’ارٹائی‘ جس کا مطلب تمل زبان میں ’گپ شپ‘ ہے، اصل میں 2021 میں لانچ ہوئی تھی لیکن حالیہ دنوں میں اس کی مقبولیت میں اچانک اضافہ انڈین حکومت کی خود انحصاری کی مہم سے جوڑا جا رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب انڈیا امریکی تجارتی پابندیوں کے اثرات سے نمٹ رہا ہے۔
ِکیا انڈیا میں بنی ہوئی کوئی میسیجنگ ایپ واٹس ایپ جیسی مقبول ایپ کا مقابلہ کر سکتی ہے؟
گذشتہ چند دنوں میں زوہو نامی ایک انڈین ٹیکنالوجی کمپنی کی تیار کردہ ’ارٹائی‘ ایپ نے انڈیا میں دھوم مچا دی ہے اور اس کی ڈاؤن لوڈنگ میں 185 گنا اضافہ ہوا ہے۔
یہ ایپ کچھ وقت کے لیے واٹس ایپ اور ٹیلیگرامجیسی مشہور ایپس کو پیچھے چھوڑ کر ایپ سٹور کی فہرست میں سب سے اوپر آ گئی۔
’ارٹائی‘ جس کا مطلب تمل زبان میں ’گپ شپ‘ ہے، اصل میں 2021 میں لانچ ہوئی تھی لیکن حالیہ دنوں میں اس کی مقبولیت میں اچانک اضافہ انڈین حکومت کی خود انحصاری کی مہم سے جوڑا جا رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب انڈیا امریکی تجارتی پابندیوں کے اثرات سے نمٹ رہا ہے۔
وفاقی وزیر دھرمیندر پردھان نے بھی ’ایکس‘پر ’ارٹائی‘کے بارے میں پوسٹ کیا اور لوگوں سے کہا کہ آپس میں رسائی کے لیے وہ انڈین ایپس استعمال کریں۔
اس کے بعد کئی دوسرے وزرا اور کاروباری شخصیات نے بھی اس ایپ کے بارے میں پوسٹ کیا، جس سے اس کی مقبولیت مزید بڑھی۔
پھر زوہو کے بانی شریدھر ویمبو نے کہاکہ صرف تین دنوں میں ’ارٹائی‘ کی ٹریفک میں 100 گنا اضافہ ہوا ہے اور نئے صارفین کی تعداد روزانہ تین ہزار سے بڑھ کر تین لاکھ 50 ہزار ہو گئی ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ زوہو ہنگامی بنیادوں پر اپنا انفراسٹرکچر بڑھا رہا ہے تاکہ اگر اچانک مزید 100 گنا اضافہ بھی ہو جائے تو کمپنی اس کے لیے تیار رہے۔
کئی لوگوں نے اس بات پر فخر محسوس کیا کہ یہ ایک انڈین ایپ ہے اور دوسروں کو بھی اسے ڈاؤن لوڈ کرنے کی ترغیب دی۔بدھکے روز اُنھوں نے اعلانکیا کہ صرف ایک دن میں ’ارٹائی‘پر 20 لاکھ سے زائد نئے صارفین جڑے، جس سے کل فعال صارفین کی تعداد 30 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔
تاہم یہ تعداد ابھی بھی واٹس ایپ کے انڈیا میں موجود50 کروڑ صارفین سے بہت کم ہے۔
انڈیا واٹس ایپ کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے اور یہاں یہ ایپ زندگی کے معمول کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ لوگ اسے صبح بخیر کے پیغامات سے لے کر کاروبار چلانے تک ہر چیز کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
’ارٹائی‘ میں واٹس ایپ جیسے فیچرز موجود ہیں، جیسے میسج بھیجنا، آواز اور ویڈیو کالز کرنا۔ دونوں ایپس کاروباری ٹولز بھی فراہم کرتی ہیں اور’ارٹائی‘ کا دعویٰ ہے کہ یہ کم قیمت والے فونز اور سست انٹرنیٹ پر بھی بہتر کام کرتی ہے۔
سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے ’ارٹائی‘ کی تعریف کی ہے، کچھ نے اسکے انٹرفیس اور ڈیزائن کو پسند کیا جبکہ کچھ نے کہا کہ یہ واٹس ایپ جتنی ہی کارآمد ہے۔
کئی لوگوں نے اس بات پر فخر محسوس کیا کہ یہ ایک انڈین ایپ ہے اور دوسروں کو بھی اسے ڈاؤن لوڈ کرنے کی ترغیب دی۔
لیکن واضح کر دیں کہ ’ارٹائی‘ پہلی انڈین ایپ نہیں ہے جس نے بین الاقوامی حریفوں کو پیچھے چھوڑنے کا خواب دیکھا ہو۔
اسسے پہلے’کو‘ اور ’مَوج‘ جیسی انڈین ایپس کو ’ایکس‘ اور ’ٹک ٹاک‘ کا متبادل سمجھا گیا تھا (جب 2020 میں انڈین حکومت نے ٹک ٹاک پر پابندی لگائی تھی)، لیکن ابتدائی کامیابی کے بعد یہ ایپس زیادہ آگے نہیں جا سکیں۔
’یہ صرف قوم پرستی کے جذبے کے ذریعے ہی ممکن ہے‘
سبسے بڑا چیلنجلوگوں کو نئی ایپ پر منتقل کرنا ہوتا ہے اور انڈین ٹیک ماہرین سوال کرتے ہیں کہ کیا ’ارٹائی‘ یہ کر پائے گی۔
نئی دہلی کے ٹیک تجزیہ کار پراسانتو رے کا کہنا ہے کہ ’ارٹائی‘ کے لیے واٹس ایپ جیسے وسیع صارفین تک پہنچنا مشکل ہو گا۔ خاص طور پر جب ’میٹا‘ کی ملکیت والا پلیٹ فارم کئی کاروبار اور سرکاری خدمات کی میزبانی کرتا ہے۔
ان کے مطابق کسی بھی ایپ کی کامیابی صرف نئے صارفین حاصل کرنے پر نہیں بلکہ انھیں برقرار رکھنے پر بھی منحصر ہے اور یہ صرف قوم پرستی کے جذبے سے ممکن نہیں۔
رے کہتے ہیں کہ ’پروڈکٹ کا اچھا ہونا ضروری ہے لیکن پھر بھی یہ آسان نہیں ہے کہ یہ ایک ایسی ایپ کا متبادل بن سکے جس کے اربوں صارفین پہلے سے موجود ہیں۔‘
کچھ صارفین نے ’ارٹائی‘ پر ڈیٹا پرائیویسی کے حوالے سے خدشات بھی ظاہر کیے ہیں۔
اگرچہ یہ ایپ ویڈیو اور آواز پر مبنی کالز کے لیے ’اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن‘ (جس کی وجہ سے صارف کی معلومات تک رسائی بات کرنے والوں کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہوتی ہے) فراہم کرتی ہے لیکن یہ فیچر میسجز پر لاگو نہیں ہوتا، اور یہ واضح نہیں کہ مستقبل میں ایسا ہوگا یا نہیں۔
واٹس ایپ صارفین کے میسجز اور کالز کے لیے مکمل اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن فراہم کرتا ہےمیڈیا نامہ نامی ٹیک پورٹل کے مینیجنگ ایڈیٹر ششیدھر کے جے کہتے ہیں کہ ’حکومت سکیورٹی خدشات کے پیش نظر میسجز کی ’ٹریس ایبلٹی‘ (دیکھنے کی طاقت) چاہتی ہے اور یہ ’اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن‘ کے بغیر آسانی سے ممکن ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سے لوگوں کی پرائیویسی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
دوسری طرف واٹس ایپ صارفین کے میسجز اور کالز کے لیے مکمل ’اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن‘ فراہم کرتا ہے، لیکن اس کی پالیسی کے مطابق وہ میٹا ڈیٹا (مثال کے طور پر کب اور کس نے میسج یا کال کیا) کو قانونی آرڈر کی صورت میں حکومتوں کے ساتھ شیئر کر سکتا ہے۔
پرائیویسی سے متعلق تحفظات
انڈیا کے انٹرنیٹ قوانین سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مخصوص حالات میں حکومت کے ساتھ صارفین کا ڈیٹا شیئر کرنے کا پابند بناتے ہیں۔ لیکن بین الاقوامی کمپنیوں سے یہ ڈیٹا حاصل کرنا مشکل اور وقت طلب ہوتا ہے۔
ششیدھر کہتے ہیں کہ دوسری طرف ’ارٹائی‘ جیسی ایپس صارفین کا ڈیٹا انڈیا میں ہی محفوظ کرتی ہیں، جس سے حکومت کے لیے اس تک رسائی آسان ہو جاتی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ انڈین کمپنیاں حکومتی احکامات پر زیادہ آسانی سے عمل کرتی ہیں اور مزاحمت کم کرتی ہیں۔
اس کے برعکس ’میٹا‘ اور ’ایکس‘ جیسے عالمی اداروں کے پاس قانونی اور مالی وسائل ہوتے ہیں جن کی مدد سے وہ حکومت کے مطالبات یا غیر منصفانہ قوانین کے خلاف مزاحمت کر سکتے ہیں۔
سنہ 2021 میں واٹس ایپ نے انڈین حکومت کے نئے ڈیجیٹل قوانین کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا، جن کا مقصد سوشل میڈیا اور سٹریمنگ پلیٹ فارمز پر مواد کو کنٹرول کرنا تھا اور واٹس ایپ نے کہا کہ یہ قوانین اس کی پرائیویسی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
ایکس نے بھی انڈین حکومت کے اختیارات کے خلاف قانونی چیلنجز کیے ہیں جن کے تحت وہ مواد کو بلاک یا ہٹانے کا حکم دے سکتی ہے۔
تو کیا ’ارٹائی‘ ایپ حکومت کے ایسے مطالبات ٹھکرا سکے گی جو صارفین کی پرائیویسی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں؟
ٹیکنالوجی کے ماہر وکیل راہول متھن کہتے ہیں کہ جب تک ’ارٹائی‘ کی پرائیویسی پالیسی اور زوہو کے حکومت کے ساتھ ڈیٹا شیئرنگ کے مؤقف پر وضاحت نہیں آتی، لوگ اس ایپ کو استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کریں گے۔
رے بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ زوہو حکومت کے سامنے نسبتاً زیادہ جوابدہ محسوس کر سکتا ہے، خاص طور پر جب وفاقی وزرا اس ایپ کی تشہیر کر رہے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ چونکہ یہ ایک انڈین سٹارٹ اپ ہے، یہ انڈین قوانین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطالبات پر بغیر کسی مزاحمت کے مکمل عمل کر سکتا ہے۔
وقت ہی بتائے گا کہ ’ارٹائی‘ واقعی قابلِ قدر ہے یا صرف ایک وقتی کہانی۔