امریکہ کے پاس زمینی حقائق موجود ہیں کہ ہم دہشتگرد گروہوں سے کیسے ڈیل کرتے ہیں‘
دوران انٹرویو بلاول بھٹو نے کہا کہ امریکہ کے پاس اس بارے میں معلومات اور زمینی حقائق موجود ہیں کہ پاکستان دہشتگرد گروہوں سے کیسے ڈیل کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کا سارا عمل مکمل کیا، امریکہ اس عمل کا حصہ ہے۔ انھوں نے انتہائی قریب سے دیکھا کہ کس طرح پاکستان نے ان تمام گروپس کے خلاف ایکشن لیا، جب میں وزیر خارجہ تھا تو ہمارے ایکشن کی حمایت کرتے ہوئے تو پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں آ گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ اس عمل میں شامل تمام ممالک پاکستان کے ان گروپس کے خلاف اقدامات کے بارے میں پر اعتماد ہیں۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ جہاں تک ڈاکٹر شکیل آفریدی کی بات ہے تو یہ ایک پوائنٹ ہے جو مسلسل اٹھایا جاتا ہے۔ تاہم بلاول نے کہا کہ ان کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران امریکی حکومت کی جانب سے نہیں بلکہ کانگریس کے رکن نے اس کا ذکرکیا۔
واضح رہے کہ امریکی رُکن کانگریس بریڈ شرمین کی جانب سے ’ایکس‘ پر چھ جون کو پوسٹ کیا گیا تھا کہ اُن کی بلاول بھٹو سمیت پاکستانی رہنماؤں سے ملاقات ہوئی جس میں گذشتہ ماہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والے تنازعے کے بعد علاقائی کشیدگی، پاکستان میں جمہوریت اور خطے میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے معاملات پر گفتگو ہوئی۔
بریڈ شرمین نے مزید لکھا کہ انھوں نے پاکستانی وفد سے کہا کہ وہ اپنی حکومت کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کرنے کی ضرورت سے متعلق پیغام پہنچائیں۔ ’وہ (شکیل آفریدی) صرف اس وجہ سے جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں کیونکہ انھوں نے اسامہ بن لادن کو مارنے میں امریکہ کی مدد کی تھی۔‘
بریڈ شرمین کی جانب سے چھ جون کو کی جانے والی ان سلسلہ وار ٹویٹس میں کالعدم تنظیم جیش محمد اور پاکستان میں اقلیتی برادری کے حقوق کے حوالے سے بھی بات کی گئی تاہم بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ امریکی رُکن کانگریس نے ان سے ملاقات میں جیش محمد اور اقلیتی برادری کے حوالے سے بات نہیں کی۔
بلاول نے کہا کہ ’بہتر ہوتا کہ اگر وہ یہ ساری باتیں میرے منہ پر کرتے تو میں انھیں جواب دے سکتا۔ کافی ایسی باتیں ٹویٹ میں کی گئیں جو ہماری گفتگو کا حصہ نہیں تھیں۔ اگر آگے جا کر دوبارہ ملاقات ہوتی ہے تو تفصیل میں ایسے موضوعات پر بات کریں گے۔‘
https://twitter.com/BradSherman/status/1930742891053453332
بلاول نے مزید کہا کہ بریڈ شرمین انڈیا کے بہت نزدیک رہے ہیں حتیٰ کہ وہ بھی انڈیا کے ساتھ ہماری جنگ کے دوران یہ ٹویٹ کرتے رہے کہ ’انڈیا نے دہشتگردی کے اس واقعے میں وہ ثبوت پیش نہیں کیے جس کی وجہ سے اسے پاکستان کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔‘
بلاول بھٹو نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’مجھ نہیں معلوم کے ششی تھرور نے بریڈ شرمین کی یہ والی ٹویٹ یا پیغام شیئر کیا یا نہیں۔‘
بی بی سی کے اس سوال پر کہ انڈین وفد کی تو امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے بھی ملاقات ہوئی، آپ کے وفد کی ٹرمپ انتظامیہ میں کسی بڑی شخصیت سے ملاقات کیوں نہیں ہوئی؟ بلاول بھٹو نے کہا کہ ’پاکستانی وفد نے امریکہ میں جے ڈی وینس سے ملاقات کی خواہش کا اظہار نہیں کیا، جہاں ملاقات کے لیے ہم نے خواہش کا اظہار کیا، یا جہاں سے ان کی طرف سے ملاقات کا کہا گیا تو ہم وہاں پہنچے۔‘
تو آپ نے جے ڈی وینس سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ اس پر بلاول نے بتایا کہ ’ہمارا دورۂ امریکہ کا پہلا فوکس اقوامِ متحدہ تھا، پھر ہم نے سمجھا کہ سینیٹ، کانگریس اور پارلیمنٹ ہیں کیونکہ وہاں پر بہت فیصلے ہوتے ہیں اور وہ بھی بہت اثرورسوخ رکھتے ہیں۔
’محکمہ خارجہ میں ملاقاتیں کیں، بہت سے تھنک ٹینک ہیں جو امریکہ کی پالیسی سازی میں کردار ادا کرتے ہیں، ہم نے وہاں پر دورے کیے لیکن میرے خیال میں ہمارے دورے کے لیے یہ ہی مناسب تھا۔‘
’مودی کو نیتن یاہو کا ٹیمو ورژن کہنے کا میرا بیان کافی کامیاب رہا‘
پاکستان کے سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو چینی کمپنی ٹیمو سے تشبیہہ دینے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو اُن کی بات کم الفاظ میں سمجھ میں آ جائے۔
یاد رہے کہ بلاول بھٹو دورہ امریکہ کے دوراننیو یارک میں اقوام متحدہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کے بعد سوالوں کے جواب دے رہے تھے جس کے دوران ان کا یہ بیان سامنے آیا تھا۔
بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ ’مودی کو دیکھیں وہ لگتا ہے نیتن یاہو کی ٹیمو کاپی ہیں، سستی کاپی۔ ہم انڈیا کی حکومت سے کہتے ہیں کہ وہ بدترین قسم کی مثالوں سے متاثر نہ ہو۔‘
جب بلاول سے پوچھا گیا کہ آپ کبھی مودی کو گجرات کا قصاب اور کبھی نیتن یاہو کا ٹیمو ورژن کہتے ہیں اور ساتھ ہی جامع مذاکرات کی بات بھی کرتے ہیں، تو بلاول نے پوچھا کہ ’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر میرے بیانات نہ ہوتے تو مودی اس وقت میرے ساتھ بیٹھے ہوتے؟‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ٹیمو بہت بڑی اور امیر چینی کمپنی ہے، جو مصنوعات وہ بناتے ہیں انھیں خود بھی پتا ہے کہ ان کی کوالٹی کمزور ہوتی ہے اور ان کی قیمت بھی انتہائی کم ہوتی ہے لیکن میں نے یہ بیان ایسے نہیں دیا۔‘
مجھ سے ایک سوال کیا گیا تو میں نے یہ الفاظ ضرور استعمال کیے، آج کل ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، میرا ماننا ہے کہ بہت کم الفاظ میں آپ بہت کچھ کہہ سکتے ہیں اور بہت کچھ لوگوں تک پہنچا بھی سکتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ میرا وہ پیغام آپ کو جتنا بھی سخت لگ رہا ہو گا، اس لحاظ سے کافی کامیاب رہا۔‘
بلاول نے مزید کہا کہ مودی کو گجرات کے قصاب کا لقب انھوں نے یا کسی پاکستانی نے نہیں دیا بلکہ مودی کے اپنے عوام نے دیا۔
’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مودی جی تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ کیا وہ گجرات کے قصاب، کشمیر کے قصاب بننا چاہیں گے یا وہ امن قائم کر کے پاکستان اور انڈیا کے عوام کے مفاد میں، ایسا فیصلہ کرنا چاہیں گے جس کے بعد تاریخ انھیں اچھے انداز میں یاد رکھے گی۔‘

’انڈیا پانی کی سپلائی روکتا ہے تو جنگ ہو گی‘
سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ دنیا بھر میں ایک انتہائی اہم ایشو ہے۔
خیال رہے کہ پہلگام حملے کے بعد سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا فیصلہ وزیراعظم مودی کی سربراہی میں انڈیا کی سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے ایک اجلاس میں کیا گیا تھا جس کے بعد سے انڈین سیاستدانوں کی جانب سے اس بارے میں بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔
بلاول بھٹو نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر پاکستان کے تناظر میں آپ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دیں گے تو کل کسی اور ملک میں یہ ہی کام ہو گا۔ ایک دن یہ انڈیا کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ انڈیا نے اس معاملے میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ مؤقف اپنایا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’جہاں تک پاکستان میں ڈیم بنانے کی بات ہے تو جہاں اتفاق رائے ہوتا ہے وہاں ڈیم بن جاتے ہیں۔ جیسے دیامر بھاشا ڈیم ہے، وہ منظور بھی ہو گیا اور اس پر کام بھی جاری ہے۔‘
’اس وقت پاکستان اگر کوئی ایسا فیصلہ لیتا جیسے کہ مثال کے طور پر ہم 10 ڈیم بنا رہے ہیں، تو میرے خیال میں ہماری بین الاقوامی پوزیشن کو بہت بڑا دھچکہ پہنچے گا۔ اس لیے اگر ہم آج سے انڈیا کا یہ موقف مانتے ہیں کہ وہ سندھ طاس معاہدے سے نکل چکا اور اس موقف کو مانتے ہوئے اپنی تیاری کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم یہ جنگ ہار گئے۔ ہم نے محاذ ہی چھوڑ دیا، ہم پچ سے اٹھ کر چلے گئے۔‘
’اندرونی سیاست اپنی جگہ، ہر ڈیم کی آپ کو سیاسی، تکنیکی اور معاشی پہلو دیکھنا ہوتے ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے انڈیا نے بہت بڑا اعلان کر دیا ہے، آپ نے خود کہہ دیا کہ اس پر عملدرآمد ہو گا تو جنگ ہو گی، تو اگر انڈیا ہماری پانی کی سپلائی روکتا ہے تو اس صورت میں جنگ ہو گی۔‘
’عمران خان کہتے ہیں کہ وہ حکومت سے نہیں فوج سے بات کریں گے‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ انڈیا پاکستان کشیدگی کے موقع پر ملک میں اتحاد کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان سے بات ہو لیکن عمران خان تو صرف فوج سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
اس سوال پر کہ انڈیا پاکستان کشیدگی کے بعد ہمیں انڈیا میں تو سیاسی اتحاد نظر آتا ہے لیکن پاکستان میں تو اپوزیشن جماعت کے سربراہ جیل میں ہیں، تو اس لیے پاکستان میں تو اس معاملے پر بھی سیاسی تقسیم نظر آتی ہے، آپ کے خیال میں کیا ایسے موقع پر عمران خان کے ساتھ بات کرنی چاہیے؟
بلاول نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’انڈین وفد کافی بڑا ہے، وہ پارلیمانی وفد ہے جبکہ پاکستان کا حکومتی وفد ہے۔ جس میں حکومت، اس کے اتحادی، ٹیکنوکریٹس اور سابق سفارتکار شامل ہیں۔ پارلیمانی وفد میں اپوزیشن کی نمائندگی بھی ہوتی ہے لیکن یہ وفد جسے ایک ٹاسک سونپا گیا، حکومتی وفد ہے۔ تو اسی لحاظ سے آپ کو نمائندگی نظر آ رہی ہے۔‘
’جہاں تک اتحاد کی بات ہے تو جنگ کے دوران پورا ملک ایک تھا، یہ انڈیا کی غلط فہمی تھی کہ شاید ہم اتنے تقسیم ہو چکے ہیں کہ جنگ کے ماحول میں بھی اکٹھے نہیں ہوں گے۔ انڈیا غلط ثابت ہوا۔ وزیراعظم نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کو سپیکر آفس میں ملاقات کی پیشکش بھی کی تھی لیکن عمران خان کی سیاست غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی رہی ہے، انھیں جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کی خواہش کبھی نہیں رہی۔‘
’عمران خان آج بھی کہتے ہیں کہ وہ حکومت سے نہیں بلکہ فوج سے بات کرنے کو تیار ہیں۔‘
اس سوال پر کہ عمران خان کے اختلافات یا تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہیں یا پھر مسلم لیگ ن کے ساتھ تو اس کے حل کے لیے کیا پیپلز پارٹی کوئی کردار ادار کر سکتی ہے؟
بلاول نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کا ریکارڈ پر آپ کے سامنے ہے، ہم یہ چاہیں گے کہ پاکستان میں مزید اتحاد ہو، سیاست میں مفاہمت ہو لیکن کوشش دونوں طرف سے ہوتی ہے۔ میں خواہش تو رکھ سکتا ہوں لیکن پی ٹی آئی میں ایسی سیاست ہی نظر نہیں آتی۔ وہ انتہا پسند سیاست کرتے ہیں۔ وہ انتہا پسند پوزیشنز لیتے ہیں اور ایک سیاسی بندے کے لیے ان پوزیشنز کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔‘
انھوں نے عمران خان کے بارے میں مزید کہا کہ ’آپ ملک کے سابق وزیراعظم رہے ہیں، آپ سیاست دانوں میں سے ہیں اور ہر بار یہ کہنا کہ آپ سیاست دانوں سے بات نہیں کریں گے، ان کا اپنا فیصلہ ہے۔‘