پاکستان میں بے نامی جائیدادیں رکھنے کا رواج ایک عرصے سے مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ جیسے سنگین جرائم پر پردہ ڈالنے کے ایک طریقہ کار کے طور پر عام ہے۔ بااثر شخصیات، کاروباری گروہوں اور بعض سرکاری افسران کے لیے یہ ایک عام طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنی دولت کو دوسرے افراد کے نام پر منتقل کر کے چھپا لیتے ہیں تاکہ قانونی ذمہ داریوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ قانون کی نظر سے بھی بچ سکیں۔یہ جائیدادیں اکثر گھریلو ملازمین، ڈرائیورز یا کاروباری شراکت داروں کے نام پر رکھی جاتی ہیں جن کا نہ ان جائیدادوں سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے ذرائع آمدن ان جائیدادوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔اس رجحان کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی قریب میں صدر آصف علی زرداری اور ان کے قریبی ساتھیوں کے خلاف بھی بے نامی جائیدادوں کے الزامات پر مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں۔
نیب اور دیگر تحقیقاتی اداروں کی رپورٹوں میں انکشاف ہوا تھا کہ زرداری خاندان کے مالی مفادات سے وابستہ بعض جائیدادیں اور اکاؤنٹس ایسے افراد کے نام پر رجسٹرڈ تھے جن کی مالی حیثیت ان جائیدادوں کی ملکیت سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ ان مقدمات میں پارک لین کمپنی، اومنی گروپ اور جعلی بینک اکاؤنٹس جیسے سکینڈلز شامل ہیں جن میں بے نامی لین دین کے شواہد سامنے آئے۔
اس طرح کے مقدمات سامنے آنے کے بعد 2017 میں حکومت نے بے نامی ایکٹ پاس کر کے نافذ کیا۔ اس کے تحت بیوروکریٹک اقدامات تو ہوتے رہے لیکن عملی قدم نہ اٹھایا جا سکا۔تاہم اب آٹھ سال قبل نافذ کیے گئے بے نامی جائیداد کے قانون پر بالآخر پہلی بڑی عملی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے بے نامی جائیداد مخالف اقدامات کے تحت اسلام آباد میں واقع دو اہم رہائشی پلاٹس بحقِ سرکار ضبط کر لیے گئے ہیں۔یہ دونوں پلاٹس پاکستان ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (PECHS) میں واقع ہیں۔ پلاٹ نمبر 168-اے کی پیمائش 816 مربع گز، جبکہ پلاٹ نمبر 174-اے کی پیمائش 991 مربع گز ہے۔ ان پلاٹس کی رجسٹریشن ایک ایسے شخص کے نام پر کی گئی تھی جو ایف بی آر کے ریکارڈ میں موجود نہیں اور خود بھی ان جائیدادوں سے لاعلم نکلا۔تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ اس فرد کے شناختی کارڈ کا غلط استعمال کرتے ہوئے یہ جائیدادیں اس کے نام پر منتقل کی گئیں۔ایف بی آر کے مطابق یہ اقدام پاکستان میں کالے دھن، ٹیکس چوری اور غیر دستاویزی معیشت کے خلاف جاری حکومتی مہم میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم ایف بی آر نے ابھی تک ان جائیدادوں کے حقیقی مالک کا نام صیغۂ راز میں رکھا ہوا ہے۔تفصیلی تحقیقات کے بعد یہ معاملہ اسلام آباد میں قائم بے نامی ایڈجیوڈیکیٹنگ اتھارٹی کی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں بینچ نمبر ایک نے ان جائیدادوں کو بحقِ سرکار ضبط کرنے کے احکامات جاری کیے۔عدالتی فیصلے کے بعد قانونی تقاضے مکمل کیے گئے اور مقامی پولیس کی مدد سے ایف بی آر نے یہ پلاٹس اپنی تحویل میں لے لیے۔
بے نامی ٹرانزیکشنز (ممنوعہ) ایکٹ 2017 حکومتِ پاکستان کی طرف سے متعارف کرایا گیا ایک قانون ہے۔ (فوٹو: ایف بی آر ویب سائیٹ)
اس حوالے سے ایف بی آر نے عوام سے باضابطہ اپیل کی ہے کہ اگر کسی کو ایسی جائیدادوں کے بارے میں معلومات ہیں جو کسی اور کے نام پر چھپائی گئی ہیں یا جن کا اصل مالک کوئی اور ہے، تو وہ ادارے کو اطلاع دے کر ملک کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
ترجمان ایف بی آر کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی جائیداد کی نشاندہی کرتا ہے جو بے نامی ثابت ہو جائے، تو اسے جائیداد کی مالیت کے مطابق تین سے پانچ فیصد تک انعام دیا جائے گا۔دو لاکھ روپے تک کی جائیداد کی اطلاع دینے پر پانچ فیصد، دو لاکھ سے پانچ لاکھ روپے کی اطلاع پر چار فیصد، جبکہ پانچ لاکھ سے زائد مالیت کی جائیداد کی اطلاع پر تین فیصد انعام مقرر ہے۔ایف بی آر نے واضح کیا ہے کہ اطلاع دہندہ کا نام صیغۂ راز میں رکھا جائے گا اور اسے قانونی تحفظ حاصل ہو گا۔بے نامی ایکٹ 2017 کیا ہے؟بے نامی ٹرانزیکشنز (ممنوعہ) ایکٹ 2017 حکومتِ پاکستان کی طرف سے متعارف کرایا گیا ایک قانون ہے جس کا مقصد ایسے مالیاتی لین دین اور جائیدادوں پر پابندی لگانا ہے جو کسی شخص کے نام پر ہوں لیکن ان کا اصل مالک کوئی اور ہو۔اس قانون کا مقصد ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ، غیر قانونی دولت کی حفاظت اور جائیدادوں کی ملکیت میں شفافیت پیدا کرنا ہے۔اس قانون کے تحت، اگر کسی جائیداد کی ملکیت کسی ایسے فرد کے نام پر ہے جو اس جائیداد سے لاعلم ہو یا اس کی خریداری کے ذرائع نہ بتا سکے، تو وہ جائیداد ’بے نامی‘ تصور کی جاتی ہے۔قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایسی جائیداد کو حکومت بحقِ سرکار ضبط کر لے اور متعلقہ افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔اس قانون کے مطابق، بے نامی لین دین میں ملوث افراد کو نہ صرف قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے بلکہ بے نامی جائیداد کسی اور کو منتقل کرنا بھی ممنوع ہے۔
ایف بی آر کے مطابق پلاٹو کی ضبطگی کا قدم کالے دھن، ٹیکس چوری اور غیر دستاویزی معیشت کے خلاف مہم میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)
قانون میں یہ شق بھی شامل ہے کہ بے نامی جائیداد کے معاملات دیگر تمام موجودہ قوانین پر فوقیت رکھتے ہیں، یعنی ان پر کوئی دوسرا قانون لاگو نہیں ہوتا۔
اس قانون کے مؤثر نفاذ کے لیے بے نامی ایڈجیوڈیکیٹنگ اتھارٹی اور خصوصی ٹریبونل قائم کیے گئے ہیں جو شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں کہ کوئی جائیداد بے نامی ہے یا نہیں۔ایف بی آر کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ صرف شفافیت اور احتساب کے فروغ کے لیے اہم ہے بلکہ اس سے ٹیکس نیٹ کو بھی وسعت دی جا سکتی ہے۔ایف بی آر حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ عوام اس مہم میں ادارے کا ساتھ دیں گے تاکہ پاکستان کو ایک شفاف، منظم اور دستاویزی معیشت کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔اس قانون کے ذریعے چھپے ہوئے اثاثوں کو بے نقاب کرنا ممکن ہوگا، جو ملک میں بدعنوانی اور دولت کے غیر قانونی استعمال کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔