بمباری مرنے والے ایک بچے کا اقوام متحدہ کے نام خط‎

اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کی ہال میں صدر کے ٹیبل پر ایک خط پڑا ھوا تھا،ایک پر اسرار خط، جس سے پورا حال معطر تھا۔ مزید برآں اس کی طباعت و کتابت بھی پر اسراریت سے کم پر نہیں تھا، ململ کا کپڑا پھر اس پہ درج سونے کے حروف واضع کر رہے تھے کہ یہ خط خاص ہے۔اس مسٹیریس خط کو کھولنے کے منظر کو عکس بند کرنے کیلئے جہان بھر کا میڈیا جنرل اسمبلی ہال میں موجود تھا۔خط اقوام متحدہ صدر نے کھولا جو کچھ یوں تھا۔

سلام بَر اقوام مشرق و مغرب!

میرا یہ خط صرف میرا نہیں بلکیں ارض حیات پہ جنگوں میں مرنے والے ھر بچے کی خواہش و پکار ہے۔ھمیں جنت میں رہ کر آپ سے التجا کی ضرورت تو نہیں مگر کل سے جنت میں ھر بچا و بچی کا منہ لٹکا ھوا ہے، سب کے سینے میں درد کا آتش فشاں ابل رہا ہے۔کیونکہ چند دنوں سے شام کی سرزمین سے جتنے بھی بچے اپنے مکان اسفل سے مکان علیا تک آئے ہیں، سبھی بے چین ہیں اور ھر روز انکی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔

ھم حیران ہیں یہ تہذیب یافتہ و ترقی یافتہ انسانیت، کے دعویدار کیا کر رہے ہیں، کہ خون میں لتھڑی بچے بچیوں کی رش لگی ھوئی ہے۔ میں خود بھی ایسی بمب کا شکار ھوا تھا ۔ھم کسی لیڈر کو نہیں جانتے، ھم کسی مذہب کے نہیں ہیں، ھم بچے ہیں۔ھمیں آپکی مفادات کا پتہ نہیں، کہ کہاں کتنا سونا کہاں کتنا تیل؟ کس کی گردن پکڑنی، کس کی پھیر؟ مگر ھمیں یہ پتہ ہے کہ ھمیں اپنے ابو امی کے ساتھ کھیلنا تھا، آپ نے ھمارے کھیلونے تو چینے ہی چینے مگر ھمارے ابو، امی اور انکی خوابوں سے بھی ھمیں محروم کیا۔

اقوامِ عالم کہ مفاد پرستوں اب بس بھی کریں اگر نہیں ھوتا تو بند کریں یہ دلالی کی دکان جس کا نام آپ نے اقوام متحدہ رکھا ہے۔جہاں آپکے قانون صرف محکوم اقوام پر ہی لاگوں ھوتے ہیں۔آپ سے کوئی جنگ ونگ بند نہیں ھوتا۔آپ جنگ ختم کم اور پھیلاتے زیادہ ہیں۔آپ رات کو امریکہ کی ھوس پوری کرتے ہیں، صبح کو روس کی اور شامیں آپکی چین کی باہوں میں کٹتی ہیں، آپ کیا انصاف دینگے؟24 اکتوبر 1945 سے لیکر 27 فروری 2018 تک دنیا کی گراؤنڈ پہ ہلاکتوں کا اسکور بڑھتا ہی گیا ہے مگر ظالموں کی وکٹ نا گرنے کے برابر ہے، کیونکہ ظلم کا یہ بیٹنگ پچ آپ ہی نے بنایا ہے اس لئے یہ یکطرفہ میچ ظلم ہی نے جیتا ہے اور یہ سب آپ کی جانبدارانہ ایمپائرنگ کا نتیجہ ہے۔

جس بم سے عائیشہ،عمر اور انیس یہاں آئے ہیں اسی سے ٹرنپ کی بچے نے کھلونا خریدا ہے۔جس مزائیل سے آئزک، روبن اور اینی اپنے خاک آلود روح سمیت مکین عدن ہوئے ان سے پیوٹن کی بیٹی نے برتھ ڈے منائی تھی اور اِنکی ماؤں نے سوگ۔جس ٹینک سےمجھے میرے والدین سمیت کچل دیا گیا تھا اس کے پیسوں سے اقوام متحدہ کے آفیسز کیلئے ٹوائلٹ پیپر خریدے گئے تھے جس سے شاید آپ نے بھی اپنا حصہ نکالا ھو۔

تو میرے معزیزین کرام! یہ آپ کیسے انسان ہیں کہ آپکے اپنے بچے تو بچے ہیں لیکن ھم نہیں ؟ خیر میرےدل کے درد بھری لالٹین میں بہت تیل ہے مگر فرشتے اعلان کر رہے ہیں کہ شام سے ھمارے کچھ نئے دوست آئے ہیں انکو ویلکم کرنا ہے اور زمین کا مزید حال چال معلوم کرنا ہے تو آپ میرے درد کو ساحر کی زبانی محسوس کیجئے گا جو نیچے درج ہے۔
اے شریف انسانوں !
خون اپنا ھو یا پرایا ھو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ھوکہ مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر
بمب گھروں پہ گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اورورں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑہیں کہ پیچے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بھانج ھوتی ہے
فتح کا جشن ھو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ مسئلوں کا حل تو کیا دیگی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دیگی
اسلئے اے شریف انسانوں !
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ھم سبھی کے آنگن میں
شمح جلتی رہے تو بہتر ہے۔

Sadiq Saba
About the Author: Sadiq Saba Read More Articles by Sadiq Saba: 7 Articles with 5612 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.