ایچ 1 بی ویزا کی فیس میں اضافہ اور انڈیا کی شہریوں کو امریکہ سے واپس لانے کی کوشش: ’بہت سے پروفیشنل افراد تسلیم کر چکے کہ گرین کارڈ شاید نہ ملے‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایچ-1بی ویزا کی فیس کو اچانک ایک لاکھ ڈالر تک بڑھا دینے کے فیصلے کے بعد دہلی کے پالیسی سازوں نے اپنے بہترین ذہن رکھنے والے ہنرمند شہریوں کو واپس وطن لانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
امریکہ کا بدلا ہوا ماحول بعض انڈینز کو وطن واپسی پر غور کرنے پر مجبور کر رہا ہے
Getty Images
امریکہ کا بدلا ہوا ماحول بعض انڈینز کو وطن واپسی پر غور کرنے پر مجبور کر رہا ہے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایچ-1 بی ویزا کی فیس کو اچانک ایک لاکھ ڈالر تک بڑھا دینے کے فیصلے کے بعد دہلی کے پالیسی سازوں نے اپنے بہترین ذہن رکھنے والے ہنرمند شہریوں کو واپس وطن لانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی ساتھیوں میں شامل ایک سرکاری افسر نے حال ہی میں کہا ہے کہ حکومت بیرونِ ملک مقیم انڈین شہریوں کو وطن واپسی اور قومی ترقی میں حصہ لینے کو بھرپور ترغیب دے رہی ہے۔

وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے ایک اور رکن نے ایک میڈیا بریفنگ میں کہا کہ ایچ-1 بی ویزا ہمیشہ میزبان ممالک کے مفاد میں رہا ہے اور فیس میں اضافہ انڈیا کے لیے عالمی سطح کے اعلی ذہن رکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی طرف ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔

ان باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ انڈیا کے لیے یہ ایک مناسب وقت ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ دماغ رکھنے والے شہریوں کو واپس بلانے کی راہ ہموار کرے اور گذشتہ 30 سالوں میں ملک چھوڑنے والے ٹیکنالوجی، طب اور دیگر شعبوں کے باصلاحیت افراد کو واپس لائے۔

کچھ شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ میں سخت ہوتی امیگریشن پالیسی بعض انڈین شہریوں کو اس سمت میں سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔ لیکن ماہرین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ہزاروں افراد کو انڈیا آنے پر آمادہ کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔

نتن ہاسن ان چند انڈین شہریوں میں سے ہیں جو پچھلے 20 سال سے امریکہ میں مقیم تھے، مگر پچھلے سال انھوں نے ایک بڑا قدم اٹھایا اور انڈیا کی سیلیکون ویلی کہلانے والے شہر بنگلور واپس آ گئے۔

یہ فیصلہ آسان نہیں تھا۔ انھوں نے میٹا میں 10 لاکھ ڈالر کی نوکری چھوڑ دی اور سٹارٹ اپس کی غیر یقینی سے بھرپور دنیا میں قدم رکھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: 'میں ہمیشہ سے کچھ اپنا کرنا چاہتا تھا، لیکن امریکہ میں پناہ گزین کی حیثیت نے میری آزادی کو محدود کر رکھا تھا۔

واپسی کے بعد انھوں نے دو سٹارٹ اپس کا آغاز کیا، جن میں سے ایک 'بی 2 آئی' یعنی انڈیا واپسی نامی پلیٹ فارم ہے، جو امریکہ میں مقیم انڈین شہریوں کو ملک واپسی کے جذباتی، مالی اور پیشہ ورانہ چیلنجز سے نمٹنے میں مدد دیتا ہے۔

نتن نے بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ مہینوں میں امریکہ کی امیگریشن پالیسی میں تبدیلی کے باعث ملک واپس آنے میں دلچسپی رکھنے والے افراد کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ایچ-1 بی ویزا کی فیس بڑھنے کے بعد پیدا ہونے والا بحران اس رجحان کو مزید تیز کر سکتا ہے۔

'اب بہت سے پیشہ ور افراد یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ گرین کارڈ شاید کبھی نہ ملے اور بی 2 آئی پر موصول ہونے والی درخواستوں کی تعداد ٹرمپ کی دوسری مدت کے آغاز کے بعد تقریباً تین گنا ہو چکی ہے۔ صرف پچھلے چھ ماہ میں 200 سے زائد نان ریزینڈنٹ انڈینز نے وطن واپسی کے امکانات کے بارے میں ہم سے رابطہ کیا ہے۔'

دیگر کمپنیاں جو امریکی یونیورسٹیوں سے انڈین ٹیلنٹ تلاش کرتی ہیں وہ اس تبدیلی کی تصدیق کرتی ہیں۔

امریکہ کے سخت موقف کے بعد جرمنی جیسے ممالک نے انڈین ذہنوں کے لیے سرخ قالین بچھا دیا ہے
Getty Images
امریکہ کے سخت موقف کے بعد جرمنی جیسے ممالک نے انڈین ذہنوں کے لیے سرخ قالین بچھا دیا ہے

بی ڈی او ايگزیکٹو سرچ کی سی ای او شیوانی دیسائی نے بی بی سی کو بتایا: 'اس سیزن میں آئیوی لیگ یونیورسٹیوں سے انڈین طلبہ کی ملک واپسی کی شرح میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ غیر یقینی کی صورتِ حال سینیئر انڈین ایگزیکٹوز کو بھی امریکہ میں اپنے طویل مدتی کریئر کے بارے میں مزید سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔

دیسائی نے کہا کہ 'اگرچہ ابھی بھی کئی افراد وہیں مقیم ہیں، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ سی ایکس او (اعلی تجربہ رکھنے والے سینیئر اہلکار) اور سینیئر ٹیک لیڈرز انڈیا کو سنجیدگی سے ایک متبادل کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔'

اس رویے میں تبدیلی کی ایک اور وجہ انڈیا میں عالمی صلاحیت کے مراکز (جی سی سیز) کا تیزی سے بڑھنا بھی ہو سکتا ہے، جو کہ حالیہ برسوں میں بڑی تعداد میں ملازمت کے مواقع پیدا کر رہے ہیں۔

اگر امریکہ نے ان پر دروازے بند کر دیے تو یہ غیر ملکی دفاتر خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے متبادل بن سکتے ہیں۔

فرینکلن ٹمپلیٹن کے مطابق ایسے مراکز 'ہنر مند افراد کے لیے مزید پرکشش ہو رہے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بیرونِ ملک کام کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔'

لیکن سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے میڈیا مشیر اور 'سیسیشن آف دی سکسیسفل: دی فلائٹ آؤٹ آف نیو انڈیا' کے مصنف سنجے بارو کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال میں بڑے پیمانے پر ہنر مندوں کی واپسی کو ممکن بنانے کے لیے حکومت کی سنجیدہ اور مسلسل کوششیں درکار ہوں گی، جو کہ فی الحال نظر نہیں آتیں۔

یہ کتاب 'برین ڈرین' یعنی انڈیا سے اعلی ذہن کے باہر جا کر کام کرنے پر لکھی گئی ہے۔

سنجے بارو نے بی بی سی کو بتایا: 'حکومت کو چاہیے کہ وہ خود آگے آ کر سائنس دانوں، پیشہ ور ماہرین اور کاروباری افراد کی نشاندہی کرے جنھیں وہ واپس لانا چاہتی ہے۔ یہ کام سنجیدگی سے کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے قیادت کی جانب سے براہِ راست کوشش ہونی چاہیے۔'

انھوں نے کہا کہ انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے یہی کام کیا تھا جب انھوں نے خلا اور جوہری ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بڑے ذہنوں کو وطن واپس لا کر انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس جیسے ادارے قائم کیے۔

'ان افراد کو قومی مقصد اور حب الوطنی کا جذبہ واپس لایا تھا۔ لیکن آج کیا کوئی ایسی ترغیب موجود ہے؟'

انڈیا کا خراب بنیادی ڈھانچہ غیر ملک میں آباد انڈینز کو وطن واپسی میں رکاوٹ نظر آتا ہے۔
Getty Images
انڈیا کا خراب بنیادی ڈھانچہ غیر ملک میں آباد انڈینز کو وطن واپسی میں رکاوٹ نظر آتا ہے۔

بارو کہتے ہیں کہ ملک چھوڑنے والوں کے لیے بیرونی دنیا میں جانے کی کئی وجوہات موجود ہیں۔

'پرکشش عوامل' میں مختلف ممالک کے گولڈن ویزا، شہریت یا مستقل رہائش جیسے امیگریشن پروگرام شامل ہیں۔

درحقیقت جہاں ایک طرف امریکہ نے ایچ-1 بی ویزا کے حصول کو سخت بنایا ہے، وہیں جرمنی جیسے ممالک نے انڈیا کے اعلی ذہنوں کے لیے فوری طور پر سرخ قالین بچھا دیا اور جرمن سفیر نے اپنے ملک کو 'ایک متوقع اور فائدہ مند منزل' کے طور پر پیش کیا ہے۔

دوسری جانب جو عوامل لوگوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں وہ کافی عرصے سے موجود ہیں۔ ان میں ريگولیشن کا ناقص ماحول، تھکا دینے والی سرکاری کارروائیاں، اور کاروبار کرنے کے لیے سازگار ماحول کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔

ان کی وجہ سے گذشتہ کئی برسوں میں امیر اور زیادہ آمدنی والے انڈین شہریوں نے بڑی تعداد میں ملک چھوڑا ہے۔

حکومت کے اپنے ہی اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2020 سے اب تک یعنی پانچ سال میں پانچ لاکھ سے زائد انڈینز نے اپنی شہریت ترک کر دی ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا دنیا کے ان پانچ سرفہرست ممالک میں شامل ہے جہاں سے سب سے زیادہ کروڑ پتی افراد دوسرے ممالک میں شہریت یا رہائش اختیار کر رہے ہیں۔

نتن ہاسن کہتے ہیں کہ اگر حکومت واقعی بیرونِ ملک مقیم انڈین شہریوں کو واپس لانے میں سنجیدہ ہے تو اسے بیک وقت کئی رکاوٹوں کو کم کرنے کی سمت میں کام کرنا ہوگا۔

اس میں سادہ ٹیکس قوانین، خاص مراعات جیسے خصوصی سٹارٹ اپ ویزا، اور بنیادی مسائل جیسے کمزور انفراسٹرکچر اور شہری علاقوں کی بھیڑ کو دور کرنا شامل ہے۔

سنجے بارو کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسا ماحول بھی بنانا ہوگا جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ترقی کر سکیں 'جس میں تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی) اور تعلیم کے شعبے کو وسیع پیمانے پر فروغ دینا شامل ہے'۔

یہ وہی عناصر ہیں جنھوں نے گذشتہ پچاس برسوں میں بھارتی ٹیلنٹ کو امریکہ کی طرف راغب کیا اور پہنچایا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US