بیگیج اور گفٹ اسکیم بند، اب گاڑی لانے کا نیا قانون کیا ہوگا؟

image

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان گورننس اور کرپشن سے متعلق اسیسمنٹ رپورٹ کے تحت اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ دونوں فریقین نے گاڑیوں کی درآمد سے متعلق دو اسکیمیں بیگیج اسکیم اور گفٹ اسکیم ختم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے جبکہ تیسری اسکیم ٹرانسفر آف ریزیڈنس کو سخت شرائط کے ساتھ برقرار رکھا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق نئی پالیسی کے تحت صرف وہی افراد رہائش کی تبدیلی اسکیم کے تحت گاڑی درآمد کر سکیں گے جنہوں نے کم از کم ایک سال بیرونِ ملک قیام کیا ہو اور اسکیم کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اضافی حفاظتی اقدامات کیے جائیں گے۔

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے اس سلسلے میں پاکستان کو ڈیڈلائن دے دی ہے۔ اب تک جاپان اور برطانیہ سے کاریں دبئی کے راستے پاکستان لائی جاتی تھیں تاہم اس غیر مستقیم درآمدی راستے کو بند کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

مزید یہ کہ پاکستان میں پانچ سال پرانی گاڑیوں کی تجارتی درآمد کی اجازت برقرار رہے گی لیکن اس کے لیے سخت شرائط اور نگرانی کا نظام نافذ کیا جائے گا۔ اس فیصلے کی منظوری کے لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی اور وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں پیش کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق یہ تمام اقدامات 7 ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی پروگرام کے دوسرے جائزے کا حصہ ہیں۔ اس کے تحت 1.4 ارب ڈالر کے فنانشل اسٹیبلٹی فسیلٹی پروگرام میں سے 400 ملین ڈالر کی پہلی قسط جاری ہونے کی راہ ہموار ہوگی۔

اسی رپورٹ کے تناظر میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے آئی ایم ایف کی تجاویز پر عمل درآمد کے طور پر ایک ٹاسک فورس بھی قائم کی گئی ہے۔ ٹاسک فورس نے سفارش کی ہے کہ گریڈ 17 سے 22 تک کے سرکاری افسران اور ان کے اہلِ خانہ کے اثاثے عوام کے سامنے ظاہر کیے جائیں جس کے لیے سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے اس کے علاوہ الیکشن ایکٹ، نیب ایکٹ، اور ایف آئی اے ایکٹ میں ترامیم کی سفارش بھی شامل ہے۔

ٹاسک فورس نے سفارش کی ہے کہ نیب اور ایف آئی اے افسران کی خصوصی تربیت دی جائے اور ہوائی اڈوں پر ایف آئی اے کے تفتیشی افسران کو امیگریشن ڈیوٹی سے ہٹا کر دیگر ذمہ داریاں دی جائیں اور بدعنوانی کے خلاف آگاہی مہمات بھی چلائی جائیں گی۔

گاڑیوں کی درآمدی اسکیموں کے خاتمے سے سالانہ اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا خاتمہ متوقع ہے اور درآمدی نظام کو شفاف بنانے میں مدد ملے گی۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US