نکتہ خاص

اس درجے کا کنفیوژن پیدا کردیا گیاہے کہ اصل حقیقت کہیں چھپ کر رہ گئی۔ادارے اپنے اپنے کارناموں کا ڈھنڈورہ پیٹ رہے ہیں۔اپنی اہمیت کاشور مچایا جارہاہے۔کارنامے گنوائے جارہے ہیں۔ دوسرے کو غلط اور ادھورہ کہا جارہاہے۔اس کی کوتاہیاں واضح کی جارہی ہیں۔اس شور وغوغے کامنفی اثر ریاست پر یوں ہورہا ہے کہ وہ سسک رہی ہے۔اور مفلوج ہونے کو ہے۔کوتاہی کسی بھی ادارے کی ہونقصان تو ریاست کو ہی چکانا ہوگا۔ریاست کے تما م ستون بجائے اپنی اپنی حدود میں کام کرنے کے ایک دوسرے کے اختیارات سلب کرنے کا جنون پال لیں گے تو ریاست کے لیے کب اطمینا ن بچے گا۔پارلیمنٹ اور کچھ دوسر ے اداروں میں بالادستی کامقابلہ جس قدر آج ہے۔پہلے کبھی نہ تھا۔بدقسمتی دیکھیے کہپارلیمنٹ کی بالادستی کا ہر ادارہ اقرار بھی کررہا ہے۔اور اس بالادستی کو مسلسل چیلنج بھی کیا جارہاہے۔ایک عرصہ سے عدلیہ اس دوڑ میں لاتعلق تھی۔اب کچھ مہینوں سے بعض ججز کا رویہ او رریمارکس دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ عدلیہ میں نقب زنی کی کوششوں کو بالاخر کامیابی مل گئی۔متعدد معاملات عدالتوں میں بھجوائے جانے او ر برسوں پرانے مقدمات نظر اندازکرکے ان نئے ایشو ز کی ترجیحی بنیادوں پر شنوائی شکو ک پیدا کررہی ہے۔عدالتوں کی طرف سے کئی معاملات کو پہلی فرصت میں ہی دائرہ اختیار سے باہر قرارنہ دیے جانے کی پالیسی نقب زنوں کی مہارت کی دلالت کررہی ہے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے وزیر اعلی پنجاب کو صاف پانی کے معاملے پر طلب کیا جانا بھی عدلیہ اور پارلیمنٹ کے مابین اختیارات کا تنازعہ کھڑا کرنے والوں کے لیے حوصلہ افزاہوگا۔معزز ججز کے ریماکس تھے کہ پنجاب میں جو اندھیر نگری مچائی جارہی ہے۔اس پر آنکھیں بند نہیں رکھی جاسکتیں،شہبازشریف بتائیں کہ دریامیں شہر بھر کا گندا پانی کیوں پھینکا جارہاہے۔شہبازشریف تو جانے کیا توضیح پیش کریں گے۔مگر حیر ت تو یہ ہورہی ہے کہ عدالت اب دریا راوی کے گدلے ہونے کی بابت پرسش کررہی ہے۔یہ گدلا پن نیا نہیں۔اگر لاہوربھر کا گند ا پانی راوی میں گر رہاہے تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں اس کے علاوہ بھی جتنے شہر ہیں۔سبھی کے گندے پانی مختلف دریاؤں میں گر رہے ہیں۔کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں ان گندے پانیوں کو سمویا جاسکے ۔ دنیا بھرکی جغرافیائی تقسیم ہے کہ صاف یا گندا پانی چھوٹے موٹے ندی نالوں سے ہوتا ہواکسی نہ کسی دریامیں جا گرتاہے۔ عمومی رائے یہی ہے کہ نوازشریف کو نااہل کروانے والے کے لیے اب اگلا ہدف شہبازشریف پر دباؤ ڈالناہے۔انہیں بڑے بھائی کی نااہلی کے بعد مطلوبہ نتائج نہیں مل پائے۔جس اندازسے انہوں نے مسلم لیگ ن کے حصے بخرے ہونے کی توقع کی تھی ۔نہیں ہوپائے۔ شہبازشریف کی طرف سے پارٹی ہائی جیک کر لیے جانے کی امید بھی پوری نہیں ہوسکی۔جانے ان سے جس قدر بے رخی کی توقع کی گئی تھی۔اپنے بڑے بھائی سے معلق وہ ایسی نہیں کرپائے۔یا انہوں نے اپنے تئیں جو کوشش کی وہ ناکافی رہی۔سبب کچھ بھی ہو۔مسلم لیگ ن کی حبحیثیت جماعت جوں کا توں رہنا برداشت نہیں ہورہا۔سوائے وزیر اعظم کے بدلنے کے تمام تر حکومتی معاملا ت بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔شہبازشریف سے جس قسم کی کاریگری کی توقع تھی۔وہ پوری نہیں ہوسکی۔اب اسی لیے انہیں راہ راست پر لانے کے لیے ٹیڑھی انگلی کی جارہی ہے۔

اس کنفیوژن بڑھ رہاہے کہ حقیقت کہیں چھپ کر رہ گئی۔ادارے باہم دست وگریبان ہیں۔ہر کوئی اپنی اپنی اہمیت اور قدر کا پراپیگنڈا کررہا ہے۔سبھی کے پاس دوسروں کی کوتاہیاں گنوانے کا معقول مواد موجود ہے۔ قوم کنفیوژڈ ہے۔اس کے لیے کسی کو حق پر قراردینا آسان نہیں۔اسے کسی فریق کو جھوٹا کہہ دینا بھی مشکل ہے۔دونوں طر ف کے دلائل معقول ہیں۔کنفیوژن کے اس دور میں قوم کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں بچا کہ وہ دلیلوں کی بجائے نیتوں کی بنیاد پر فیصلہ کرے۔اسے شور غو غے کے اس کنفیوژن مین سے سچائی کی پرکھ کے لیے نیت کے پیمانے سے کام لینا ہوگا۔شور مچانے والوں کی نیت ان کی کارکردگی سے جانچی جاسکتی ہے۔ان کی سمت سے ان کی نیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ان کے قول و فعل ان کی نیت کا آئینہ ہونگے۔قوم پراپیگنڈے کی اس جنگ میں حق اور ناحق کا فیصلہ اس نکتہ خاص کے سوا کسی دوسرے طریقے سے نہ کرپائیں گے۔
 

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 124138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.