مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست

گزشتہ دنوں بالاخر مولانا فضل الرحمٰٰن نے اپنے سیاسی پتے شو کردیے ہیں۔ جس میں انہوں نے اپنے ایک وزیر کی حکومت سے جبری برطرفی کو بنیاد بناتے ہوئے وفاقی حکومت سے علیحدگی کا باقائدہ اعلان کردیا۔

اس فیصلے سے جہاں پیپلز پارٹی اپنے انتہائی ٹھنڈے حکومتی پارٹنر سے محروم ہوگئی ہے وہیں مولانا فضل الرحمٰن حکومت سے علیحدگی کے باوجود انتئائی فائدے کا سودا کر گئے کیونکہ ڈوبتے ہوئے جہاز یعنی انتہائی مشکل حالات حکومت سے علیحدگی میں مولانا فضل الرحمٰن نے پہل کی ہے جس کا مولانا کی جماعت یعنی جے یو آئی (ایف) کافی عرصے سے انتظار کر رہی تھی۔

مولانا کے حکومت سے علیحدگی کے بعد مولانا نے ایم ایم اے کے دوبارہ احیا کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یعنی قاضی حسین احمد اور ایم ایم اے کے دوسرے لیڈران کی سب سے بڑی شرط یعنی حکومت سے علیحدگی کو پورا کر دیا ہے۔

گزشتہ عام انتخابات میں ایم ایم اے کے موقف یعنی انتخابات کے مکمل بائیکاٹ کی پالیسی کے باوجود مولانا فضل الرحمٰن کی انتخابات میں شرکت کے بعد جے یو آئی (ایف) اور جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں کے لیڈران کی ایک دوسرے پر کڑی نکتہ چینی جاری تھی مگر مولانا صاحب نے اپنی جیتی ہوئی چند یعنی ٦ یا ٧ سیٹوں کے باوجود موجودہ حکومت سے ٣ وفاقی وزارتیں اور ٥ قومی اسمبلی میں قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ حاصل کرکے شاندار سیاسی کارنامہ انجام دیا۔

اب جبکہ مولانا صاحب کو بھی اچھی طرح ادراک ہے کہ موجودہ حکومت کی معیاد ختم ہونے میں دو سال کے لگ بھگ وقت رہ گیا ہے وہ بھی اگر کوئی اندرونی ہاتھ نہ ہوجائے یعنی حکومت کو وقت سے پہلے چلتا نا کردیا جائے تو۔

چنانچہ مولانا صاحب نے ایم ایم اے کی تشکیل کے سلسلے میں قاضی صاحب کی سب سے بڑی شرط یعنی حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے ایم ایم اے یا اس سے ملتا جلتا کوئی دوسرا الائنس بنانے کی راہ ہموار کردی ہے اور عنقریب قوم دیکھے گی کہ نیم مذہبی یا نیم سیاسی جماعتوں کی طرف سے مذہب کی خدمت نا سہی سیاسی دکانداری پر کوئی نا کوئی الائنس بن جائے گا جو کہ گزشتہ ادوار کے مسائل یعنی گوانتا نامو بے یا امریکی مداخلت یا پاکستان کی سرحدوں کے اندر غیر ملکی حملوں کے خلاف ناصرف خود بیدار ہوجائے گا بلکہ عوام کو یہ باآور کرایا جائے گا کہ پاکستان خصوصاً خیبر پختونخواہ کے عوام کے ساتھ موجودہ حکومت امریکی حکومت کے ساتھ ملکر بہت ظلم کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ ایم ایم اے یا اس کی طرز پر بننے والا کوئی بھی الائنس اگر پاکستان بھر میں کہیں اچھی خاصی تعداد میں نشستیں حاصل کر سکتا ہے تو وہ خیبر پختونخواہ یا فاٹا جیسے علاقے ہی ہوسکتے ہیں۔

چنانچہ عوام بھی تیار رہیں کہ پاکستان کو مسائل و مصائب سے چھٹکارا دلانے کے لیے نا سہی مگر اس کا آسرا ہی دلانے کے لیے ایک اور نیم سیاسی نیم مذہبی جماعتوں کا ایک اور الائنس ہونے جارہا ہے۔ اس الائنس سے ایک بات تو واضع ہوجائے گی کہ خیبر پختونخواہ میں اے این پی کی حکومت کو آئندہ انتخابات میں اپنی طاقت اور خدمات کا خوب اچھی طرح پتہ چل جائے گا۔ کیونکہ یہ بات تو حقیقت ہے کہ ایم ایم اے کے انتخابات سے بائیکاٹ کے نتیجے میں اے این پی نے صوبہ سرحد یعنی موجودہ خیبر پختونخواہ میں اپنی بساط سے بڑھ کر نشستیں حاصل کرلیں اور چونکہ اے این پی کبھی اقتدار کا ایسا مزہ نہ چکھ سکی تھی چنانچہ مشرف دور میں ہونے والے ٥ یا ٧ ڈرون حملوں کے مقابلے میں موجودہ اے این پی کی صوبائی حکومت کے ہوتے ہوئے صوبہ خیبر پختونخواہ میں بلامبالغہ سینکڑوں ڈرون حملے ہوچکے ہیں جس کے روکنے میں کوئی کردار ادا کرنا تو کجا اے این پی اس کی مخالفت میں کوئی ریلی تک نہیں نکال پاتی کہ حکومت بھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی کیونکہ اے این پی کے کرتا دھرتا اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ اگلی آنے والی حکومت میں اے این پی کا کردار انتہائی محدود ہوجائے گا اور شائد اے این پی عزت بچانے والی نشستیں بھی حاصل نہ کرسکے۔

مولانا صاحب کی سیاسی بصیرت پر کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ مولانا صاحب مشرف کے ساتھ تھے تو مزے میں تھے پی پی پی کے ساتھ ہیں تو مزے میں ہیں اور آگے بھی انکے لیے ان کے پرانے ساتھی باہیں وا کر کے ان کے انے کے انتظار میں بیتھے ہیں۔

قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پاس ١٢٧ (یعنی ایک سو ستائیس ) نشستیں اور وفاق میں بے حساب وزارتیں ہیں اور چیئرمین شپیں ہیں۔

قومی اسمبلی میں جے یو آئی (ایف) کے پاس ٧ یا ٨ (سات یا آٹھ) نشستیں ہیں اور وفاق میں ٣ وفاقی وزارتیں تھیں اور ٥ قائمہ کمیٹیوں کی چیرمین شپ اب بھی برقرار رکھی گئی ہے۔

قومی اسمبلی میں اے این پی کے پاس ١٣ (تیرا ) نشستیں اور وفاق میں ٣ وزارتیں ہیں

جبکہ حکومت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت یعنی ایم کیو ایم کے پاس قومی اسمبلی میں ٢٥ (پچیس ) نشستیں اور وفاق میں صرف ٢ نشستیں ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کو پاکستان کے مسائل حکومت میں رہتے ہوئے اتنے اچھی طرح نظر نہیں آرہے تھے جتنے اب نظر آئیں گے۔ کیونکہ مذہبی جماعتوں کے سیاسی میدان میں آنے سے یقیناً پاکستان کے مسائل کو حل کرنے میں کافی مدد مل گی۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 495293 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.