پولیس نے ٹانک کے ڈپٹی ہیلتھ افسر اور ایک اکاؤنٹنٹ سمیت نوید ظفر کو بازیاب کرا لیا تھااور گھر والوں کی خوشی کی یہ خبر بھی سنا دی گئی تھی لیکن اس دوران نوید ظفر کا دل جواب دے گیا تھا اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی وہ دم توڑ گئے تھے۔
’آج آپ چھٹی کر لیں دفتر نہ جائیں معلوم نہیں کیوں مجھے آج بہت خوف محسوس ہو رہا ہے۔‘
یہ وہ الفاظ تھے جو خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک کے سرکاری افسر نوید ظفر کی اہلیہ نے ان کو گھر سے دفتر کے لیے رخصت کرتے ہوئے ادا کیے۔
تاہم نوید یہ کہہ کر روانہ ہوئے کہ جون کا مہینہ ہے کام بہت ہے اس لیے وہ چھٹی نہیں کر سکتے۔ بی بی سی کو نوید اور ان کی اہلیہ کے درمیان اس گفتگو سے ان کے کزن محمد طارق نے آگاہ کیا ہے۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں سرکاری ملازمین کے اغوا اور سیکیورٹی اداروں پر حملوں سے متعلق بی بی سی اردو کی تحاریر براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں
یاد رہے کہ ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ افسر نوید ظفر خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک کے ان تین سرکاری ملازمین میں شامل تھے جنھیں بدھ کے روز ڈیرہ اسماعیل خان سے ٹانک جاتے ہوئے راستے میں نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کر لیا تھا۔
پولیس نے ٹانک کے ڈپٹی ہیلتھ افسر اور ایک اکاؤنٹنٹ سمیت نوید ظفر کو بازیاب کرا لیا تھا اور گھر والوں کو خوشی کی یہ خبر بھی سنا دی گئی تھی لیکن اس دوران نوید ظفر کا دل جواب دے گیا تھا اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی وہ دم توڑ گئے تھے۔
نوید کے کزن محمد طارق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ’پھر کچھ ویسا ہی ہوا جس کا خدشہ نوید کی اہلیہ کر چکی تھیں۔ ‘
’دوپہر کو جب نوید ظفر سے ان کی اہلیہ کا رابطہ نہیں ہوا تو ان کے دفتر سے معلوم ہوا کہ نوید دفتر بھی نہیں پہنچے پھر اس کے بعد سب گھر والوں کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔‘
پولیس کے مطابق ’نوید ظفر کو جب ساتھیوں سمیت بازیاب کروایا گیا تو ان کی حالت ٹھیک نہیں تھی، ان دنوں علاقے میں شدید گرمی تو تھی ہی ساتھ ہی خوف بھی تھا۔ اغوا کار ان ملازمین کو تقریباً چار گھنٹوں تک گھماتے رہے اور اس دوران پولیس بھی ان کے تعاقب میں تھی۔‘
پولیس کے مطابق نوید بے ہوش ہو گئے تھے ’قریب موجود ایک ٹریکٹر ڈرائیور پانی لے آیا۔ نوید کو پانی پلانے کی کوشش کی اور پھر انھیں فوری طور ٹانک ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔‘ بعد میں بتایا گیا کہ شائد انھیں دل کا دورہ پڑا تھا جس وجہ سے وہ وفات پا گئے۔
نوید ظفر کے بارے میں ان کے رشتہ دار محمد طارق نے بتایا کہ ’انھیں کوئی ایسا عارضہ لاحق نہیں تھا تاہم وہ ٹینشن لیتے تھے اور شاید بلڈ پریشر بھی تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ٹانک تبادلے کی وجہ سے وہ پریشان تھے کیونکہ ٹانک کے حالات اور اس راستے پر اغوا اور شدت پسندوں کی کارروائیوں کی وجہ سے بیشتر ملازمین نے تو استعفوں کے فیصلے بھی کیے ہیں۔‘
اغوا کیسے ہوا اور پھر بازیابی کیسے ممکن ہوئی؟
یہ واقعہ بدھ کی صبح اس وقت پیش آیا جب نوید سمیت تینوں سرکاری ملازمین ڈیوٹی کے لیے ایک گاڑی میں ٹانک جا رہے تھے۔
ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے سرحدی علاقے میں مسلح افراد نے ان کی گاڑی کو روکا اور انھیں اسلحے کے زور پر اغوا کرکے لے گئے۔
واضح رہے کہ 38 سالہ نوید ظفر ڈیرہ اسماعیل خان کے رہائشی تھے لیکن ان کی پوسٹنگ ٹانک میں تھی۔
مقامی پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ وہ اس وقت کلاچی کے علاقے میں ایک سرچ آپریشن کے لیے گئے ہوئے تھے، وہاں سے واپس پہنچے تو اطلاع ملی کہ تین سرکاری ملازمین کو اغوا کر لیا گیا ہے۔
اس وقت پولیس کے ساتھ سی ٹی ڈی کے افسران اور اہلکار بھی پہنچ گئے اور ان ملازمین کی تلاش کے لیے علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق تمام تکنیکی وسائل استعمال کرکے ان کے موبائل فون نمبرز کو ٹریک کیا گیا۔
اس علاقے میں گھنے جنگل اور بہت دشوار گزار راستہ ہے جبکہ پانی کی شدید قلت پائی جاتی ہے اور گرمیوں میں یہاں درجہ حرارت کافی زیادہ رہتا ہے۔
پولیس اہلکار نے بتایا کہ ’اس علاقے کے قریب دیگر سیکیورٹی اداروں کا آپریشن بھی جاری تھا جس میں ایک شدت پسند ہلاک ہو گیا تھا اور اسی لیے مسلح اغواکار ان سرکاری ملازمین کو چھوڑ کر وہاں سے فرار ہو گئے۔‘
پولیس کے مطابق اس وقت علاقہ شدید گرمی کی لپیٹ میں تھا۔ پولیس نے نوید کے بارے میں بتایا کہ وہ بے ہوش ہو گئے تھےانھیں فوری طور ٹانک ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ زندگی کی بازی ہار چکے تھے۔
گرمی اور خوف کی وجہ سے عام طور پر انسانی جسم پر مختلف اثرات مرتب ہو سکتے ہیںموسم کی شدت، خوف اور پریشانی جیسے عوامل کے انسانی جسم پر اثرات
نوید ظفر کی بازیابی کے باوجود ان کی وفات کی خبر پر سوشل اور مقامی میڈیا پر کافی تبصرے سامنے آئے ہیں۔
موسم کی شدت، خوف اور پریشانی جیسے عوامل انسانی جسم پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں، جن کے باعث بعض اوقات انسان کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
اس حوالے سے بی بی سی نے پشاور میں امراض قلب کے ماہر ڈاکٹر احسن شبیر گیلانی سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ شدید گرمی یا خوف کی حالت میں جسم میں کئی قسم کی تبدیلیاں آتی ہیں، جیسے دل کی دھڑکن تیز ہونا، بلڈ پریشر کا بڑھ جانا یا کم ہو جانا، اور ذہنی دباؤ میں اضافہ۔
ڈاکٹر گیلانی کے مطابق اگر ایسی صورتِ حال میں کوئی شخص ذیابطیس کا مریض ہو اور اسے دل کا دورہ پڑے، تو امکان ہوتا ہے کہ وہ معمول کے برعکس سینے میں درد کو کم محسوس کرے یا بالکل بھی نہ کرے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ذیابطیس کے باعث اعصابی نظام متاثر ہو سکتا ہے جو درد کے احساس کو دبا دیتا ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ اگر مریض پہلے سے بلند فشار خون یعنی ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہو تو ایسی کیفیت میں بلڈ پریشر اچانک گر سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے دماغ کو آکسیجن کی سپلائی کم ہو جاتی ہے اور یہ سارا عمل صرف دو سے تین منٹ میں ہو سکتا ہے جو بعض اوقات موت کا سبب بن سکتا ہے۔ اس حالت کو نروس بریک ڈاؤن کہا جاتا ہے۔
اگر گرمی یا خوف کا اثر دل یا گردوں پر ہو تو متبادل طبی طریقے اختیار کر کے مریض کو سنبھالا جا سکتا ہے لیکن اگر دماغ کو آکسیجن کی فراہمی رک جائے تو مریض کو بچانا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔
’جوان بیٹے کے جنازے کو کندھا دینا پڑ رہا ہے‘
نوید ظفر کے کزن محمد طارق نے بتایا کہ نوید نے دو شادیاں کی تھیں ’وہ خود ماں باپ کے اکلوتے بیٹے تھے اور اب نوید کی پہلی بیوی سے پانچ اور دوسری بیوی سے تین بچے ہیں۔‘
محمد طارق نے بتایا کہ ’نوید کی والدہ فوت ہو گئی ہیں جبکہ والد عمر رسیدہ ہیں۔ اس عمر میں بیٹے والد کے جنازے کو کندھا دیتے ہیں لیکن انھیں اپنے جوان بیٹے کے جنازے کو کندھا دینا پڑ رہا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ نوید ظفر کی بیوی شدید غم میں ہیں۔
’نوید کی بازیابی کی خبر ایک خوشی بن کر ان کی اہلیہ کو ملی لیکن وہ اس انتظار میں تھیں کہ جب تک وہ نوید کو خود دیکھ نہیں لیتیں انھیں یقین نہیں آئے گا۔ اس کے بعد یہ اطلاع بجلی بن کر تمام اہل خانہ پر گری کے نوید ظفردنیا میں نہیں رہے۔‘
ڈیرہ ٹانک روڈ اغوا کاروں کا مرکز
یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں کچھ عرصے سے حالات انتہائی کشیدہ ہیں جہاں پولیس اور سیکیورٹی اہکاروں پر حملوں کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ اور اغوا کے واقعات میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔
صرف ڈیرہ اسماعیل خان سے ٹانک تک 66 کلومیٹر کے راستے پر اور اس کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب روڈ پر درابن تک 60 کلومیٹر کے راستے پر متعدد وارداتیں ہو چکی ہیں۔
ان میں ایک جج کا اغوا بھی شامل ہے۔
اسی طرح گذشتہ ہفتے ٹانک کے ڈسٹرکٹ ضلعی ایجوکیش افسر سمیت تین سرکاری ملازمین کو اغوا کیا گیا تھا لیکن بعد میں انھیں بازیاب کرا لیا گیا۔
اسی طرح اس علاقے سے انسداد پولیو مہم سے وابستہ دو کارکنوں کو اغوا کیا گیا تھا جنھیں گذشتہ دنوں تقریباً دو ماہ بعد بازیاب کرایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ان راستوں پر بینک کی گاڑیوں پر حملے اور ملازمین کو اغوا کرنے کے واقعات بھی تسلسل سے سامنے آ رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈویژنل صدر قیضار خان میانخیل کو ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب اغوا کیا گیا تھا لیکن بعد میں انھیں بازیاب کرا لیا گیا تھا۔
ٹانک میں مختلف اداروں کے ساتھ وابستہ اہلکاروں کو اغوا یا دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ان راستوں پر واقع علاقوں جیسے کلاچی ہتھالہ درابن سے بینک سروس بند رہی ہے۔
کلاچی میں عدالتیں، بینک اور انتظامی افسران اب بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں اور لوگوں کو 40 کلیومیٹر دور جا کر اپنے بنیادی کام کرانے پڑتے ہیں ۔
صرف ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک نہیں لکی مروت میں بھی حالات کشیدہ ہیں جہاں فروری میں اغوا کیے گئے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن قبول خیل منصوبے کے ملازمین کو اب تک بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔ اس کے علاوہ ان علاقوں سے مذید افراد کے اغوا کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
خیبر پختونخوا کے ان جنوبی اضلاع میں گذشتہ تقریباً ایک ڈیڑھ سال سے مسلح شدت پسندوں کی جانب سے سرکاری ملازمین کو دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ وہ سرکار کی ملازمت چھوڑ دیں اور حکومت کی جانب سے ایسے الرٹس بھی جاری ہوئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ان راستوں پر سفر کے وقت اپنے ساتھ سرکاری دستاویز یا سروس کارڈز وغیرہ نہ رکھیں۔