انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں فضائی آلودگی میں اضافے کے بعد بی جے پی حکومت نے مصنوعی بارش کرانے کا فیصلہ کیا اور گذشتہ روز اس کی کوشش بھی کی گئی لیکن دہلی میں بارش نہ ہو سکی اور اب اس نے ایک سیاسی تنازعے کی صورت اختیار کر لی ہے۔
انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں فضائی آلودگی میں اضافے کے بعد حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے وقتی طور پر اس مسئلے کے حل کے لیے مصنوعی بارش کروانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ گذشتہ روز اس کی کوشش بھی کی گئی لیکن دہلی میں بارش نہ ہو سکی اور اب اس معاملے نے ایک سیاسی تنازع کی صورت اختیار کر لی ہے۔
سوشل میڈیا پر جہاں مصنوعی بارش کروانے کی ٹیکنالوجی یعنی کلاؤڈ سیڈنگ پر بات ہو رہی ہے وہیں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ آخر ’اتنے پیسے کو صرف سیاسی شہرت کے حصول کے لیے ضائع کیوں کیا گیا۔‘
یاد رہے کہ کلاؤڈ سیڈنگ ایک ایسی تکنیک ہے جس سے بادلوں کے بخارات کو بارش میں تبدیل کرنے کی رفتار بڑھائی جاتی ہے اور موسم میں یہ مصنوعی تبدیلی لانے کے لیے نمک کا استعمال کیا جاتا ہے۔
دہلی میں منگل کے روز آئی آئی ٹی کانپور کے ذریعے چلنے والا ایک چھوٹا، سنگل پروپیلر طیارہ شمال مغربی دہلی اور قومی دارالحکومت کے علاقے کے کچھ حصوں پر منڈلتا دیکھا گیا۔
انڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق کلاؤڈ سیڈنگ کے تین ٹرائلز کے دوران میں سِلور آئوڈائڈ کے شعلے بادلوں میں فائر کیے گئے لیکن یہ بارش کروانے میں ناکام رہے۔ اس کے باوجود دہلی کے وزیر ماحولیات نے اس کوشش کو ’کامیاب‘ قرار دیا ہے۔
دہلی حکومت کے وزیر ماحولیات منجندر سنگھ سرسا نے اپنے سوشل میڈیا ہینڈل پر اس بات کی تفصیل دی ہے کہ کس طرح اور کن کن علاقوں میں کلاؤڈ سینڈنگ کی گئی اور یہ بھی بتایا کہ وہ اس آپریشن کی تفصیلی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلا۔
انھوں نے بتایا کہ ’یہ کلاؤڈ سیڈنگ آئی آئی ٹی کانپور نے سیسنا ہوائی جہاز کا استعمال کرتے ہوئے کی تھی۔ یہ طیارہ میرٹھ سے دہلی میں داخل ہوا، جہاں کھیکڑا، براری، شمالی کرول باغ، میور وہار، صادق پور، اور بھوجپور کے علاقوں میں کلاؤڈ سیڈنگ کی گئی۔‘
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کلاؤڈ سیڈنگ میں آٹھ فلیئرز استعمال کیے گئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہر ایک فلیئر کا وزن دو سے ڈھائی کلو گرام ہوتا ہے اور یہ دو سے ڈھائی منٹ تک چلتا ہے۔ ان فلیئرز کے ذریعے کیمیکل کا مرکب بادلوں میں چھوڑا گیا۔ یہ عمل تقریباً آدھے گھنٹے تک جاری رہا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ یہ پہلے مرحلے کی کلاؤڈ سیڈنگ کے نتائج پر منحصر ہے کہ حکومت آنے والے ہفتوں میں مزید ٹرائل کرے گی یا نہیں۔
بےتحاشہ فضائی آلودگی کو وقتی طور پر کم کرنے کے لیے کلاؤڈ سیڈنگ کی تکنیک استعمال کی جاتی ہےدوسری جانب آئی آئی ٹی کانپور کے ڈائریکٹر منندر اگروال نے کہا ہے کہ اُن کی ٹیم کی جانب سے استعمال کردہ مرکب میں صرف 20 فیصد سلور آئوڈائڈ تھا جبکہ باقی راک سالٹ اور عام نمک کا مجموعہ۔ انھوں نے کہا کہ منگل کو مجموعی طور پر اس مرکب کے 14 فلیئرز فائر کیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ ’چونکہ بارش نہیں ہوئی، اس لحاظ سے یہ مکمل طور پر کامیاب تجربہ نہیں رہا۔ بدقسمتی سے جو بادل موجود تھے ان میں نمی کی مقدار بہت زیادہ نہیں تھی۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ نمی کی مقدار صرف 15-20 فیصد تک تھی۔ اس لیے اتنی کم نمی کے ساتھ بارش ہونے کا امکان بہت زیادہ نہیں ہوتا۔‘
اگرچہ یہ ایک ٹرائل تھا تاہم بی جے پی حکومت کے ناقدین الزام عائد کر رہے ہیں کہ اس پر کروڑوں روپے کا خرچ کیا گیا اور حکومت نے اس معاملے کو اپنی تشہیر کے لیے استعمال کیا، مگر اس کا نتیجہ نہیں نکلا۔
دہلی کے محکمہ ماحولیات اور آئی آئی ٹی کانپور کے درمیان مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) کے مطابق مجموعی طور پانچ ٹرائلز میں کلاؤڈ سیڈنگ کے عمل کی کل لاگت 3.2 کروڑ روپے ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہر ٹرائل کی لاگت تقریباً 64 لاکھ روپے بنتی ہے۔ یاد رہے کہ اب تک شمالی دہلی میں اس طرح کے تین ٹرائلز کیے گئے، لیکن کسی کے نتیجے میں بھی کوئی خاص بارش نہیں ہوئی۔
ماہرین کلاؤڈ سیڈنگ کے ذریعے بارش کو ماحولیات کے لیے ’عارضی اور ناپائیدار حل‘ بتاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس کے متعلق مباحثہ جاری ہے۔
ماہر ماحولیات وملیندو جھا نے لکھا کہ ’آئی آئی ٹی دہلی کے دو سینیئر پروفیسروں نے حکومت کی طرف سے تجویز کردہ کلاؤڈ سیڈنگ کے غیر ضروری تماشے پر خبردار کیا ہے۔ یہ ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ تکنیک کام بھی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے ہمارے ماحول، خاص طور پر مٹی اور آبی ذخائر پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔‘
’یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ ایک مہنگا کام ہے، اس کی لاگت 1 لاکھ روپے فی مربع کلومیٹر تک آتی ہے، اس طرح ہر بار جب دہلی میں کلاؤڈ سیڈنگ کے ذریعے بارش ہوتی ہے تو تقریباً 15 کروڑ روپے خرچ ہو جاتے ہیں کیونکہ دہلی کا کل رقبہ تقریباً 1500 مربع کلومیٹر ہے۔ اور پھر یہ کہ مصنوعی بارش کے ذریعے بہت ہوا تو ایک یا دو دن کے لیے آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے، یہ کوئی دیرپا حل نہیں۔‘
'کلاؤڈ سیڈنگ' کیا ہے اور کیسے کی جاتی ہے؟
کلاؤڈ سیڈنگکلاؤڈ سیڈنگ ایک ایسی تکنیک ہے جس سے بادلوں کے بخارات کو بارش میں تبدیل کرنے کی رفتار بڑھائی جاتی ہے اور موسم میں یہ مصنوعی تبدیلی لانے کے لیے نمک کا استعمال کیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے سیٹلائٹ ڈیٹا کی مدد سے ایسے بادلوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جو ممکنہ طور پر بارش کا باعث بن سکیں۔ خصوصی جہاز کی پرواز وہاں کی جاتی ہے جہاں بادلوں سے ٹربیلنس پیدا ہوتی ہے۔ وہاں پہنچ کر ایسے کیمیائی مادے خارج کیے جاتے ہیں جن سے چین ری ایکشن ہو۔ اس سے بادل غیر مستحکم ہوتا ہے اور جہاز کو فوراً وہاں سے باہر نکالنا پڑتا ہے۔
طیاروں یا دیگر ڈیوائسز کی مدد سے بادلوں پر نمک (سلوور آئیوڈائیڈ یا کلورائیڈ) کے چھڑکاؤ سے بادلوں میں آئس کرسٹل بنتے ہیں۔ بادلوں میں موجود نمی ان آئس کرسٹلز کو بارش میں بدل دیتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اوسطاً چار گھنٹوں کی پرواز کے دوران 24 کلاؤڈز کو ’سیڈ‘ کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کی رائے میں ہلکی پھلکی بارش بھی فضائی آلودگی میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ یہ طریقہ ہمیشہ کارگر ثابت ہو۔
فضائی آلودگی اور صحت کے محقق پولاش مکھرجی کا کہنا ہے کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ماحولیاتی حالات آپ کے اہداف کے عین مطابق ہوں۔
انھوں نے کہا کہ ’بادلوں میں نمی کی بالکل ٹھیک مقدار ہونی چاہیے تاکہ آئس کرسٹل بن سکیں۔‘ انھوں نے دلی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس میں ہوا کی رفتار جیسے عوامل بھی اہم ہوتے ہیں جن میں سال کے اس حصے کے دوران کافی رد و بدل آتا رہتا ہے۔
انڈیا میں اس کا پہلا تجربہ سنہ 1952 میں کیا گیا تھا۔ 1960 کی دہائی کے دوران امریکی فوج نے ویتنام کے علاقوں میں فوجی سامان کی ترسیل روکنے کے لیے متنازع طور پر یہ تکنیک استعمال کی تھی۔
چین، متحدہ عرب امارات اور بعض انڈین ریاستیں قحط جیسی صورتوں میں بھی کلاؤڈ سیڈنگ کی آزمائش کرتی ہیں۔