سفر شمالی علاقہ جات (حصہ اول)

سیاح تو آتے ہیں مگر سہولت اس قدر فراہم نہیں ہیں لگا تار بجلی ؤ گرم پانی کی فراہمی کا نہ ھونا, اور موباہل فون سنگنل کا نہ ھونا سب سے بڑا مسئلہ ھے تمام فون کمپنی والے بلند دعوے کرتے ہیں کہ ہماری سروسز اچھی ہیں مگر بس اشتہار کی حد تک ہی محدود ہیں ناران سے آگے صفر ھے

ناران ؤ کاغان تا بابو سر ٹاپ
گزشتہ سال کی طرح امسال بھی اپنے دل کے قریب بہت قریب دوستوں جن میں پرنسپل قائد اعظم ہائی سکول کسووال جناب محمد عمران احسن صاحب,
پرنسپل کڈز کالج سکول سسٹم چیچہ وطنی
جناب مرزا سجاد عالم صاحب,
پرنسپل علامہ اقبال کالج چیچہ وطنی
جناب عامر شہزاد صاحب,
پرنسپل قائد اعظم سکول اکانوالہ بنگلہ چیچہ وطنی
جناب عتیق الرحمن صاحب ,جناب سعید احمد صاحب, کے علاوہ اس سال ہمارے گروپ میں کچھ نئے ساتھی بھی شامل ھوۓ جن میں جناب وسیم علی صاحب( گورئمنٹ سکول ٹیچر ) جناب محمد فہد صاحب (گورئمنٹ سکول ٹیچر) جناب محمد رفیع صاحب (گورئمنٹ سکول ٹیچر) جناب عید گل خان صاحب, جناب سردار خاں صاحب, جناب مرزا اعجاز صاحب اور انکا بیٹا ارسلان اعجاز بھائی ساہیوال)(ذاتی کاروبار) نے شمولیت کی تمام دوستوں کی مشاورت سے عید کے بعد بروز منگل مورخہ 19/6/18کی شام روانگی طے پائی. پروگرام ترتیب دیا گیا, دن طے پاۓ اور اللہ کی رحمت سے خیر ؤ عافیت تمام سفر آج صبع اپنے اختتام کو پہنچا. میں نے اپنے اس شمالی علاقہ جات کی سیر کے پروگرام کو تین حصوں میں تقسیم کر کے ہماری ویب کے فورم سے آپکی نظر کرنے کا فیصلہ کیا ھے امید ھے کہ آپکو پسند آۓ گا...

صبح فجر کی نماز ہم نے مانسہرہ کے قریب ادا کی نماز پڑھ کے فوراً آگے کا سفر شروع کر دیا اور پہلا پڑاؤ مانسہرہ میں ہوا۔ وہاں رک کر ناشتہ کیا۔ کھانے پکانے کا سامان ہم ساتھ ہی لے کر آئے تھے۔ کیونکہ ابھی کافی سفر باقی تھا اس لیے ناشتے میں بریڈ اور چائے پر ہی اکتفا کیا ناشتہ تیار کرنے میں سعید بھائی نے کافی محنت کی جسکے لیے شکریہ انکا. وادی کاغان، ضلع مانسہرہ، خیبر پختونخوا کی ایک حسین ؤ جمیل وادی ہے جو اپنے قدرتی حسن کے باعث عالمگیر شہرت کی حامل ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع کئی معروف تفریحی حسین ؤ جمیل مقامات اسی وادی میں واقع ہیں۔ لیکن 8 اکتوبر 2005ء کو آنے والے تباہ کن زلزلے سے اس حسین ؤ جمیل وادی کو بھی نقصان پہنچایا۔ وادی کاغان کا نام کاغان نامی قصبے سے پڑا ھے. دریائے کنہار اس وادی کے قلب میں بہتا ہے۔دونوں جانب آبادی موجود ھے یہ وادی تقریباً 2134 میٹر سے درۂ بابوسر تک سطح سمندر سے تقریباً 4173 میٹر تک بلند ہے اور تقریباً 155 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں کی آبادی پشتو اور اردو بخوبی جانتی ہے۔ یہاں گجر, سید, اعوان قوم کی کثرت ھے لیکن سید اور ملک اعوان قوم سردار قوم میں شامل ھے اور گجر قوم مزدور قوم میں شمار ھوتی ھے شروع شروع میں جب ناران کاغان کی سیر کے لیے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ھوا تو یہاں کی سردار قوم اس میں اپنا حصہ وصول کرتی تھی مگر اب ایسا نہیں یہ کافی ترقی کر چکا ھے لا تعداد ہوٹل, دوکانیں, ایک وسیع بازار ہر طرح کر سہولت سے آراستہ بن چکا ھے پہلے جو گاڑی جیھل سیف الملوک جانے کا پانچ سے سات ہزار روپے وصول کرتی تھی اب فکس ریٹ 2500 روپے ھوگیا ھے یہ علاقہ جنگلات اور چراہ گاہوں سے اٹا ہوا ہے اور خوبصورت نظارے اس کو زمین پر جنت بناتے ہیں۔ یہاں تقریباً 17 ہزار فٹ تک بلند چوٹیاں بھی واقع ہیں۔ جن میں مکڑا چوٹی اور ملکہ پربت شہرت کی حامل ہیں۔ پہاڑوں، ندی نالوں، جھیلوں، آبشاروں، چشموں اور گلیشیئروں کی یہ وادی موسم گرما (مئی تا ستمبر) میں سیاحوں کی منتظر رہتی ہے۔ مئی میں یہاں کا زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت تقریباً 11 اور کم از کم تقریباً 3 درجہ سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ یہاں جولائی کے وسط سے ستمبر کے آحتتام تک ناران سے درۂ بابوسر ٹاپ جسکی بلندی تقریباً 13700 ھے کا رستہ کھلا رہتا ہے اور بے حد سردی اور سرد ہواہیں چلتی رہتی ہیں. برسات اور موسم سرما میں وادی میں نقل و حمل مشکل ہو جاتی ہے۔ اس حسین وادی تک بالاکوٹ، ایبٹ آباد اور مانسہرہ سے باآسانی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بالاکوٹ سے با آسانی بسوں یا دیگر ذرائع نقل و حمل سے کاغان یا ناران پہنچا جا سکتا ہے۔ بالاکوٹ سے ناران تک کے تمام راستے میں دریائے کنہار ساتھ ساتھ بہتا رہتا ہے اور حسین جنگلات اور پہاڑ دعوت نظارہ دیتے رہتے ہیں۔ راستے میں بالا کوٹ سے تقریباً 23 کلو میٹر کے فاصلے پر کیوائی کے مقام سے ایک راستہ شوگران کی طرف جاتا ھے جو تقریباً سات کلو میٹر دور ھے کیوائی سے، شوگران کا حسین تفریحی مقام بھی وادی کاغان میں ہی واقع ھے جہاں کی معروف سری ( کھڑا پانی) اور پائے (چراگاہ) جھیلیں اور مکڑا چوٹی کا نظارہ زندگی کے ناقابل فراموش نظاروں میں سے ایک ہوتا ہے۔اس کے علاوہ پارس، شینو، جرید اور مہانڈری کے حسین قصبات بھی آتے ہیں۔سڑک صاف ھے.

ناران میں مختلف معیار کے تقریباً 250 سو سے زائد ہوٹل موجود ہیں۔ پاکستان ٹوریزم ڈیویلپمینٹ کارپوریشن کا ایک موٹیل بھی ناران میں واقع ہے۔

ناران میں سال کے اکثر حصے میں بارش ہوتی رہتی ہے۔ سالانہ اوسط درجہ حرارت تقریباً 10.1 سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ ناران میں پچھلے کچھ مہینوں کے درجہ حرارت ذیل میں ہیں۔ناران بالاکوٹ سے تقریباً 75 کلو میٹر کے فاصلے پر مجود ہے یہ جگہ سیاح حضرات کے لیے ایک اہم جگہ ہے .یہ جگہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے بہت مشہور ہے .اس جگہ کا سب سے حوبصورت مقام جھیل سیف الملوک ہے جو تقریباً 1500 کے رقبے پر پھیلا ہے اس کے چاروں طرف پہاڈ ہیں ہر سال یہاں پر لاکھوں حضرات سیر کیلے ملک کے کونے کونے سے آتے ہیں ناران کے ساتھ ساتھ دریاۓ کنہار بہتا ہے اور ناراں میں تقریباً 5 ماہ برف بہاری ہوتی ہے تو وہاں کے مقامی لوک بالاکوٹ کی طرف آتے ہیں تو وہاں پر کم سے کم دس فٹ برف باری ہوتی ہے تو وہاں پر پہاڈوں سے جنگلی جانور نیچے ناراں میں ا جاتے ہیں جن میں شیر ,جیتا ,شترمرغ ,ریچھ اہم ہیں.ناران سے بابوسر ٹاپ کی جانب جاتے ہوئے ایک اور حسین جھیل لولوسر واقع ہے۔ لولوسر جانے کے لیے ناران سے جیپ بھی کروائی جاسکتی ھے اور اپنی گاڑی پر بھی جایا سکتا ھے -

دریائے کنہار سے جڑتی ملکہ پربت کی چوٹی بھی وادی کاغان کے وسیع سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان کے شمال میں موجود تقریباََتمام خوبصورت علاقوں کو وادیءکاغان سے پیوستی نصیب ہے۔ اور ملکہ پربت بھی انھی میں سے ایک ہے۔ پہاڑوں کی ملکہ کہلانے والی اس چوٹی کو وادیءکاغان کی بلند ترین چوٹی مانا جاتاہے۔ اس کی بلندی 17500 فٹ ہے جو تقریباً 5334 میٹر بنتی ہے۔ یہ جھیل سیف الموک سے چھے کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔اور کوہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلہ سے متصل ہے۔اس سے آگے کا ایک ذکر جو آنسو جھیل پر مشتمل ہے۔قدرت کی کون سی آنکھ سے ٹپکنے والا آنسو وادی ءکاغان کی یہ جھیل ٹھہرا ہے۔ایسی جھیل جس کو دیکھتے ہی محبت کی آمیزش سے لبریز آنسو ہر دیکھنے والے کی آنکھوں اتر آتے ہیں ۔ آنسو جھیل ملکہ پربت کے قریب میں وقوع پذیر ہے ۔زمین دور سے تارا دکھائی دیتی ہےٹکا ہے چاند اس پہ چشمِ سیر بیں کی طرحمنیر نیازی کے اس شعر کی تکلیم میں اگر ذرا بلندی پر جا کر اس جھیل کو دیکھا جائے تو یہ ایک آنسو کی شکل اختیار کیے نظر آتی ہے ۔جیسا کہ ایرانی شہزادہ ایک پری کا عاشق تھا اور وہ اس کی خاطر ادھر کے علاقوں میں آیا تھاتو شاید اس پری کی غم میں یہاں کے چھوٹے چھوٹے پہاڑوں کے بیچ بیٹھ کے روتا رہا ہو گا اور وہ اس کے غم میں شریک ہونے کے لیے اور اس کا دکھ نا دیکھ پاتے ہوئے خود بھی رو دیے ہوں گے ۔آنسو جھیل انھی کے مداوائے غم میں تخلیق پاگئی۔جن علاقوں کو جنّت سمان کہنے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ اس کے دل میں بہنے والے جھرنا در جھرنا دریا کو کنہار کہا جاتا ہے۔اس کا اُتار پاکستان کی ایک پسلی میں بہتی جھیل لولوسر سے شروع ہوتا ہے اور یہ انزال ملکہ پربت سے سیف الملوک جھیل اور مکڑا چوٹی سمیت وادیءکاغان کے چرنوں کو چھوتا دریائے جہلم کے بازوو¿ں میں ہانپ کر آن گرتا ہے ۔ یہ دریائے کنہار کی خاصیت ہے کہ اس میں ٹراؤٹ مچھلی جس کو بہت نفیس گرد انا جاتا ہے ، پائی جاتی ہے۔ اس دریا کے ساتھ ایک اور خوبی بھی ہے جو سڑک کی صورت اس سے جڑی ہوئی ہے،یہ سڑک بالاکوٹ تک جانے کے لیے ایک دلنشیں ہمنشیں کا سا ساتھ دیتی ہے۔اس کا پانی جب جب بھی کناروں سے لپٹی چٹانو ںسے ٹکراتا ہے ایک کمال کی خوبصورتی سے مزیّن منظر ابھرتا ہے اور ابھر کر آنکھوں کے سامنے پھیل جاتا ہے۔لیکن یہی خوبصورتی کی لپیٹوں سے پھیلتا منظر کمزور دلوں کے لیے خوف ناکی سے خالی نہیں ہوتا .ناران میں بجلی شاید صرف سرکاری اداروں تک ہی محدود ہے۔ تمام ہوٹلوں میں جنریٹر ہی استعمال ہوتے ہیں۔ موبائل کوریج بھی صرف ناران تک ہی محدود ہے۔ آپ ناران سے کچھ آگے نکل جائیں تو موبائل کوریج بالکل ختم ہو جاتی ہے-

جھیل سیف الملوک ، وادی ءکاغان میں قدرت کا ایک چشمہ ہے جس سے حسن اور خوبصورتی پھوٹتے ہیں ۔ ان سے جسم کے ہر ہر انگ کو تر کرنے کو ایک ایک ذی روح کی خواہش تڑپ تڑپ جائے جو اس کی خوش منظری سے واقف ہو جائے۔پاکستان کی اگر خوبصورتی کا جھومر جھیل سیف الموک کو قرار دے دیا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر قدرت مہربان ہوتی ہے تو وہ انتہا نہیں بے انتہا کر دیتی ہے۔اور وہ بے انتہائی جھیل سیف الموک کے حسنِ بے بہا پر خوب برتی ہوئی نظر آتی ہے۔جھیل سیف الموک تقریباً 10578 فٹ یعنی تقریباً 3224.2 میٹرکی بلندی پر خود کو پسارے ہے۔یہ قصبہ ناران جو وادی ءکاغان ہی کا حصّہ ہے ، سے قریب ہے۔مگر سیاح کی تعداد میں ھونے والے اضافہ سے اسکی خوب صورتی متاثر ھو رہی ھے کیونکہ صفائی کا معیار گرتا جا رہا ھے گندگی میں اضافہ ھو رہا ھے -

میاں محمد بخش کا اس کے ساتھ ان محبت کے ادوار میں سے ایک دور جڑتا ہے جس نے اُن سے سیف الموک جیسی ایک لافانی داستان رقم کرا دی ۔اور اس داستان میں وہی حسن چلتا پھرتا ایک اور ہی لہک دہک کے ساتھ سامنے آتا ہے ۔ اس داستان میں شہزادہءفارس سیف الموک نامی پری کا عاشق ہو جاتا ہے جو اپنی تجلیّوں کو پورے چاند کی رات میں اس جھیل پر آن بکھیرتی تھی۔ایک تو وہ پری تھی دوسرا اس کا نام سیف الموک تھا اور اس پہ مستزاد میا ں محمد بخش کا شاعرانہ تکلُّم ،کیسا ایک چاند تراش کے سرزمینِ وادی ءکاغان پہ ٹانک دیا گیا.
بابو سر (Babusar Pass) یا بابو سر ٹاپ (Babusar Top) وادی کاغان کے شمال میں 150 کلومیٹر (93 میل) طویل ایک پہاڑی درہ ہے جو چلاس کو شاہراہ قراقرم سے ملاتا ہے۔ یہ وادی کاغان کا بلند ترین نقطہ بھی ہے۔اسکی بلندی تقریباً 13700 مٹیر ھے.ناران سے بابوسر ٹاپ جانےوالا راستہ بھی برف سے ڈھک ھوا ھے تقریباً اس راستہ پر سفر کرنا کسی ایڈونچر سے کم نہیں۔یہاں آکر ہمارے دو دن مکمل ھوۓ اور یہاں کچھ دیر قیام کرنے اور پاکستان تحریک انصاف کے چلنے والے گانوں نے نوجوان کے لہو کو خوب گرم کیا سارے سفر میں سجاد بھائی کی خاموشی, عتیق بھائی کی میٹھی گفتگو,عمران بھائی کے مزاح,اور سعید بھائی کے کھانوں نے سفر ؤ سیاحت کا مزا دوبالا کر دیا.....

اگلی منزل ہماری ھے چلاس سے گزرتے ھوۓ ضلع استور گلگت بلتستان...... جاری ھے
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462168 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More