دریائے سوات میں حالیہ سیلابی ریلے نے جہاں درجنوں سیاحوں کی جان لی، وہیں کئی افراد کو بچانے کے لیے ایک ایسا مرد مجاہد سامنے آیا، جس نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر دریا کی موجوں سے لڑ کر لوگوں کی جان بچانے کی کوشش کی البتہ بدقسمتی سے صرف لاشیں ہی نکال سکے۔ اس ہیرو کا نام ہے محمد بلال خان، جو آج پورے سوات اور پاکستان کے لیے فخر بن چکے ہیں۔
محمد بلال خان کا تعلق سوات کی تحصیل کبل کے گاؤں علیگرامہ سے ہے۔ وہ خدای خدمتگار تنظیم سوات کے ضلعی ڈپٹی سالار ہیں اور اپنی بے لوث خدمت، نڈر طبیعت اور انسانی جانوں کے لیے غیر معمولی جذبے کے باعث پہچانے جاتے ہیں۔
گزشتہ روز جب حکومت کی تمام تر مشینری، مہنگی گاڑیاں، اور کروڑوں کا بجٹ رکھنے والی ریسکیو سروسز نظروں سے اوجھل تھیں۔ نہ کوئی جدید آلات تھے، نہ کسی بڑی تنظیم کی قیادت۔ لیکن بلال خان تھا، جس کے ہاتھ خالی مگر دل جذبے سے بھرا ہوا تھا۔ نہ کوئی حفاظتی جیکٹ، نہ مخصوص وردی، صرف ہمت، ایمان، اور انسانیت کا درد ، ایک خود بنائی ہوئی ٹوٹی پھوٹی کشتہ ، یہی اس کا اسلحہ تھا۔
بلال خان کی خدمات کوئی نئی نہیں۔ وہ برسوں سے دریائے سوات میں ہونے والے حادثات میں پیش پیش رہے ہیں۔ جب بھی کوئی حادثہ ہوتا، وہ سب سے پہلے موقع پر پہنچتے اور آپریشن کے آخر تک لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ان کے رفقاء کا کہنا ہے کہ بلال کو دریا میں تلاش اور بچاؤ کی غیر رسمی تربیت حاصل ہے اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت ایسی جان لیوا کارروائیاں انجام دیتے ہیں جن پر سرکاری ادارے بھی حیران رہ جاتے ہیں۔
صرف ریسکیو ہی نہیں، بلال خان کو ماحولیات سے بھی گہرا لگاؤ ہے۔ وہ صفائی اور شجرکاری کی مہمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور نوجوانوں کو بھی اس جانب مائل کرتے ہیں۔ خدای خدمتگار تنظیم ان کے اس جذبے کو سلام پیش کرتی ہے اور ان کی خدمات کو سوات کے لیے ایک قیمتی اثاثہ مانتی ہے۔
آج جب ہم کسی مسیحا کی تلاش کرتے ہیں تو ہمیں بلال خان جیسے لوگ نظر آتے ہیں، جو شہرت، تنخواہ یا تمغے کے لیے نہیں، بلکہ صرف انسانیت کی خدمت کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ ایک یادگار مثال ہیں کہ جب نیت صاف ہو اور جذبہ خالص، تو تنہا انسان بھی ایک پوری قوم پر بھاری پڑ سکتا ہے۔
قوم کے ایسے سپوت کو ہمارا سلام، اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد بلال خان کو سلامت رکھے اور ان کے جذبے کو مزید طاقت دے، آمین۔