الطاف حسین - مناظرہ کا چیلنج اور شریفوں کی قلابازیاں

گزشتہ دنوں ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین کی جانب سے مناظرے کا چیلنج قبول کرتے ہوئے پی ٹی وی کے سابق سربراہ پرویز رشید نے کہا کہ ہم پاکستان کے کسی بھی شہر میں مناظرے کیلئے تیار ہیں وقت کا تعین ایم کیو ایم خود کرے۔ چے پدی چے پدی کا شوربہ۔

حیرت انگیز اور تعجب انگیز بات یہ ہے کہ مناظرے کا چیلنج ایم کیو ایم کے قائد نے ن لیگ کے سربراہ نواز شریف صاحب کو دیا ہے اور چیلنج قبول کرنے کی باتیں کر رہے ہیں پرویز رشید صاحب۔ محترم کی خدمت میں عرض ہے کہ مناظرہ کا چیلنج الطاف حسین نے لندن سے ہی کیا ہے اور وہ بھی نواز شریف صاحب کو اور چیلنج قبول کرنے والا اپنی مرضی کا میدان چننے کا حقدار نہیں کہ فلاں فلاں جگہ اور فلاں فلاں وقت یہ مناظرہ کسی گراؤنڈ یا اسٹیڈیم میں ہونا چاہیے۔

الطاف حسین نے یہ چیلنج یقیناً ٹیلی فون کے زریعے خطاب میں دیا ہے اور چیلنچ قبول کرنے کے لیے بھی یقیناً نواز شریف کو یا الطاف حسین کو کسی میدان میں آکر یہ مقابلہ نہیں کرنا ہے بلکہ میڈیا کے سامنے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے یہ اس مناظرہ کا چیلنج اور جواب چیلنج انجام پزیر ہوسکتا ہے۔ جس کے گواہ اور دیکھنے والوں کے لیے کسی مخصوص میدان میں جانے کے بجائے اپنے اپنے ٹیلی ویژن اسکرینز کے سامنے ہونے کے سبب گلوبل ٹیکنالوجی یعنی کانفرنسنگ کے زریعے دنیا بھر میں دیکھا اور سنا جاسکے گا۔ اور یوں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ کہ کون فوجی گملے کی پیداوار ہے اور کون عوام کی آواز ہے۔

ن لیگ کے سربراہ اور پارٹی لیڈران یقیناً یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ الطاف حسین کی باتوں کے جواب تو اسٹیبلشمنٹ نا دے سکی تو اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کھیلنے کودنے والے نواز شریف کیا دے پائیں گے۔ نواز شریف صاحب کی آنکھوں سے چشمہ اور سامنے پڑا تقریر کا کاغذ اٹھا لیا جائے تو ان کا خطاب جن الفاظ کا مجموعہ رہ جاتا ہے وہ اکثر ان کی پریس کانفرنس کے بعد ہونے والا سوالات و جوابات کی بے معنویت سے ہوہی جاتا ہے۔

قوم کے حافظے سے یہ بات یقیناً ابھی محو نہیں ہوگی کہ جب کہ لال مسجد پر پاکستان بھر کے میڈیا پرسنز پرویز مشرف کی حکومت کو غیرت دلانے پر مجبور تھے کہ جناب پاکستان کے دارالحکومت میں میں چند مٹھی بھر شرپسند ایک مسجد پر بزور اسلحہ قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور حکومت ان کے خلاف ایکشن نہیں لے رہی تو عین انہی دنوں ن لیگ کے نواز شریف صاحب اپنے تمام پارٹی رہنماؤں اور دوسری پارٹیوں کے لیڈران کو لندن کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں تین دنوں تک جمع کیے بیٹھے رہے اور ایک کانفرنس منعقد کرتے رہے اور تمام شریک پارٹیوں سے دستخط لیتے رہے جس کا مقصد میاں صاحب کے نزدیک اپنی کھوئی ہوئی ساکھ حاصل کرنا اور پاکستان کی جماعتوں میں ن لیگ کو نمایاں جگہ دلوانا تھا جس ہوٹل کو بک کیا گیا تھا اس میں تمام شریک جماعتوں کے مندوبین کو ٹہرایا گیا تھا اور یوں مزکورہ ہوٹل تین دنوں تک ن لیگ نے کرائے پر حاصل کر رکھا جی ہاں نواز شریف صاحب نے کہ جنہوں نے ٹیکس کی ادائیگی کی مد میں پانچ ہزار روپے ادا کیے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے زیرِ اہتمام آل پارٹیز کانفرنس لندن میں 7اور 8 جولائی 2007ء کو ہوئی۔ اس کانفرنس کا مقصد مشترکہ اپوزیشن کا مشرف حکومت کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کرنا تھا۔ لیجیے جناب کانفرنس ہونی تھی مشرف حکومت کے خلاف جو کہ پاکستان کی حکومت کے متعلق تھی اور اجلاس لندھ میں ہورہے تھے حد ہوتی ہے جناب یہ بھی۔

مزکورہ کانفرنس میں قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف مولانا فضل الرحمان، ایم ایم اے کے سربراہ قاضی حسین احمد اور اے آر ڈی کے سربراہ اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے رہنما مخدوم امین فہیم سمیت دیگر اہم اپوزیشن رہنما، سینیئر تجزیہ کار اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ آل پارٹی کانفرنس کے دیگر اہم شرکاء میں بائیں بازو کے رہنما عابد حسن منٹو، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی، سندھی قوم پرست رہنما ڈاکٹر قادر مگسی، ممتاز بھٹو،اور رسول بخش پلیجو بھی شامل ہوئے چنانچہ سب ہی نے خوب مزے کیے اور ہنس کر کھاؤ پوھڑ کا مال کی حکایت کو زندگی بخشی۔

پاکستان کے نام پر آل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی اے پی ڈی ایم بنائی جائے لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے لیے میثاق جمہوریت تحریر اور تسلیم کیے جائیں تو وہ تو نواز شریف صاحب لندن میں منعقد کریں اور کوئی ان کو چیلنج کرے اور چیلنج کرنے والا مقیم بھی لندن میں ہو تو ن لیگ والے پاکستان میں جواب دینے کے لیے جگہ اور وقت کا تعین کرنے کا مشورہ دیں یہ بات کچھ ہضم نہیں ہورہی۔

ن لیگ کے سربراہ کو چاہیے کہ فی الفور الطاف حسین کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے پاکستان میں رہتے ہوئے لندن میں مقیم الطاف حسین کے چیلنج کا سامنا کریں الطاف حسین نے تو یہ فرمائش نہیں کی کہ چیلنج قبول کرنے والے کو جواب دینے کے لیے اسی لندن آنا پڑے گا جہاں نواز شریف صاحب اکثر جاتے آتے رہتے ہیں۔

پاکستان کے لیے درد رکھنے والے پاکستان سے باہر خصوصاً لندن میں تو کانفرنسوں کا انعقاد کرتے اور پاکستان کی جمہوریت کو لندن کے ہوٹلوں میں زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور چیلنج قبول کرنے کے لیے پاکستان آنے کی دعوت دیتے ہیں۔

نواز شریف صاحب کے پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کو اگر پاکستان کا ویزہ ملنے میں دشواری کا سامنا ہے تو وہ یعنی ن لیگ کے لیڈران ویزہ دلوانے میں مدد کرنے کے لیے تیار ہیں کاش اس طرح کے ویزے دلوانے میں آسانی وہ نواز شریف صاحب کے لیے بھی کروا دیتے کہ جب نواز شریف صاحب معاہدے پر دستخط کر کے نکل بھاگے تھے اور پھر مشرف نے ہی آنے دیا تو آئے وگرنہ چپ سادھے پڑے تھے وہ تو شکر ادا کریں محترمہ کا کہ جن کے آنے کے بعد ن لیگ کے نواز شریف صاحب کو بھی ملک آنے کی اجازت مل پائی۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 495338 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.