چین کی بحری طاقت میں مسلسل اضافہ، بحیرۂ تسمان تک اس کے جنگی بحری جہازوں کی حالیہ نقل و حرکت اور بحرالکاہل کے جزائر پر مشتمل ممالک کے خلاف اس کی سفارتی سرگرمیاں، امریکہ کی ’سیکنڈ آئی لینڈ چین‘ پر قائم اجارہ داری کو چیلنج کر سکتی ہیں۔

سنگاپور میں سالانہ ’شنگری-لا ڈائیلاگ‘ اجلاس کو ایشیا پیسیفک میں امریکہ اور چین کے سکیورٹی نقطہ نظر سے متعلق اہم معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
لیکن اس سال چین نے اس اجلاس میں نہ تو اپنے وزیرِ دفاع کو بھیجا اور نہ ہی کوئی اعلیٰ سطحی وفد۔ یہاں تک کہ چین کی میزبانی میں ہونے والا ایک سیشن بھی منسوخ کر دیا گیا۔
اجلاس میں سب سے زیادہ متنازعہ بیانات میں سے ایک امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ کا یہ انتباہ تھا کہ چین تائیوان پر ’حملہ‘ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ’بحیرۂ جنوبی چین اور جزیروں کی پہلی زنجیر میں زبردستی طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
چین اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں بڑی طاقتوں کے درمیان عسکری تناؤ سے متعلق خبروں کے لیے بی بی سی اردو کے واٹس ایپ چینل پر آئیں۔
چینی وزارتِ خارجہ نے فوری طور پر اس الزام کی تردید کی ہے۔
چین اپنی بحریہ کی موجودگی اردگرد کے پانیوں میں مسلسل بڑھا رہا ہے۔ گذشتہ ماہ تمام سمندری رستوں پر اس کی جانب سے غیر معمولی تعداد میں جنگی طیارے اور جنگی بحری جہاز تعینات کیے گئے۔ اس اقدام کو ’فرسٹ آئی لینڈ چین‘ یعنی جزیروں کی پہلی زنجیر میں امریکی فوجی موجودگی کے لیے براہ راست چیلنج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سمندروں میں چین کی بحری طاقت کی مسلسل ترقی، بحیرۂ تسمان تک چینی جنگی بحری جہازوں کی حالیہ سرگرمیاں اور بحرالکاہل کے جزیروں کے ممالک کے خلاف اس کی حالیہ سفارتی کارروائی، امریکہ کی ’سیکنڈ آئی لینڈ چین‘ یعنی جزیروں کی دوسری زنجیر پر اجارہ داری کو بھی کمزور کر سکتا ہے۔
اس تحریر میں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ چین کی فوجی توسیع اور سفارتی کوششیں کس طرح فرسٹ اور سیکنڈ آئی لینڈ چین کو توڑنے کے لیے کی جا رہی ہیں؟

جزائر کی پہلی اور دوسری زنجیریں کیا ہیں؟
جزیروں کی پہلی اور دوسری زنجیریں دراصل امریکہ کی ’جزیروں کی زنجیر‘ کی حکمت عملی کا حصہ ہیں جس کا مقصد چین کو محدود کرنا ہے اور ان جزائر سے آگے اسے اپنی طاقت کو استعمال کرنے سے روکنا ہے۔
متعدد جزیروں پر مشتمل یہ ’سمندری رکاوٹیں‘ بحر الکاہل تک چین کی رسائی کو محدود کر دیتے ہیں، جہاں امریکی فوجی اڈے واقع ہیں۔
پہلا سلسلہ جاپان کے مرکزی جزیروں سے شروع ہوتا ہے اور مشرقی بحیرۂ چین کے مشرق میں واقع ریوکو جزائر تک جاتا ہے جہاں امریکی افواج کی مشرقی ایشیا کے لیے فوج کی بڑی تعداد تعینات ہے۔
اس کے بعد یہ تائیوان سے گزرتا ہے، باشی چینل سے ہوتے ہوئے فلپائن کے مغربی ساحل تک پہنچتا ہے۔ یہاں یہ بحیرۂ جنوبی چین سے ہوتا ہوا آخر کار ویتنام کے ساحل پر ختم ہوتا ہے۔
جزائر کا دوسرا سلسلہ پہلی زنجیر کے مشرق میں، وسطی مغربی بحر الکاہل میں واقع ہے۔ یہ جاپان سے شروع ہوتا ہے، جہاں یوکوسوکا میں امریکی فوجی اڈہ واقع ہے، پھر جاپان کے بونین جزائر، شمالی ماریانا جزائر اور گوام کے امریکی علاقوں سے ہوتا ہوا بحرالکاہل کے چھوٹے ملک پالو تک پہنچتا ہے اور آخر میں انڈونیشیا کے مغربی نیو گنی میں ختم ہوتا ہے۔

جزائر کی پہلی زنجیر پر دباؤ میں اضافہ
تائیوان کے میڈیا کے مطابق چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے حال ہی میں چار ’سمندروں‘ میں بڑے پیمانے پر افواج کو تعینات کیا ہے جن میں بحیرہ اصفر، مشرقی اور جنوبی بحیرۂ چین اور آبنائے تائیوان شامل ہیں۔ ان میں دو طیارہ بردار بحری جہازوں کے گروپ بھی ہیں جن میں جنوبی بحیرہ چین میں شانڈونگ اور تائیوان کے جنوب مشرق میں لیاوننگ شامل ہیں۔
اسے ذرائع ابلاغ میں جزیروں کی زنجیر پر زیادہ سے زیادہ دباؤ بڑھانے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تائیوان کے قومی سلامتی کے ایک اہلکار نے بتایا کہ چین نے 11، 18 اور 27 مئی کو 70 سے زیادہ قسم کے جنگی طیارے تائیوان کے ایمرجنسی زون میں اڑائے، جو مختلف فوجی جہازوں کے ساتھ ہم آہنگ تھے۔
چینی فوج نے 20 مئی کو صوبہ فوجیان کے ساحلی علاقے پر ایک مشق بھی کی جو تائیوان کے صدر ولیم لائی کے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کی سالگرہ کے موقع پر کی گئی۔
بحیرۂ مشرقی چین میں چینی فوج کی مشرقی خطے کی کمانڈ کا ایک بحری بیڑہ آبنائے میاکو سے گزر کر 16 مئی کو مغربی بحر الکاہل میں داخل ہوا۔
چین کے طیارہ بردار بحری جہاز لیاؤننگ نے بھی 25 اور 26 مئی کو بحیرۂ مشرقی چین میں پہلی ٹیک آف اور لینڈنگ کی مشقیں کیں۔
تائیوان کے میڈیا کے مطابق بحیرۂ اصفر میں چین اور جنوبی کوریا کے درمیان تصادم کی اطلاعات اس وقت سامنے آئیں جب چین نے متنازعہ جزیرے سوان کے قریب ایک تنصیب پر تعمیر شروع کی۔ تائیوان کی ویب سائٹ کے مطابق، سنہ 2025 میں نصب کیے گئے یہ 12 ڈھانچے ہیلی کاپٹروں کو ٹیک آف اور لینڈ کرنے میں مدد کریں گے اور چین کی جانب سے فوجی مقاصد کے لیے زیرِ سمندر ریڈار اور سونار سسٹم بھی نصب کیے گئے ہیں۔
بحیرۂ جنوبی چین میں چین کے طیارہ بردار بحری جہاز شانڈونگ سمیت ایک بحری بیڑا گذشتہ ہفتے سے مشقیں کر رہا ہے۔
بیجنگ نے 2020 کے بعد پہلی بار پارسل جزائر میں ووڈی آئی لینڈ (یونگ شنگ) میں فوجی اڈے پر دو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایچ سکس بمبار طیارے بھی تعینات کیے ہیں۔
ہانگ کانگ کے اخبار منگ پاؤ کے مطابق، اس اقدام سے چینی فوج کو پہلے کے مقابلے میں تقریباً آدھا گھنٹہ پہلے جزیروں کی زنجیر میں افواج تعینات کرنے کا موقع ملے گا، اس طرح اس کے فوجی ردعمل کا وقت کم ہو جائے گا۔
ممتاز چینی مبصر ہو شی جن نے کہا کہ بحیرہ جنوبی چین میں فوجی طاقت کا توازن تیزی سے چین کے حق میں تبدیل ہو رہا ہے اور خطے میں امریکہ کی ’فوجی برتری دکھانے‘ کا دور ختم ہو گیا ہے۔ لی رونگ ماؤ نامی ایک چینی بلاگر نے چاروں سمندروں میں چینی فوجیوں کی حالیہ تعیناتی کو ایک ’بڑی سٹریٹیجک کامیابی‘ قرار دیا جس سے امریکی فوج کے زیر کنٹرول جزیروں کی پہلی زنجیر پر بہت دباؤ پڑا ہے۔
اخبار چائنا ٹائمز کے کالم نگار شی جن پنگ نے 3 جون کو لکھا کہ طاقت کے توازن میں تبدیلی ’پچھلے 100 سالوں میں مغربی بحرالکاہل میں ہونے والی سب سے بڑی تبدیلی ہے۔‘ انھوں نے سنگاپور کے سابق رہنما لی کوان یو کا حوالہ دیتے ہوئے پیشگوئی کی کہ چین پہلے امریکہ کو اپنے 12 میل کے ساحلی پانیوں سے باہر دھکیل دے گا اور پھر یہ اس کے 200 میل کے خصوصی اقتصادی زون سے باہر نکل جائے گا۔
شی کا خیال تھا کہ پہلے جزیرے کی زنجیر کے اندر موجود ’چار سمندر‘ اب امریکہ کی ’اندرونی جھیلیں‘ نہیں ہیں بلکہ چین کی ’دفاعی کھائی‘ بن چکے ہیں۔

فوجی طاقت کا توازن ’چین کی طرف‘ جھک گیا ہے
ایک ہی وقت میں، دو چینی طیارہ بردار بحری جہازوں کی فرنٹ لائن پر تعیناتی، پہلی بار کسی تربیتی مشق کے باہر، تقریباً ایک ہی وقت میں دو امریکی طیارہ بردار بحری جہاز (نمٹز اور جارج واشنگٹن) کی جنوبی بحیرہ چین اور مغربی بحرالکاہل میں تعیناتی کے ساتھ ہوئی۔
لی رونگ ماو نے فوجی مبصرین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’دو چینی طیارہ بردار جہازوں نے بحیرہ جنوبی چین اور بحیرہ مشرقی چین میں اہم سٹریٹجک جگہوں کو پر قابو پانے کی کوشش ہے جس سے امریکی کمک اور جاپان اور فلپائن کے درمیان ممکنہ فوجی ہم آہنگی کا راستہ بند ہو گیا ہے۔‘
ایک غیر سرکاری چینی فوجی بلاگر نے کہا کہ چار طیارہ بردار بحری جہازوں کے درمیان یہ ’تصادم‘ بظاہر ’مسابقتی‘ ہے، لیکن درحقیقت امریکہ ’نسبتاً کمزور پوزیشن‘ میں ہے، کیونکہ نمٹز ریٹائرمنٹ کے قریب ہے اور جارج واشنگٹن ایشیا-پیسیفک کے خطے میں امریکی بحری جہاز کی موجودگی میں موجود خلا کو پُر کرنے کے لیے ورکشاپ سے لایا گیا ہے۔
وہ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ کیا امریکہ ایک ہی وقت میں تین چینی طیارہ بردار بحری جہازوں کا مقابلہ کر سکتا ہے، کیونکہ فوجیان نامی بحری بیڑہ جس نے ابھی آٹھویں سمندری آزمائش مکمل کی ہے، جلد ہی سروس میں داخل ہو جائے گا۔

لی رونگ ماؤ کا ماننا ہے کہ 2025 تک ریوکیو جزائر کے اوکی ناوا سے گوام اور ہوائی میں 9,000 فوجیوں کو واپس بلانے کا امریکی فیصلہ اور اس کے ساتھ ساتھ جنوبی کوریا سے مزید 4,500 فوجیوں کو گوام منتقل کرنے کا منصوبہ، ایک طرح کی ’سٹریٹیجک پسپائی‘ ہے جس کا مقصد چین کی توجہ جزیروں کی دوسری زنجیر کی جانب مرکوز کرنا ہے کیونکہ اب یہ فورسز چین کے ہائپر سونک میزائل ڈی ایف 17 کی رینج میں ہیں۔
تاہم جاپان کی وزارت دفاع نے 8 جون کو اعلان کیا کہ لیاؤننگ کا بحری بیڑہ پہلی بار مشرقی جاپان کے جزیرہ مینامیتوری کے خصوصی اقتصادی زون میں داخل ہوا ہے، جو کہ جزائر کی دوسری زنجیر کے مشرق میں واقع ہے۔
اس اقدام کو چینی قوم پرست میڈیا آؤٹ لیٹ گوانچا نے ’جزائر کی دوسری زنجیر سےکامیابی سے گزرنے کا ہدف پورا کرنے‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔
جاپان نے ایک دن بعد اطلاع دی کہ شیڈونگ کا بحری بیڑہ میاکو جزیرے کے جنوب مشرق میں تقریباً 550 کلومیٹر کے فاصلے پر پانی میں تھا، جس کے کیریئر سے لڑاکا طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی ٹیک آف اور لینڈنگ ہوئی۔
یہ پہلا موقع تھا جب دونوں چینی طیارہ بردار بحری جہازوں نے مغربی بحرالکاہل میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔
دو چینی چھٹی نسل کے لڑاکا طیارے چینگڈو جے 36 اور شین یینگ جے 50) کی نئی تصاویر چینی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں۔ تجزیہ کاروں نے اندازہ لگایا کہ نئے ماڈلز کی آپریشنل رینج 3000 کلومیٹر تک ہو سکتی ہے اور انھیں چینی طیارہ بردار بحری جہازوں پر تعینات کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

بحرالکاہل کے جزائر میں چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ
تائیوان کے فوجی تجزیہ کار ہوانگ چنگ ٹنگ کے مطابق، فروری میں چین کی بحریہ نے پہلی بار جنوبی بحرالکاہل میں سڈنی کے مشرق میں بحیرہ تسمان میں فوجی مشقیں کیں۔ اس پیش رفت نے خطے میں چین کی سرگرمیوں خصوصاً ’سیکنڈ آئی لینڈ چین‘ یعنی جزیروں کی دوسری زنجیر سے چینی بحریہ کے گزرنے کے امکان پر سنجیدہ خدشات کو جنم دیا ہے۔
بحیرہ تسمان میں چینی جنگی قوت کی اس غیر معمولی نمائش نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ دونوں میں تشویش پیدا کی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب آسٹریلوی وزیرِاعظم انتھونی البانیز ڈارون بندرگاہ کا کنٹرول واپس حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بندرگاہ فی الحال چینی کمپنی لینڈ برج کے پاس 99 سالہ لیز پر ہے اور خطے میں امریکی فوجی موجودگی کے لیے تزویراتی اہمیت رکھتی ہے۔
چین اور بحرالکاہل کے جزیروں کے ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات نے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور امریکہ کے درمیان بھی تشویش پیدا کر دی ہے۔ سنہ 2023 میں، تینوں ممالک نے جزائر سولومن اور چین کے درمیان ایک سکیورٹی معاہدے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا، جس کے تحت چینی پولیس سولومن جزائر کی پولیس فورس کو تربیت دے گی۔
اسی نوعیت کے ایک اور اقدام پر نیوزی لینڈ نے رواں سال فروری میں کک جزائر اور چین کے درمیان تعاون کے معاہدے پر احتجاج کیا۔ چونکہ کک جزائر نیوزی لینڈ کے ساتھ ’فری ایسوسی ایشن‘ میں ہیں، اس لیے ویلنگٹن کو ان کے خارجہ امور اور دفاعی معاملات پر اثر و رسوخ حاصل ہے۔
خطے میں چین کے اثر و رسوخ میں اضافے کا اندازہ ان جزیرہ نما ممالک کے بدلتے سفارتی جھکاؤ سے بھی لگایا جا سکتا ہے جنھوں نے حالیہ برسوں میں تائی پے سے تعلقات ختم کر کے بیجنگ کا ساتھ دیا۔ ان میں جزائر سولومن اور کریباتی (2019) اور نورو (2024) شامل ہیں۔
بحرالکاہل میں تائیوان کے صرف تین اتحادی باقی بچے ہیں، مارشل آئی لینڈز، پالو اور تووالو۔ ان میں سے دو ممالک نے امریکہ کے ساتھ ایسے دفاعی معاہدے کر رکھے ہیں جنھیں ’فری ایسوسی ایشن ایگریمنٹ‘ کہا جاتا ہے، اور ان کے تحت امریکی فوج کو ان کی زمین، فضائی حدود اور سمندر تک رسائی حاصل ہے۔
امریکہ نے پالو کو ’بحرالکاہل میں ایک اہم مقام پر‘ اور ’جزیرے کی دوسری زنجیر‘ قرار دیا ہے، لیکن مبینہ طور پر اس پر بیجنگ کی جانب سے تائے پی کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے لیے اقتصادی دباؤ ہے۔
مئی کے اواخر میں، چین نے بحرالکاہل کے جزائر اور چین کے وزرائے خارجہ کی تیسری میٹنگ کی میزبانی کی جو کہ صوبہ فوجیان کے شہر شیامن میں ہوئی۔ اجلاس میں بیجنگ نے خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے 20 لاکھ ڈالر کی مالی امداد کا وعدہ کیا اور تجارت، سمندری امور اور قانون کے نفاذ میں تعاون پر بھی زور دیا۔
اگرچہ میٹنگ میں فوجی تعاون پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا لیکن چین پیسیفک تعلقات کے ماہر پروفیسر یو لی نے کہا کہ ’چین کی سخت اور نرم طاقت مزید مضبوط ہونے کا امکان ہے‘ کیونکہ بیجنگ دنیا کے سب سے کم ترقی یافتہ خطوں میں سے ایک کو انفراسٹرکچر اور تجارتی مدد فراہم کر رہا ہے۔