اسلام آباد کے رہائشی عنایت اللہ خان (فرضی نام) دو سال قبل ریٹائر ہوئے تو ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنی تمام جمع پونجی ایک سیونگ اکاؤنٹ میں محفوظ کر دی تاکہ وقتِ ضرورت کام آ سکے۔اُنہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ رقم زیادہ تو نہیں تھی البتہ اتنی ضرور تھی کہ اس پر ملنے والا معمولی منافع زندگی گزارنے کے اخراجات میں کچھ نہ کچھ سہارا دے سکے۔ حکومت نے ماضی کی طرح اس بار بھی غریب آدمی، خاص طور پر نچلے طبقے کو نشانہ بناتے ہوئے سیونگ اکاؤنٹ پر حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے متوسط طبقے کو مزید پریشانی میں ڈال دیا ہے۔’اب سمجھ نہیں آ رہی کہ میری جمع شدہ رقم پر کتنا منافع ملے گا، کتنا ٹیکس کٹے گا اور اس بات کو لے کر بھی تذبذب کا شکار ہوں کہ رقم وہیں پڑی رہنے دوں یا نکال لوں۔‘یاد رہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے بجٹ 26-2025 میں سیونگ اکاؤنٹس یعنی بینک ڈپازٹس پر حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی ہے۔‘اس سے قبل فائلرز کے لیے بینک منافع پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد تھی جبکہ نان فائلرز کے لیے یہ شرح 30 فیصد تھی۔اب حالیہ بجٹ میں فائلرز کے لیے یہ شرح پانچ فیصد بڑھا کر 20 فیصد کر دی گئی ہے جبکہ نان فائلرز کے لیے یہ شرح پانچ فیصد مزید بڑھا کر 35 فیصد کر دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اس فیصلے کا اطلاق بچت سکیموں پر نہیں ہو گا۔ماہرین کے مطابق اس فیصلے سے وہ تنخواہ دار طبقہ متاثر ہو گا جس نے اپنی رقم سیونگ اکاؤنٹس میں رکھی ہوئی ہے جبکہ زیادہ متاثر ہونے والے افراد پنشنرز ہوں گے جو اپنی جمع پونجی سے حاصل ہونے والے بینک منافع یا فکسڈ ڈپازٹ پر انحصار کرتے ہیں۔سابق وزیرِ مملکت اور سینیئر ماہرِ معیشت ہارون شریف نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایسے ٹیکسز کسی مخصوص حد (تھریش ہولڈ) سے اوپر لاگو کیے جانے چاہیے، انہیں سب پر یکساں طور پر نافذ کرنا غلط معاشی رجحانات کو جنم دے گا اور لوگ اپنی بچتیں بینکوں سے نکالنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔‘
ماہرین کے مطابق اس فیصلے سے تنخواہ دار طبقہ متاثر ہو گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’ریٹائرڈ افراد کی بچتیں پہلے ہی ٹیکس شدہ آمدن سے جمع کی گئی ہوتی ہیں اور ایسے افراد پر اُس وقت مزید ٹیکس عائد کرنا جب وہ کوئی آمدن حاصل نہیں کر رہے نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ ایک مجرمانہ طرزِ عمل ہے۔‘
’بچتیں کسی بھی معیشت میں سرمایہ کاری کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں سرمایہ کاری کا تناسب محض 13 فیصد ہے جو جی ڈی پی کے لحاظ سے انتہائی کم سطح پر ہے۔‘اسلام آباد میں مقیم چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور بچت سکیموں پر کام کا تجربہ رکھنے والے حسن رضا رند کا کہنا ہے کہ ’بینک منافع پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر 20 فیصد کرنا ایک ایسا قدم ہے جو بظاہر ریونیو بڑھانے کے لیے اٹھایا گیا ہے مگر اس کے اثرات براہِ راست پنشنرز، بزرگ شہریوں اور تنخواہ دار طبقے پر پڑیں گے۔‘’ہمارے ملک میں لاکھوں ریٹائرڈ افراد ایسے ہیں جن کے پاس آمدن کا واحد ذریعہ ان کی جمع پونجی پر ملنے والا منافع ہے، ان کے لیے یہ محض ایک مالیاتی فیصلہ نہیں، بلکہ ان کے روزمرہ اخراجات پر براہ راست ضرب ہے۔‘اُنہوں نے بتایا کہ ’اگر حکومت واقعی ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا چاہتی ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ غیر دستاویزی سیکٹرز اور بڑے نان فائلرز کو نشانہ بنائے نہ کہ ان افراد کو جو پہلے ہی بینکنگ نظام کا حصہ ہیں اور اپنی چھوٹی بچتوں پر گزر بسر کر رہے ہیں۔‘آخر میں اُن کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم 60 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد اور پنشنرز کے لیے اس ٹیکس شرح میں استثنیٰ یا کم از کم شرح مقرر کی جانی چاہیے تاکہ ان کی مالی خودمختاری متاثر نہ ہو۔‘