آزادکشمیر حکومت کی بجٹ امیدیں اور سماج کی سفاکیاں؟

آزادکشمیر حکومت کی بجٹ امیدیں اور سماج کی سفاکیاں؟

حکومت پاکستان کی طرف سے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے جو نئے مالی سال کے بجائے آئندہ مالی سال کا بجٹ اس لیے کہلائے گا عام انتخابات کی مناسبت سے وقت سے پہلے پیش کیا گیا ہے ہمیشہ سے اسلام آباد حکومت کے پیش کردہ بجٹ کے اعداد و شمار کی روشنی میں چاروں صوبائی حکومتیں اور حکومت آزاد کشمیر ‘ گلگت بلتستان بھی اپنے اپنے بجٹ تشکیل دیتے ہوئے پیش کرتی ہیں اس بار چاروں صوبوں کی حکومتیں بھی عام انتخابات کے حوالے سے فوری بجٹ پیش کریں گی تو حکومت آزادکشمیر ‘ حکومت گلگت بلتستان کو اگرچہ جلدی پیش کرنے کی کوئی عذر جواز درپیش نہیں ہے مگر کیوں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کا تعلق قومی جماعتوں سے ہے اس لیے ان کی قیادتیں بھی اپنی جماعتوں کی الیکشن مہم کا لازمی حصہ بنیں گی ‘ اور یہاں بھی مئی کے وسط میں بجٹ پیش ہو جائیں گے تاہم گزشتہ سالوں کے برعکس ان میں ردوبدل کمی بیشی کے امکانات بھی موجود رہیں گے کیوں کہ حکومت پاکستان نے اپنے آخری مالی سال کا بجٹ پیش کیا ہے جو حقیقت پسندانہ اعداد و شمار اور منصفانہ پیش بندی کے بجائے ملک کے اندر اپنے سیاسی انتخابی رحجانات سامنے رکھتے ہوئے لایا گیا ہے ‘ جس میں انتخابات پر سرمایہ کاری اور اثر انداز ہونے والے امراء اور مراعات یافتہ طبقے کو خوش کیا گیا ہے تو غریب کیلئے محرومیوں کے اسباب میں اضافہ کر دیا گیا ہے عام انتخابات کے بعد جن جماعتوں کی حکومتیں معروض وجود میں آئیں گی وہ نظر ثانی بجٹ دوبارہ بھی پیش کر سکتی ہیں جو حتمی ہوں گے ‘ ایسے میں ن لیگ کی حکومت پاکستان کی طرف سے انتخابی بجٹ پیش کرنے کے عوامل میں ن لیگ مظفر آباد اور گلگت کی حکومتوں کو ن لیگ کے بہاؤ بجٹ میں کیا استفادہ ہوتا ہے اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن ‘ قائمقام وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری طارق فاروق کی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ‘ وزیر منصوبہ بندی ترقیات احسن اقبال سمیت ارباب فیصلہ ساز سے ملاقاتیں اور قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں اپنا کیس جاندار انداز میں پیش کرنے کے اثرات رنگ لانے پہ پتہ چلیں گے جن کے مطابق نا صرف ترقیاتی بجٹ بغیر کٹ کے جتنا گزشتہ مالی سال اضافہ کرتے ہوئے ملا تھا وہی ملے گا بلکہ دونوں حکومتوں کو درپیش خسارے کے ختم ہو جانے کا امکان ہے جو یقیناًبڑی کامیابی ہو گی اگر واقعتا ایسا ہی ہوتا ہے باوجود اس کے ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سرہونے تک ‘‘ وہاں نئی حکومتیں کئی جماعتوں کی ہوں گی اور ان کی ترجیحات کے مطابق عملدرآمد ہو گا مگر طارق فاروق ‘ حفیظ الرحمن نے نمائندگی کا فریضہ سرانجام دینے کا حق ادا کیا حق جس کا ہے اس حقدار کو نہ ملے تو پھر جغرافیے بھی بدلتے ہیں قومیں شکست و ریخت کا شکار ہوتی ہیں اور ان کا نام و نشان نہیں رہتا ہے ‘ ریاست اور نظام کی کامیابیوں ‘ ناکامیوں کا انحصار معاشروں پر ہوتا ہے جسے سماج کہا جاتا ہے ‘ اس کا عروج انصاف ‘ مساوات ‘ برداشت کے ستونوں پر قائم رہتا ہے اور زوال ‘ ناانصافی ‘ طاقت ‘ عدم برداشت ‘ حق تلفی کے ناسوروں سے آتا ہے ‘ جس کا الزام کسی ایک حکومت ‘ ادارے ‘ طبقے یا فرد پر نہیں لگایا جا سکتا ہے بلکہ سارا سماج اس کا ذمہ دار ہوتا ہے ‘ حلقہ لچھراٹ سیری درہ جیب حادثے میں آٹھ افراد کے حصوں کو چن کر تدفین کرنے کے کربناک عمل گاڑی کے ناکارہ یا سڑک کے برباد ہونے سے ہو ‘ لوئر پلیٹ کے جوان کا دریا میں چھلانگ لگا کر زندگی ختم کر لینا ہو یا مظفر آباد سی ایم ایچ کے سامنے راجہ قیصر کو گولی مار کر اس کے پیاروں کو ساری زندگی کا غم دینے سے ہو ( سی یم ایچ )کے کیمرے کی فوٹیج میں سب کچھ شیشے کی طرح شفاف ہونے کے باوجود انتظامیہ اداروں کی نااہلی ہو (یا پھر کوٹلی دو قتل اور حویلی میں مار دیئے جانے والا شخص ہو ‘ گڑھی دوپٹہ اپنے ساتھ آٹھ افراد کا درندوں کی طرح زیادتی کا شکار ہونے والے نوجوان کا بے بسی کے ہاتھوں خاموش زندگی بسر کرنا ہو ‘کٹکیرمعصوم نور بانو کی کہانی ہو ایسے درد ناک واقعات کی لہر کے ذمہ دار جرم کرنے والے نہیں جرم برداشت کرنے والا سماج ہے جب ڈرانا دھمکانا ‘ زبردستی ‘ اختیار ‘ طاقت کے زور پر تسلط اور چالاکی ‘ مکاری سے چھینا چھپٹی ہو ‘ عدم برداشت کا رواج چلے تو پھر سماج کو پرامن اور کاندھے سے کاندھا ملا کر احتجاج تو کرنا چاہیے اور نہیں کرتے تو پھر گیدڑوں کی طرح ڈر ڈر کر چی چراں کرتے رہیں اور خود بدتر انجام کیلئے تیار رہیں کیوں کہ بطور سماج اس کا حصہ ہر شخص خود جو چاہے اپنی مرضی کے مطابق چاہتا ہے اور دوسرے کی باری آئے تو انصاف قانون ‘ میرٹ ‘ حق یاد آ جاتا ہے عملاً قبروں کی جگہ پر فساد کر دیتے ہیں اور ظلم پر چپ رہتے ہیں آپ سے اچھی تو ہندوستان کی ہندو بڑھیا ہے جو مقبوضہ کشمیر کی معصوم بچی سے زیادتی کیخلاف دِلی میں بھوک ہڑتال کیے بیٹھی ہے اور اس جیسا ہر انسان اس کے ملک میں سراپا احتجاج ہے تو پھر آ پ کے محکموں ‘ انتظامیہ ‘ پولیس میں بھی آپ ہی جیسے سارے بیٹھے ہیں ‘ کیسا ظلم ہے وزیراعظم فاروق حیدر کو خود لندن ہوتے ہوئے کہنا پڑ گیا ملزمان کو گرفتار کرو ‘ آئین ‘ قانون ‘ اختیار سے زیادہ سماج طاقت ور ہوتا ہے جو اس کے باسیوں سے بنتا ہے ‘ سماج کے انسان کی انسانیت زندہ ہوتی تو ناکارہ جیپ کھٹارہ سڑک کے ہونے سے لوگ مرتے نہ گولی سے مارے جاتے اور نہ دریا میں چھلانگیں لگاتے یہ سب کچھ سماج کی رگوں میں حق دار کا حق غصب کرنے کا دوڑتا خون بن کر بے حسی کا راج ہے ‘ لیڈر ‘ رہنما ‘ مولانا ‘ کارکن ‘ صحافی ‘ جج ‘ جنرل ‘ آفیسر کہلانے کا حق اُسے ہوتا ہے جس کی بات سنی جائے اس پر عمل کیا جائے مگر یہاں کیا کوئی ایسا ہے اور ہم حمایتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے بنتے ہیں وزیراعظم فاروق حیدر برطانیہ کے دورے سے واپس آ گئے ہیں ان کی عدم موجودگی میں ان کے قائم مقام ‘ ساری کابینہ نے ان کی تعریفیں کیں ‘ ان کے آئین سے بجٹ تک اقدامات کو کوششوں پر خراج تحسین پیش کیا ‘ تعریف اور کردار وہ ہوتا ہے جو آپ کی عدم موجودگی میں کی جائے ورنہ اختیار ‘ طاقت اور زور سب کچھ ایک دِن ختم ہو کر ہی رہتا ہے ‘ اُمید ہے وہ بجٹ کی تیاریاں کرنے میں سماج کو انسان بنانے کے مراحل کو پیش نظر رکھیں گے ‘ کم از کم تعلیم‘ صحت خصوصاً تربیت ‘ کردار کا کوئی حل تلاش کریں گے ۔ خصوصاً حکومت اور ضلع باغ کی سول سوسائٹی عوام کی جانب سے باغ فیسٹول کا انعقاد قابل تعریف ہے ‘ جو میرپور میں بھی ہونے جا رہا ہے ‘ خطہ میں ڈپریشن کا شکار عوام کو سب سے زیادہ تفریحی پارک ‘ باغات ‘ کھیل کے میدانوں ،فوڈ اسٹریٹ مراکز کی اشد ضرورت ہے اس کی مخالفت کرنے والے کو سعودی عرب میں کھلتے سینما گھروں سے لیکر مغربی طرز آزادیوں کو بھی دیکھ لینا چاہیے ۔ اور کسی بھی امر کی مخالفت کرتے ہوئے متبادل حل بھی بتانا چاہیے ۔

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 132541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.