شادی کی ایک تقریب میں رقص ہو رہا تھا جب پستول تھامے ایک نوجوان خواجہ سرا کے قریب آیا اور اس نے پستول تان کر گولی چلائی۔ یہ تمام مناظر ایک ویڈیو میں دیکھے جا سکتے ہیں جو پاکستانی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔
شادی کی ایک تقریب میں رقص ہو رہا تھا جب پستول تھامے ایک نوجوان خواجہ سرا کے قریب آیا اور اس نے پستول تان کر گولی چلائی۔ یہ تمام مناظر ایک ویڈیو میں دیکھے جا سکتے ہیں جو پاکستانی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔
اس ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ملزم ایک گولی چلانے کے بعد پستول کو دوبارہ لوڈ کرتا ہے اور دوسری گولی بھی اسی خواجہ سر پر چلاتا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد میں 13 جون کی شب فائرنگ کے اس واقعے میں پولیس کے مطابق زیبی ملک نامی ایک خواجہ سرا ہلاک جبکہ اس کے ساتھ موجود خاتون زخمی ہوئی ہیں۔
سماجی کارکنان کے مطابق ٹرانس جینڈر زیبی کے قتل کے بعد صوبے میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران قتل ہونے والے خواجہ سراؤں کی تعداد 154 ہو گئی ہے، یعنی ہر سال اوسطاً 15 سے زیادہ خواجہ سرا قتل ہوئے ہیں۔
ٹرانس ایکشن کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس کئی کیسز میں گرفتار کیے گئے ملزمان کو سزائیں دلانے میں ناکام رہی ہے۔ '(ہم) زیبی کے قتل پر بھی انتہائی دکھ کا شکار ہیں کہ یہ خون بھی رائیگاں چلا جائے گا۔'
دوسری طرف پولیس کا کہنا ہے کہ زیبی کے قتل میں ملوث ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس سے آلہ قتل (یعنی پستول) برآمد کیا گیا ہے۔ پولیس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ملزم کو قانون کے مطابق سزا دلوائی جائے گی۔
واقعہ کیسے پیش آیا؟
ایبٹ آباد پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ زخمی خاتون ڈانسر کی مدعیت میں درج کیا ہے جس پر ٹرانس جینڈر برادری نے اعتراض اٹھایا ہے۔
زخمی خاتون، جو ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں، کا کہنا ہے کہ 'مجھے اس تقریب میں مقتولہ زیبی نے دعوت تھی۔۔۔ ملزم موقع پر پہنچا اور مقتولہ زیبی سے مطالبہ کرنے لگا کہ موبائل اس کے حوالے کرے تاکہ وہ اس کے موبائل میں ملزم کی جو ویڈیوز موجود ہیں، ان کو حذف کرے یا وہ خود ان کو ڈیلیٹ کرے جس پر مقتولہ زیبی نے کہا کہ تقریب کے بعد بات کرتے ہیں۔'
درج مقدمہ کے مطابق اس بات پر 'ملزم نے پستول نکالا اور ہجوم کے اندر قتل کرنے کے لیے فائرنگ کر دی جس سے مقتولہ زیبی کو پیٹ میں گولیاں لگیں اور وہ زخمی ہوگئی۔ جبکہ فائرنگ میں خاتون خود بھی زخمی ہوئیں۔'
دوسری جانب خواجہ سرا رہنما اور سماجی کارکن ماریہ خان کا کہنا ہے کہ 'ہم نے پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کا مقدمہ خواجہ سراؤں کی مدعیت میں درج کیا جائے۔'
ماریہ خان کا دعویٰ تھا کہ ملزم مقتولہ خواجہ سرا زبیی پر 'تعلقات کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا، انکار پر اس نے قتل کیا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ مقدمے میں وجہ عداوت کو درست بیان نہیں کیا گیا۔
پولیس کا موقف
ایبٹ آباد پولیس کے ترجمان اعظم میر افضل کے مطابق ایبٹ آباد تھانہ میر پور پولیس نے ملزم کو جائے وقوعہ سے گرفتار کر کے آلہ قتل بر آمد کر لیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ملزم نے پولیس کے سامنے اقبال جرم بھی کر لیا ہے اور عدالتسے ملزم کا دو روزہ ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پولیس کے سامنے اقبال جرم کی عدالت میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
اعظم میر افضل کا کہنا تھا کہ قتل کا مقدمہ زخمی خاتون ڈانسر کی درخواست پر درج کرنا قانونی تقاضہ تھا کیونکہ وہ اس واقعے میں خود زخمی ہوئی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ 'مقتولہ خواجہ سراؤں کے ساتھیوں کا بیان حاصل کر کے ان کو بھی اس مقدمے میں مدعی اور گواہ بنا دیا گیا ہے۔ اگر مقتولہ خواجہ سرا کے لواحقین چاہیں گے تو وہ بھی درخواست دے کر مدعی بن سکتے ہیں۔'
اعظم میر افضل کا کہنا تھا کہ اس وقت پولیس کی تفتیش میرٹ پر جاری ہے۔ 'پولیس انصاف کے تمام تقاضے پورے کرے گی۔'
'پولیس ملزم کو عدالت سے سزا دلوانے کے لیے تمام شواہد اکٹھے کر رہی ہے اور اگر خواجہ سرا مزید کوئی بھی ثبوت دینا چاہتے ہیں تو پولیس نہ صرف مدد کرے گی بلکہ ان کو تحفظ بھی فراہم کرے گی۔'
سماجی کارکن ماریہ خان کا کہنا تھا کہ مقتولہ زیبی کا تعلق سرگودھا سے تھا اور وپ عرصہ دراز سے ایبٹ آباد میں مقیم تھیں اور تقاریب میں کام کرتی تھیں۔ 'وہ اپنے خاندان کی واحد کفیل تھیں۔ ان کے والد کافی عرصہ پہلے وفات پا چکے تھے۔'
مقتولہ زیبی کے ایک ساتھی نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم 'کافی عرصے سے زیبی کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ زیبی اس کے ساتھ تعلق قائم کرے جبکہ مقتولہ زیبی نے ملزم کو کئی مرتبہ بتایا تھا کہ وہ اس کے ساتھ تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔۔۔ وہ صرف ناچ گانا کر کے اپنے لیے روزی روٹی کمانا چاہتی تھی، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔'
سماجی کارکنان کے مطابق خیبر پختونخوا میں 2015 سے لے کر اب تک 154 خواجہ سرا قتل ہوئے ہیں10 سال میں 154 خواجہ سراؤں کا قتل
ٹرانز ایکشن کمیٹی صوبہ خیبر پختونخوا سے منسلک فرزانہ ریاض کا کہنا ہے کہ پورے صوبے میں 2015 سے لے کر اب تک 154 خواجہ سرا قتل ہوئے ہیں۔ 'ہزارہ ڈویژن میں یہ 45واں واقعہ ہے جبکہ ایبٹ آباد کا دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے ایبٹ آباد میں منی خواجہ سرا قتل ہوئی تھی۔'
فرزانہ ریاض کا کہنا تھا کہ ان واقعات کے مقدمات درج ہوئے، کچھ کے ملزمان گرفتار ہوئے اور کچھ کے ملزمانں نہیں گرفتار ہوئے۔ 'مِنی سات، آٹھ سال پہلے قتل ہوئی تھی، اس کے ملزمان رہا ہو چکے ہیں اور آزاد گھوم رہے ہیں۔'
ان کا مطالبہ ہے کہ 'ایسا مقدمہ درج کیا جائے جس کے نتیجے میں ملزمان کو سزا مل سکے۔ ایسا نہ ہو کہ ملزمان کچھ عرصے بعد رہا ہوجائیں۔'
انھوں نے بتایا کہ کئی بار جب خواجہ سرا قتل ہوتے ہیں تو 'ان کے لواحقیقن جنازہ اٹھانے کے لیے نہیں آتے۔ مگر جب مقدمہ درج ہو جاتا ہے۔'
انھوں نے بتایا کہ سزائیں نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لواحقین اور ملزمان کے بیچ راضی نامے پر اتفاق ہو جاتا ہے۔
اس لیے وہ چاہتی ہیں کہ خواجہ سرا کے قتل میں مدعی اس کے اپنے ساتھی خواجہ سرا ہونے چاہییں۔