خیبر پختونخوا کے مقامی حکومتوں کے فنڈز میں 2002 سے سال 2024 تک آنے والے بلدیاتی ادوار کے آڈٹ ریکارڈ میں مبینہ طور پر 354 ارب 12 کروڑ 60 لاکھ روپے سے زائد کی سنگین مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
دستاویز کے مطابق خیبر پختونخوا کے مقامی حکومت کو مالی سال 2002-3 میں 459 ملین، مالی سال 2003-4 میں 358 ملین، مالی سال 2004-5 میں 1793 ملین، مالی سال 2005-6 میں 1358 ملین، مالی سال 2006-7 میں 1682 ملین، مالی سال 2007-8 میں 3134 ملین، مالی سال 2008-9 میں 2382 ملین، مالی سال 2009-10 میں 4415 ملین، مالی سال 2010-11 میں 2622 ملین، مالی سال 2011-12 میں 1914 ملین، مالی سال 2012-13 میں 8417 ملین، مالی سال 2013-14 میں 7381 ملین، مالی سال 2014-15 میں 3184 ملین، مالی سال 2015-16 میں 6989 ملین، مالی سال 2016-17 میں 32141 ملین، مالی سال 2017-18 میں 31018 ملین، مالی سال 2018-19 میں 25934 ملین، مالی سال 2019-20 میں 34099 ملین، مالی سال 2020-21 میں 37065 ملین، مالی سال 2021-22 میں 52438 ملین، مالی سال 2022-23 میں 52595 ملین، مالی سال 2023-24 میں 39504 ملین، مالی سال 2024-25 میں 39504 ملین روپے کی ریکوری تاحال نہ ہوسکی۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 14-2013 میں 7 ارب 50 کروڑ، 16-2015 میں 7 ارب 5 کروڑ 20لاکھ کی بے ضا بطگیاں سامنے آئیں۔
آڈیٹر جنرل ذرائع کے مطابق تحریک انصاف تیسری بار کی حکومت میں بھی اب تک نہ تو تحصیل اکاؤنٹس کمیٹیوں کو فعال کر سکی اور نہ ہی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو مقامی حکومتوں کے مالی معاملات پر اختیار دینے کے لیے کوئی سنجیدہ قانون سازی کی۔ 2019کے ترمیمی ایکٹ میں واضح طور پر تحصیل اکاؤنٹس کمیٹی کے قیام اور اسے آڈٹ رپورٹس، بجٹ اور مالیاتی گوشواروں کی جانچ کے اختیارات دینے کا ذکر کیا گیا تھا تاہم یہ کمیٹیاں آج تک قائم نہیں ہو سکیں۔
آڈٹ افسران نے کہا کہ حکومت نے احتساب کے نظام میں اصلاحات نہ کیں تو یہ آڈٹ اعتراضات اسی طرح بڑھتے رہیں گے۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا حکومت میں مسلسل مختلف منصوبوں میںمبینہ اربوں روپے کے اسکینڈل سامنے آرہے ہیں جس میں کوہستان اسکینڈل، سیٹزن امپرومنٹ منصوبہ، محکمہ تعلیم، پبلک ہیلتھ اور دیگر محکموں کے منصوبوں میں مبینہ مالی بد عنوانیاں سامنے آرہا ہے مگر حکومت نے تاحال ان مبینہ کرپشن کارروائیوں میں ریکوری نہ کرسکی۔