ن لیگ، اسد درانی اور ریحام خان

غالب نے کہا تھا ’ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے‘۔ غالب نے اس ایک مصرع میں دنیا کا ماحول اور معمول بیان کر دیا۔ یہاں روز نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں اور پھر کہانیوں کا باہمی تعلق اور آگے کا سفر نئی کہانیوں کے جنم کا باعث بنتا ہے۔ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر چکی ہے جو خوش آئند ہے۔ چناؤ کی آمد آمد ہے اور سیاسی جماعتیں جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ ن لیگ کی حالت بالکل ایسی ہے جس کا سامنا ۲۰۱۳ کے انتخاب سے قبل پی پی پی کو تھا۔ لیکن دونوں میں ایک فرق بہرحال موجود ہے۔ پی پی پی کو اُس وقت اپنی کمزور حالت کا پورا پورا ادراک تھا جس کا اندازہ ان کی ۲۰۱۳ کے انتخاب میں جانے کے انداز سے بھی ظاہر ہوا لیکن ن لیگ کو اپنی سیاسی حالت کا ادراک نہیں ہو پا رہا یا پھر وہ ایسا چاہتے ہی نہیں ہیں۔ اس فرق کی بنیادی وجہ جماعت کے پاس سیاسی نظریہ کا نہ ہونا ہے۔ جب ایک جماعت کسی سیاسی نظریہ کے تحت چلتی ہے خواہ وہ اپنے نظریہ پہ قائم رہے یا نہ رہے۔ اس کے پاس اپنی اہلیت اور قابلیت جانچنے کا ایک سانچہ موجود ضرور رہتا ہے جو غیر ارادی طور اسے ناکامیاں گنواتا رہتا ہے۔ لوگ جوق در جوق ن لیگ سے نکل کے تحریکِ انصاف کا حصہ بن رہے ہیں۔ جبکہ اتحادی اپنے لیے نئے امکانات کی تلاش میں ہیں۔ ویسے بھی ڈوبتی کشتی میں کوئی بھی سوار ہونا پسند نہیں کرتا یہی زمانے کی روایت بھی ہے۔ نواز شریف اپنے بیانات کی تمام تر بے باکی کی وجہ سے بھی وہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نظر نہیں آ رہے جن کی شاید انھیں بہت امید تھی۔ میاں صاحب کا خیال تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ان کی معاونت میں وہ سب جماعتیں بھی ان کے ساتھ کھڑی ہو جائیں گی جنھیں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اذیتیں دی جاتی رہی ہیں۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ کیونکہ نہ صرف دوسرے سیاسی حلقوں میں بلکہ خود ن لیگ کے اندر ایک سوچ بڑی شدت سے ابھر کے سامنے آ رہی ہے کہ میاں صاحب کا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑا ہونا دراصل نظام کے بچاؤ کے لیے نہیں بلکہ اپنے بچاؤ کے لیے ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو دن بدن میاں صاحب کو دیوار کے ساتھ لگا رہا ہے کیونکہ ایک جانب انھیں سیاسی حلقوں کا تعاون دستیاب نہیں تو دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے پتے کامیابی سے کھیل رہی ہے۔ ایسے میں یوسف رضا گیلانی کا عہد بھی یاد آتا ہے جب میاں صاحب نے افتخاز چودھری کو سینے لگایا ہوا تھا۔ کاش میاں صاحب نے اپنی وزارت کے دوران ایوان کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہوتی۔ اسٹیبلشمنٹ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہوتی اور کمپرومائز نہ کیے ہوتے۔ دھرنا کا موقع ایسا تھا کہ جب میاں صاحب کو ایوان کا ساتھ میسر تھا۔ ملکی سیاست سے اسٹیبلشمنٹ کا اثر و رسوخ ختم نہیں تو کم کرنے کا یہ ایک بہترین موقع تھا لیکن میاں صاحب اپنی حکومت بچ جانے پہ ہی اکتفا کر بیٹھے۔ اگرا س وقت ملوث غیر سیاسی ہاتھوں کو قلم کر دیا جاتا تو میاں صاحب کو تاریخ ایک مضبوط وزیراعظم کے طور محفوظ کر لیتی۔ دوسری بار ڈان لیکس کے بعد میاں صاحب کو اپنے مؤقف پہ مضبوطی سے ڈٹے رہنا چاہیے تھا۔ ڈان لیکس کی رپورٹ کے متن پہ تو بات کرنا ملکی میڈیا اور دانش وروں نے لائقِ اہمیت ہی نہ جانا تھا کہ یہاں پر جلتے تھے۔ لیکن جب عسکری نمائندہ نے تحقیقی رپورٹ جاری ہونے پہ ’’ریجیکٹڈ‘‘ کا ٹویٹ کیا تو وہ ایک ایسا موقع تھا کہ میاں صاحب امر ہو سکتے تھے لیکن ان نے ایک ملک کے وزیراعظم ہوتے ہوئے اتنی جرات نہ کی کہ ایک باوردی ملازم کے خلاف کارروائی عمل میں لاتے۔ آپ حملہ آور کو چھوڑ دیں گے تو ایسا نہیں ہو گا کہ وہ دوسرا حملہ نہ کرے۔ اس نے اپنا وار کرنا ہی ہوتا ہے۔ عدلیہ سے پانامہ کی جگہ اقامہ پہ نااہل ہو جانا بھی میاں صاحب کو اکڑنے کا ایک جواز دے گیا۔ لوگ حیران تھے کہ یہ کیا ہوا کہ اونٹ تو نکل گیا لیکن چیونٹی پھنس گئی۔ کئی حلقوں میں یہ گونج بھی سنائی دی کہ اب بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہلکا ہے اور شاید یہ کسی اور این آر او کا چانس دیا جا رہا ہے۔ لیکن جناب کو اپنی کرسی سے محبت تھی اسی لیے اپنے نامزد کیے وزیر اعظم کے دور میں بھی اپنے دورِ حکومت کو یاد کر کے سنہری قرار دیتے رہے۔ دراصل میاں صاحب اور اسٹیبلشمنٹ میں بھائی بہن کا رشتہ ہے یہ کبھی لڑ پڑتے ہیں اور کبھی گلے لگ جاتے ہیں اس لیے مستقبل کے بارے کچھ آسانی سے نہیں کہا جا سکتا کہ آئندہ کیا ہو۔ لیکن کم از کم ابھی کچھ وقت تو یہ جھگڑا موجود رہے گا جس سے نہ قوم کو فائدہ ہونا ہے اور نہ ملک کو۔

ابھی میاں صاحب کے بیان پہ ملک میں گفت و شنید جاری تھی کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کی کتاب منظرِ عام پہ آ گئی۔ کتاب بنیادی طور جنرل اسد درانی، را کے سابق سربراہ اے ایس دلت اور ایک بھارتی صحافی ادیتے سنہا کے درمیان مختلف مقامات پہ ہونے والے مکالمات پہ مشتمل ہے۔ کتاب کے آغاز میں منٹو کو نقل کیا گیا ہے جو کم از کم میرے لیے تو خوش آئند تھا کہ وہ منٹو جس کی تحریر پہ ایک عرصہ ہمارے ہاں پابندی رہی اسی منٹو سے ایک ایسی کتاب کا آغاز کیا جا رہا ہے جس کا ایک لکھاری آئی ایس آئی کا سابق سربراہ ہے۔ کتاب کی پیشکش خوب ہے کہ پڑھنے والا بڑی سہولت اور روانی سے کتاب پڑھ لیتا ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے قبل میرا خیال تھا کہ بھاری بھرکم پیشہ ورانہ اصطلاحات کا سامنا ہو گا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کو عام قاری کے لیے لکھا گیا ہے۔ کتاب کے بعد پاکستان مین سخت ردِ عمل سامنے آیا۔ اسے انتخاب سے قبل کی اسٹریٹیجی بھی کہا گیا اور ہوائی باتیں بھی قرار دیا گیا۔ جی ایچ کیو نے انکوائری بھی شروع کر دی اور میاں صاحب نے قومی کمیشن کا مطالبہ بھی کر دیا۔ مجھے کتاب میں کوئی ایسا بڑا انکشاف نظر نہیں آیا جس پہ ہنگامہ آرائی کی جاتی۔ بیشتر چیزیں وہی تھیں جن کے بارے قیاس آرائیاں عوام و خواص میں پہلے سی ہی پائی جاتی ہیں۔ لیکن چونکہ ہمارے ہاں روایت ہے کہ اندازے کو بیان اور بیان کو فیصلہ بنا کے پیش کیا جاتا ہے اس لیے سب یہی سمجھتے ہیں کہ کچھ خاص ہو گیا ہے۔ کچھ خبروں اور تحاریر میں یہ پڑھنے کو ملا کہ درانی صاحب نے سابق سپہ سالار کیانی پہ اسامہ بن لادن کے کیس میں امریکہ سے ۵۰ ملین ڈالر لیے ہیں جبکہ کتاب میں یہ رقم کیانی صاحب سے منسوب نہیں بلکہ ایک سابق انٹیلی جنس آفسر کے حوالے سے اس کا اظہار کیا گیا جس کی شناخت درانی صاحب نے نہیں کی اور اسی افسر کے بارے یہ بھی کہا گیا کہ اسے پیسہ کے ساتھ بیرونِ ملک فارمز بھی ملے تھے۔ ممکن ہے خبر چلانے والوں نے گفتگو کے جس حصہ سے جملہ اٹھایا ہو اس میں جنرل کیانی کا نام دیکھ کے کام چلا لیا ہو۔ کہ ہمارے ہاں تو مرضی کی چیز اٹھائی جاتی ہے۔ کتاب میں ایک پہلو نمایاں ہو کہ سامنے آیا کہ جنرل درانی اور دلت کے درمیان تعلقات بڑے اچھے رہے ہیں اس کا اظہار اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے جب مئی ۲۰۱۵ میں جنرل درانی کا بیٹا عثمان بمبئی ائیر پورٹ پہ اس لیے پھنس جاتا ہے کہ اس کے پاس بمبئی شہر میں داخلہ کا اجازت نامہ نہیں ہوتا تو اس معاملہ میں اے ایس دلت اور اس کے دوستوں کے تعاون سے وہ بمبئی سے نکلنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ کتاب میں ایسے کئی واقعات ہیں جن میں فریقین کی بیویوں کی ملاقات اور کئی خفیہ افسروں کی باہمی ملاقاتوں کے اشارے جو یہ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ انسانوں کے بیچ کہیں کچھ بھی تعلق قائم ہو سکتا ہے یا ہوتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جب سرحد کے دونوں جانب موجود سیاسی لوگوں کے بیچ کوئی تعلق یا رابطہ قائم ہوتا ہے تو اسے غداری اور گناہ کے زمرے میں لایا جاتا ہے اور اگر یہی تعلق عسکری یا خفیہ اداروں کے سربراہ رکھیں ہم پیالہ و ہم نوالہ ہوں تو سب جائز ہے۔ شاید اسی لیے جنرل درانی نے ایک مقام پہ اے ایس دلت کو کہا تھا کہ اگر ہم فکشن بھی لکھیں گے تو کوئی ہم پہ اعتبار نہیں کرے گا۔

آج کل پاکستان میں ایک اور کتاب کا چرچا ہے جو ابھی شائع بھی نہیں ہوئی۔ کچھ جانب سے غیر مصدقہ مواد سامنے آ رہا ہے جو ظاہر ہے کہیں شائع نہیں ہوا سو اس کی اہمیت بھی کوئی نہیں۔ لیکن یہ تلاشنے کی ضرورت ہے کہ یہ مواد کتاب کی اشاعت سے قبل سامنے لانے والے لوگ کن ذرائع سے سامنے لا رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پی ٹی آئی کی محبت کے رنگ میں کوئی پی ٹی آئی کو ہی نقصان پہنچا رہا ہو۔ ریحام خان کی کتاب میں شاید ہی اس کے غصہ کے سوا کچھ اور ہو۔ اب تک کے اس کے تمام عوامل اسے ذہنی طور الجھی خاتون ظاہر کرتے ہیں جو کسی ایک جگہ بھی ٹھہرنے کو تیار نہیں ہے اور جس کا صرف ایک ہی ہدف ہے کہ کسی طرح دوسرے کو نیچا دکھایا جائے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ریحام خان گرد کا ایک غبار ہے جو پانی کے ایک چھڑکاؤ سے ہی بیٹھ جائے گا۔ جہاں تک کہ کہا جا رہا ہے کہ ریحام خان نے جب بنی گالہ چھوڑا تھا تو خان صاحب کا بلیک بیری بھی ساتھ لے گئی تھی اور اس کے پاس ایسے بہت سے ثبوت ہیں جو خان اور اس کے قریبی دستوں کی سیاست اور شخصیت کو تباہ کر سکتے ہیں تو ایسا اگر ہوتا تو ریحام خان جتنی بے صبری ہے یہ کام پہلے ہی کر چکی ہوتی۔

Kashif Butt
About the Author: Kashif Butt Read More Articles by Kashif Butt: 25 Articles with 15798 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.