امریکی نسلی برتری تعصب .....نخوت وتکبر

اب معاملہ چند افراد یا کسی گروہ تک محدود نہیں رہا تھا۔ جمہوریت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے وعدے کے ساتھ قائم کیے جانے والے ملک کو استعماری اور نوآبادیاتی قوت میں تبدیل کرنے کا سوچا جارہا تھا۔ ملک کو حقیقی استعماری قوت میں تبدیل کرنے کی باتیں اب واشنگٹن کے ایوانوں میں بھی گونجنے لگیں۔ پھر یہ ہوا کہ پوری کی پوری قومی سیاست اِسی ایک مقصد کے گِرد گُھومنے لگی۔ یہ گویا اِس امر کی طرف واضح اشارا تھا کہ امریکا جس مقصد کے تحت معرض وجود میں لایا گیا ہے اُسے بُھلا کر اب اُسی راہ پر گامزن ہونا ہے جس کی منزل انتہائی طاقتور حکمرانی ہے۔

۱۸۹۴ء میں ریاست کنیکٹیکٹ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اورویل پلیٹ نے کہا۔ ’’میں اِس بات پر پوری طرح یقین رکھتا ہوں کہ ہمیں جب بھی اپنی سلامتی یا کاروباری معاملات کی توسیع کیلئے ملک سے باہر زمین کی ضرورت پڑے تو بلا تاخیر اور ضرورت کے مطابق زمین پر قبضہ کرلینا چاہیے ‘‘۔

اورویل پلیٹ نے جو کچھ کہا وہ محض اُس کی ذاتی رائے یا خواہش کا عَکّاس نہ تھا۔ امریکا میں ایک ایسا گروپ پروان چڑھ چکا تھا جو انتہائی طاقتور تھا اور ریاستی قوت میں ناقابل یقین حد تک اضافہ کرکے آس پاس کی ریاستوں کو ہڑپ کرنے کے ساتھ ساتھ دور اُفتادہ ممالک کے خلاف بھی جنگ چھیڑنے کی خواہش رکھتا تھا۔
امریکا کے قائدین نے جو کچھ سوچ رکھا تھا اُسے ٹھوس حقیقت کی حیثیت سے سامنے لانے کیلئے بہت بڑے پیمانے پر ایسے اقدامات بھی درکار تھے جن میں کہیں کوئی بڑی خامی یا جھول نہ ہو۔ امریکا کو حقیقی استعماری قوت بنانے کیلئے لازم تھا کہ اُس کی بحری قوت غیر معمولی ہو اور اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے دنیا بھر میں کہیں بھی تیزی سے کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ یہ کام کسی ایسے انسان کی نگرانی اور قیادت ہی میں ممکن بنایا جاسکتا تھا جس میں غیر معمولی جوش اور بھرپور جذبہ ہو۔ امریکی بحریہ کو عالمی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ذمہ داری تھیوڈور روز ویلٹ کو سونپی گئی۔ اور اُنہوں نے اس ذمہ داری سے بطریق احسن عہدہ برآ ہونے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔

تھیوڈور روزویلٹ نے ۱۸۹۷ء میں کہا تھا۔ ’’میں کسی بھی ملک سے اور کسی بھی سطح پر جنگ کا خیر مقدم کروں گا۔ میں پورے اعتماد اور احساسِ ذمہ داری سے یہ بات کہتا ہوں کہ اِس ملک کو جنگ کی ضرورت ہے‘‘۔
تھیوڈور روزویلٹ نے جو کچھ کہا وہ محض اُن کا ذاتی بیان نہ تھا بلکہ بہت حد تک ریاستی پالیسی کا آئینہ دار تھا۔ روزویلٹ کوئی عام آدمی نہ تھے کہ کوئی بات کہتے اور توجہ نہ دی جاتی۔ اُنہیں اندازہ تھا کہ جنگ کو پسند کرنے کی ذہنیت سے متعلق بیان دے کر اُنہوں نے کس کی ترجمانی کی ہے۔ وہ اُسی طبقے سے تعلق رکھتے تھے جو امریکا کو کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی حالت میں دُنیا کے طاقتور ترین ملک کے روپ میں دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ جو لوگ امریکا کو دنیا پر حکمرانی کے قابل ریاست بنانے کی راہ پر گامزن ہوئے تھے اُنہیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ طاقت کے حُصول کا راستہ دوسروں کی طاقت میں کمی کی طرف جاتا ہے۔ کوئی طاقتور اُسی وقت ہوتا ہے جب کوئی اور کمزور ہوتا ہے۔ ہر دور میں چند ممالک نے منظّم ہوکر اپنی طاقت میں اضافہ اُسی وقت ممکن بنایا ہے، جب بہت سے دوسرے ممالک کو شدید کمزوری سے دوچار کیا گیا۔ اور معاملہ دوسروں کو کمزور کرنے تک محدود نہیں ۔ اپنے آپ کو طاقتور رکھنے کیلئے دوسروں کا مستقل کمزور رکھنا بھی ناگزیر ہے۔ جب کسی ریاست کو زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنا ہو تو اُس کی پالیسیوں میں بھی یہ مقصد واضح طور پر در آتا ہے۔ امریکا نے ہر دور میں اپنی طاقت بڑھانے کو ترجیح اور ایسا کرنے پر توجہ دی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ خارجہ اُمور اور دفاع سے متعلق اُس کی تمام پالیسیاں کہیں نہ کہیں عسکری مہم جُوئی جاری رکھنے کو بنیادی مقصد قرار دینے پر مبنی رہی ہیں۔

جو لوگ امریکا کو استعماری قوت میں تبدیل کرنا چاہتے تھے اُن کیلئے ناگزیر ہوگیا تھا کہ اپنے عزائم کو مکمل عملی شکل دینے کیلئے ایسی باتیں کُھل کر کریں جن سے لوگوں کا ذہن جنگِ آزادی کے دوران سامنے والے آئیڈیلز سے ہٹ جائے۔ یہ کوئی ایسا کام نہ تھا کہ ایک آدھ کوشش سے یا راتوں رات ہو جاتا۔ لوگوں کے ذہنوں کو مُسخّر کرنا اور اُن کی سوچ میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی لانا محنت طلب کام تھا۔ امریکی قائدین نے اہلِ وطن کے ذہن تبدیل کرنے کیلئے بھی جامع اور بے داغ قسم کی منصوبہ بندی کی۔ آزادی سے وابستہ تمام تصورات یا آئیڈیلز کو رفتہ رفتہ ذہنوں سے دیس نکالا دیا گیا اور ایک ایسے امریکا کا خواب آنکھوں میں سجایا گیا جو دُنیا کو بہت کچھ دینا چاہتا تھا، ’’تہذیب‘‘ سکھانا چاہتا تھا اور جس کی مساعی کے بغیر یہ دُنیا رہنے کے قابل نہیں ہوسکتی تھی!

جنگ کو ناگزیر قرار دینے پر اِس قدر زور دیا جانے لگا کہ ایک عام امریکی بھی یہی سوچنا لگا کہ اقوامِ عالم میں اپنی دھاک بٹھانے اور کچھ کر دکھانے کیلئے عالمی سیاست و اقتصادیات کو اپنی مرضی اور ضرورت کے سانچے میں ڈھالنا ناگزیر ہے۔ اور یہ کہ ایسا کرنے کیلئے جنگ کی راہ سے ہوکر گزرے بغیر چارہ نہیں۔تھیوڈور روزویلٹ کو دوسری اقوام پر جنگ مُسلّط کرنے کے معاملے میں زیادہ انتظار کی زحمت بھی نہیں اُٹھانا پڑی۔جس زمانے میں امریکی قائدین نے استعماری قوت بننے کے بارے میں اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا تب برطانیہ، فرانس، پرتگال اور اسپین کا شمار بڑی نوآبادیاتی قوتوں میں ہوتا تھا۔ اِن یورپی ممالک نے ایشیا، افریقا اور جنوبی امریکا میں بہت کچھ اپنی مُٹّھی میں کر رکھا تھا۔ امریکا چاہتا تھا کہ چند ایک ممالک اُس کی مُٹّھی میں بھی آجائیں۔ یہ، ظاہر ہے، ایسا آسان تو نہ تھا کہ محض سوچنے سے ہوجاتا۔ امریکا کو استعماری سُپر پاور میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھنے والوں کو بھی اندازہ تھا کہ کسی بھی خطے میں عسکری مہم جوئی کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ نوآبادیاتی قوت بننے کا عمل لوہے کے چنے چبانے جیسا تھا۔ لازم تھا کہ ہر معاملے کے تمام پہلوؤں کا عمیق جائزہ لے کر جامع حکمتِ عملی اپنائی جائے تاکہ ناکامی کے امکان کو زیادہ سے زیادہ کم کیا جا سکے۔
پہلے مرحلے میں امریکیوں نے ایسے خطوں کی طرف دیکھنا شروع کیا جہاں کمزوریاں تھیں۔ یہ وہ علاقے تھے جہاں یورپی نوآبادیاتی قوتیں زیادہ مستحکم اور بہتر حالت میں نہ تھیں۔ اسپین کیلئے اپنی قوت برقرار رکھنا انتہائی دُشوار ثابت ہو رہا تھا۔ وہ اندرونی کمزوریوں کے باعث بیرونی سطح پر بھی اپنی کمزوریوں کو دُنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پارہا تھا۔ ایسے میں امریکیوں نے ہسپانوی نوآبادیات پر نظریں جمانا شروع کردیا۔ جن ہسپانوی نوآبادیات پر امریکی قائدین کی رال ٹپکی اُن میں کیوبا اور فلپائن سب سے نمایاں تھے۔ یُوں امریکی قائدین نے اپنے ملک کو استعماری قوت میں تبدیل کرنے کے پہلے مرحلے میں اسپین کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اسپین میں باغی فوجیں الگ ریاست قائم کرنے کیلئے لڑ رہی تھیں۔ یہ تو امریکا کیلئے ’’اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں‘‘ جیسا معاملہ تھا۔ امریکی قائدین نے صورت حال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہسپانوی باغیوں کا دامن تھام لیا۔ اسپین کے باغی امریکا کیلئے بہترین حلیف ثابت ہوئے۔ جب امریکا نے ہسپانوی باغیوں کو گلے لگایا تو ہسپانوی حکومت اور فوج کمزور ہوتی چلی گئی۔ اسپین کی نوآبادیات میں بھی آزادی کی لہر اُٹھی۔ اندرونی شکست و ریخت اور کمزور سیاست و معیشت کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اسپین تیزی سے جنگ ہار گیا۔ اِس پر دنیا کو کم ہی حیرت ہوئی۔

اسپین کو ہرانے کے بعد امریکا کو اپنے عزائم بے نقاب کرنے میں کچھ بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ امریکی قیادت نے اعلان کیا کہ فتح حاصل کرنے کے بعد اب امریکی فوجی فلپائن سے آسانی سے نہیں ہٹیں گے۔ یہ اِس بات کا اعلان بھی تھا کہ امریکا نے استعماری قوت بننے کا صرف ارادہ نہیں کرلیا بلکہ اُس پر عمل کرنے کی لگن اور بھرپور سَکت بھی رکھتا ہے۔

فلپائن کو زیرِ نگیں کرنے کے بعد انڈیانا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر البرٹ بیورج نے کہا۔ ’’اب فلپائن ہمیشہ کیلئے ہمارا رہے گا۔ اور فلپائن سے ذرا سا آگے چین کا بہت بڑا بازار ہے۔ ہم بحرِ اوقیانوس کے کنارے رہتے ہیں مگر اب بحرالکاہل ہی ہمارا بحر ہے۔ جو طاقت بحرالکاہل پر راج کرے گی پوری دنیا پر اُس کا غلبہ قائم ہوگا۔ اب بحرالکاہل پر اقتدار کی لگام ہمیشہ امریکا کے ہاتھ میں رہے گی‘‘۔

البرٹ بیورج نے جو کہا اُس میں نیا کچھ بھی نہیں تھا۔ دنیا کو اندازہ تو ہو ہی چکا تھا کہ اب امریکا عسکری مہم جوئی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے دائرۂ اثر میں لینے کی تیاری کر رہا ہے۔ تمام کمزور ممالک کو انتہائی بُرے حالات کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا تھا۔ یُوں بھی یہ اُن کیلئے بالکل نئی صورت حال نہ تھی۔ وہ استعماری قوتوں کو بھگتتے آئے تھے۔ فرق صرف اِتنا تھا کہ اب کے استعماری قوت کا تعلق یورپ سے نہیں تھا۔
نو آبادیاتی نظام کے احیاء کی باتیں کی جانے لگیں۔ واشنگٹن چونکہ دارالحکومت تھا اِس لیے وہاں بھی اِن باتوں کا پھیلنا غیر فطری اور حیرت انگیز نہ تھا۔ نوآبادیاتی نظام کا جواز پیش کرنے کیلئے نسل پرستی اور دیگر عِلّتوں پر مشتمل نظریات پیش کیے جانے لگے۔ اور اِن نظریات کو واشنگٹن میں کُھلے دِل سےباہیں پسار کر قبول کیا جانے لگا۔ سفید فام امریکیوں کی ذہن سازی کی جارہی تھی۔ اُنہیں ایک ایسے دور کیلئے تیار کیا جارہا تھا کہ جس میں امریکا کو طاقت کے فقید المثال استعمال کے ذریعے بہت کچھ الٹنا اور پلٹنا تھا۔ اِس معاملے میں نسل پرستی کو ذہن سازی کے حوالے سے ہتھیار کے طورپر استعمال کیا گیا۔ سفید فام امریکیوں کے ذہنوں میں یہ بات پوری شِدّت سے ٹھونس دی گئی کہ حکمرانی صرف اُن کا حق ہے اور ہر معاملے میں قائدانہ کردار قُدرت نے صرف اُن کے مقدر میں لِکھ دیا ہے۔

انڈیانا کے سینیٹر البرٹ بیورج نے کہا۔ ’’ہم جس نسل سے تعلق رکھتے ہیں اُسے دنیا پر راج کرنا ہے۔ ہمیں یہ مشن خدا نے سونپا ہے اور ہماری نسل اِس مشن کو کبھی نہیں بھولے گی۔ اِس دنیا پر کسی کو تو، بلا شرکتِ غیرے، حکمرانی کرنا تھی اِس لیے خدا نے ہمیں منتخب کیا ہے۔ خدا ہی نے ہم میں پوری دنیا پر حکمرانی کرنے کی صلاحیت پیدا کی ہے اور ہمیں دنیا کے ہر خطے پر راج کرنے کا ہُنر سکھایا ہے۔ اب ہم وحشی، غیر مہذّب لوگوں پر قابو پانے کی صلاحیت اور سکت بھی رکھتے ہیں‘‘۔

البرٹ بیورج کے الفاظ میں وہی دعویٰ ہے جو یہودی آج تک کرتے آئے ہیں یعنی یہ کہ وہ خدا کے پسندیدہ ترین بندے ہیں اور اُنہیں اِس دارِ فانی پر حکمرانی کا حق حاصل ہے۔ البرٹ بیورج نے سفید نسل کے بارے میں یُوں رائے دی ہے جیسے وہ حرفِ آخر ہو۔ سفید فام نسل کو باقی دنیا سے بہتر اور افضل قرار دینے کی سوچ ہی نے امریکا کے ہاتھوں اِس قدر بگاڑ کی راہ ہموار کی ہے۔ امریکی قائدین نے جب آزادی کے بعد ذرا حواس بحال کیے تو سفید فام امریکیوں کو یقین دلانا شروع کیا کہ اب اُنہیں صرف امریکا نہیں بلکہ پوری دُنیا پر راج کرنا ہے۔ سفید فام امریکیوں کو یہ یقین دلایا گیا کہ وہ دوسری تمام نسلوں اور اقوام سے واضح طور پر بہتر اور مہذّب ہیں۔ یعنی یہ کہ اُنہیں باقی دنیا کو سکھانا ہے کہ بہتر زندگی کس طور بسر کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔

البرٹ بیورج نے سفید فام امریکیوں کو برتر نسل ہونے کا یقین دلانے کیلئے خدا کا حوالہ دینا بھی ناگزیر جانا تاکہ سفید فام امریکیوں کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوجائے کہ یہودی نہیں بلکہ وہ خدا کے پسندیدہ اور منتخب بندے ہیں۔ آخر میں البرٹ بیورج نے صرف سفید فام امریکیوں کو مہذّب اور باقی سب کو وحشی اور غیر مہذّب قرار دے کر گویا قلم توڑ کر رکھ دیا ہے! اِن الفاظ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ امریکی قائدین بیشتر اور بالخصوص سفید فام امریکیوں کے ذہنوں میں کیا ٹھونسنا چاہتے تھے۔ اور یہ کہ ایسا کرنے کا کیا نتیجہ برآمد ہوا۔ ذہنوں میں کجی پیدا کرنے ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہےکہ آج امریکی پالیسیوں میں خود کو برتر سمجھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو کمتر، جاہل اور غیر مہذّب سمجھنے کا احساس ممکنہ شِدّت کے ساتھ پایا جاتا ہے۔

ایسا کیونکر ہوسکتا ہے کہ کسی ملک یا علاقے پر بیرونی افواج حملہ کریں اور کوئی مزاحمت ہی نہ کی جائے یعنی حملہ آوروں سے مرعوب ہوکر خاموشی اختیار کی جائے۔ انتہائی کمزور اقوام بھی تھوڑی بہت مزاحمت تو کرتی ہی ہیں۔ فلپائن کے لوگ سینیٹر البرٹ بیورج اور اُن کے معتقدین کی باتوں کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ وہ یہ بات کیوں گوارا کرتے کہ اُن کے ملک پر حملہ کیا جائے، اُن کی سرزمین پر قبضہ کرلیا جائے؟

جب امریکی فوج نے فلپائن پر لشکر کشی کی تو اُسے ویسی ہی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جیسی مزاحمت کا سامنا اسپین کی فوج کو کرنا پڑا تھا۔ امریکی افواج نے جب یہ دیکھا کہ مزاحمت کاروں پر قابو پانا اور اُنہیں اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا ممکن نہیں تو اُنہوں نے فلپائن میں مزاحمت کچلنے کیلئے غیر معمولی حد تک طاقت استعمال کی۔ امریکا کی یہ روش کسی بھی اعتبار سے قابل قبول قرار نہیں دی جاسکتی تھی۔ اِس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہوا، پورا ملک شدید عدم استحکام کی نذر ہوا، معیشت اور معاشرت دونوں کا سبھی کچھ الٹ پلٹ کر رہ گیا۔ اور فلپائن کے لوگوں کو بالآخر امریکا کی غیر معمولی طاقت کے سامنے سَر جُھکانا پڑا۔ امریکی فوجیوں کو حکم دیا گیا کہ سب کو جلادو،سب کومارڈالواوراُنہوں نے اِس حکم کی تعمیل کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ جو بھی ہاتھ آیا اُسے موت کے گھاٹ اتارنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی گئی۔ جب فلپائن کی فوج نے ہتھیار ڈالے تب تک چھ لاکھ سے زائد فلپائنی مارے جاچکے تھے۔ ملک تباہ ہوچکا تھا۔ معیشت کا کچھ ٹھکانہ نہ تھا، معاشرے میں ایسا عدم استحکام تھا کہ کسی کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ اب کیا کرنا ہے، کس سمت جانا ہے۔ امریکیوں نے طاقت کے زُعم میں فلپائن کا سبھی کچھ برباد کرکے رکھ دیا تھا۔

ہمیں ایسی تصویریں بھی آسانی سے مل سکتی ہیں جن میں امریکی فوجی جنگ میں مارے جانے والے فلپائنی باشندوں کی ہڈیوں کے ڈھیرپر کھڑے بہت فخر سے اپنی فتح کا اعلان اور مسرّت کا اظہار کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ انسانی ہڈیوں کے ڈھیر پر مسرت کا اظہار محض فلپائن تک محدود نہیں رہا۔ امریکیوں نے ہر دور میں ایسے ہی تماشے دکھائے ہیں۔ امریکی افواج نے اپنے خطے میں اوراُس سے باہرجہاں بھی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے، اُس کی کوشش رہی ہے کہ اہلِ جہاں کواُس کی بھرپور طاقت کا بخوبی اندازہ ہوجائے۔ اِس مقصد کے حُصول کیلئے کمزور اور نہتّے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جبر کا نشانہ بنانا اُس کا مطمحِ نظر رہا ہے۔

امریکی فوج کی طرف سے طاقت کا بے دریغ اور بے لگام استعمال بالآخر کئی ممالک کی آزادی سلب کرنے کا سبب بنا۔ جو ملک آزادی، حقوق اور جمہوریت کے عظیم ترین آئیڈیلز کو حقیقی شکل دینے کیلئے دُنیا کے نقشے پرنمودارہواتھا اورجس کے بنیادی مقاصد میں اِنسان کی رفعت سرِفہرست تھی اُسی نے دُنیا کانظام تہس نہس کرنے اورمعاشروں کو تلپٹ کرنے والی استعماری قوت کی شکل اختیار کرلی۔ امریکی قائدین طاقت کے اظہار کا جو کھیل جاری رکھنا چاہتے تھے اُس کا دائرہ کچھ اپنے خطے تک محدود نہ تھا۔ کیوبا تو پڑوس ہی میں تھا۔ اُسے دبوچنے کے بعد فلپائن کو مُٹّھی میں کیا گیا۔ پھر تو یہ معاملہ طول پکڑتا چلا گیا۔ ۱۸۹۸ء میں فلپائن، پورٹوریکو اور گوام امریکی نوآبادی میں تبدیل ہوئے۔ دوسری طرف کیوبا کو رسمی طور پر آزادی دی تو گئی مگر اِس سلسلے میں چند شرائط عائد کی گئیں۔ سب سے اہم شرط یہ تھی امریکی فوج پلیٹ امینڈمنٹ کے تحت کیوبا کی سرزمین پر اپنا اڈّا ہمیشہ رکھے گی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ امریکا کیوبا میں اپنی فوج رکھے گا اور اُس کی دفاعی اور خارجہ پالیسی امریکا ہی تشکیل دے گا۔

ادھرقسمت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ نسلی برتری کے زعم میں برترامریکاکوبالآخرافغان مجاہدین نے خاک چاٹنے پرمجبورکردیااوراب انہی طالبان کے ساتھ خودمذاکرات کیلئے بیتاب ہورہا ہے۔ وسطی اورجنوبی ایشیا کیلئے امریکی سفیر ایلس جی ویلز نےافغان حکومت اور طالبان کے درمیان عید الفطر کے موقع پر جنگ بندی اور ممکنہ بات چیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکا یہ واضح کر چکا ہے کہ ہم افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کی حمایت، اس میں شامل ہونے اور اس میں مدد دینے کیلئے تیار ہیں، ہم افغان حکومت اور تمام فریقین کی حمایت کریں گے تاکہ وہ بات چیت کے ذریعے باہمی معاہدے پر پہنچ سکیں جس سے تنازعے کا خاتمہ ہو اور اس بات کویقینی بنانے کیلئے کہ افغانستان دوبارہ کبھی دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بنے‘‘۔امریکی سفیرنے عیدکے موقع پر تین روزہ جنگ بندی کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’تقریباً 16 برس سے زیادہ کی جنگ کے بعد ہم نے رواں برس امن بات چیت کے حوالے سے منفرد حقیقی موقع دیکھا جس کے نتیجے میں اس تنازع کاپائیدارحل نکل سکتا ہے اور اس طرح کے معاہدے کے نتیجے میں امریکا کے ضروری مفادات کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے اور بلآخر افغانستان میں ہماری طویل مدتی مصروفیات سے منسلک اخراجات کو کم کیا جا سکے گا‘‘۔

امریکی خصوصی سفیر نے طالبان پر زور دیا کہ وہ لازمی تشدد کو ترک کریں، القاعدہ سے تعلقات ختم کریں اور افغانستان کے آئین کو تسلیم کریں جس میں خواتین اور اقلیتوں کا تحفظ شامل ہے۔ امریکا کی خصوصی سفیر نے کہا کہ افغانستان میں تنازع کے خاتمے کیلئے چار نکات پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔

۱۔افغان حکومت کی تشدد میں کمی کے حوالے سے کوشش کی حمایت کرنا اور امن بات چیت کو نقصان پہنچانے والوں سے تحفظ فراہم کرنا۔
۲۔دوسرا ہم افغان سیاسی منظر نامے میں شامل سب کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ امن کی حمایت کریں اور آئندہ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں ملکی مفادات کو اوّلین رکھیں۔
۳۔عسکریت پسندی کی حمایت کی بیخ کنی کیلئے افغان حکومت کی اصلاحات کی حمایت کرنا۔
۴۔ہم افغانستان کے تمام ہمسایہ اور قریبی ہمسایہ ممالک سے بات چیت کر رہے ہیں تاکہ افغان حکومت کے امن کے تصور کیلئے علاقائی حمایت حاصل کی جا سکے اور اس کو نقصان پہنچانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔

امریکی سفیر ایلس جی ویلز کے بیان پر بات کرتے ہوئے افغان امور کے تجزیہ کار وں نے خدشہ ظاہرکیاہے کہ افغان طالبان کی جانب سے حالیہ تین روزہ جنگ بندی کے بعد بھی امن بات چیت کے بارے میں کوئی زیادہ پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئے گی اگرچہ حالیہ جنگ بندی کے دوران جس طرح سے عام عوام نے طالبان جنگجوؤں کا شہروں میں استقبال اور خیرمقدم کیا ہے اس سے ان پر اخلاقی دباؤ بڑھا ہوگا لیکن امن بات چیت شروع کرنے کامعاملہ بہت پیچیدہ ہے کیونکہ اگر حالیہ جنگ بندی کی بات کی جائے تو اس پر بھی طالبان قیادت کے افغان حکومت کو سرے سے اس معاملے میں فریق سمجھتے ہی نہیں ہیں اور اگر ایسا کرتے ہیں تو ان کیلئے اپنے لوگوں کو مطمئن کرنا کافی مشکل ہو گا کیونکہ یہ سابق سربراہ ملا عمر اور ملا منصور اختر کی سوچ کے بالکل متضاد ہو گا۔ افغان طالبان حکومت کے ساتھ اس وقت بات چیت کرنے پر تیار نہیں لیکن وہ امریکا کے ساتھ مشروط بات چیت کیلئے تیار ہو سکتے ہیں اور اس کیلئے وہ امریکا سے چاہتے ہیں کہ انہیں پہلے یہ بتایا جائے کہ کیا امریکا افغانستان سے جانا چاہتا ہے اور کب جانا چاہتا ہے۔ حالیہ دنوں میں طالبان کے بارے میں امریکی رویے میں دکھائی جانے والی نرمی کے بارے میں سوال کے جواب میں دفاعی تجزیہ نگاروں کاکہناہےکہ افغان طالبان اس ضمن میں بعض مغربی ممالک اوراقوام متحدہ سے تحریری ضمانت طلب کریں گے جس میں امریکاافغانستان سے انخلاء کاباقاعدہ ٹائم ٹیبل دے اورجزوی طورپراپنی افواج کوبھی افغانستان سے نکالنے کاعمل شروع کرے کیونکہ طالبان ٹرمپ کی ہیجانی شخصیت پراعتبارکرنے کو قطعی تیارنہیں کیونکہ ٹرمپ کاایرانی نیوکلیر معاہدے کو یکطرفہ طورپرختم کرنااورایران پرنئے سرے سے عالمی پابندیاں لگانے کی کاوشوں کواقوام عالم میں امریکی ساکھ کویقیناًایک شدید دھچکالگاہے۔اب امریکاکے اندربھی افغانستان میں جاری جنگ کے حوالے سے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے کہ وہاں پر کیا ہو رہا ہے اور امریکی افواج کے لواحقین کابحی صبرکاپیمانہ لبریز ہوچکاہے۔

اسی بارے میں تین ماہ پہلے امریکاکی افغانستان میں موجودگی پرسوالات اٹھانے والے ایک امریکی سینیٹر کو طالبان نے قطرمیں قائم اپنے دفترمیں دعوت بھی دی تھی۔اس کے علاوہ امریکا کے جنگ پرہونے والے اخراجات ایک طرف تورواں برس اکتوبرمیں یہ جنگ 18ویں برس میں داخل ہو جائے گی لیکن اب طالبان پشتون علاقوں سے نکل کردیگرعلاقوں تک پھیل گئے ہیں۔ مغربی سیاسی ودفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق’’افغانستان میں طالبان کااثرورسوخ کم ہونے کی بجائے بڑھاہے جبکہ روس،چین،ایران،پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک سیاسی حل پر زوردے رہے ہیں اوران تمام معاملات کی وجہ سے امریکا پربات چیت کیلئے دباؤ بڑھ رہا ہے‘‘۔
پہلی مرتبہ امریکاکے کئی تھنک ٹینکس کے مطابق یہ بیان سامنے آیاہے کہ’’یہ کہنادرست نہیں ہے کہ ان کے پاکستان میں محفوظ ٹھکانے موجودہیں۔ پاکستان کہتاآیاہے کہ ملک میں موجود اگرافغان مہاجرین کامعاملہ حل کرلیاجائے تویہ مسئلہ حل ہوسکتاہے۔ دوسرادونوں ممالک کے درمیان 2600 کلومیٹرطویل سرحدکی وجہ سے لوگوں کی نقل وحرکت ہوتی ہے جس کوپوری طرح سے روکنا بھی ممکن نہیں ہو سکتا،اس میں شک نہیں کہ امریکا پہلے بھی متعدد بار افغان طالبان حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانوں کے الزامات عائد کرچکاہے لیکن کچھ عرصہ پہلے سابق مشیرخارجہ سرتاج عزیزخودکہہ چکے ہیں کہ افغان طالبان کے خاندان پاکستان میں موجود ہیں۔ ‘‘

تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں موجودگی،سرحدوں پرکنٹرول،افغان مہاجرین سے پاکستان کی مشکلات اورافغانستان سے پاکستان کے تعلقات،ایسے چاراہم نکات ہیں جن پرپاکستان کی شکایت کوامریکانے جائزقراردیاہے اوران کورفع کرنے کاعندیہ دیاہے۔ وائٹ ہاؤس میں دودن قبل ہونے والی ایک بریفنگ میں جنوبی اوروسطی ایشیائی امورکے بیوروکی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری ایلس جی ویلز نے افغانستان میں قیام امن میں پاکستان کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ امریکی وزارتِ خارجہ پاکستان سے باہمی تعلقات بہتر کرنے کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ چند مہینوں میں پاکستان اور امریکا کے درمیان مختلف وفد کا تبادلہ ہوا ہے جن کا مقصد کسی معاہدے پر پہنچنے کیلئے طریقہ کار وضع کرنا ہے تاکہ باہمی تعلقات کو بہتر کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا:ہم اس عمل کی حمایت کرتے ہیں اوراسے بہت اہم سمجھتے ہیں۔یہ بیان ایلس جی ویلز نے بھارت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے نامہ نگار کے سوال کا جواب میں دیا۔ پی ٹی آئی کے نامہ نگار نے افغانستان کے امن عمل میں پاکستان کی اہمیت کے بارے میں سوال کرتے ہوئے انڈین حکومت کی روایتی دشمنی کا اظہارکرتے ہوئےکئی بار کہی گئی بات دہرائی کہ کیا امن اوردہشتگردی ایک ساتھ چل سکتے ہیں؟جس کے جواب میں ایلس جی ویلز نے کہاکہ’’ افغانستان کے امن میں پاکستان کابہت اہم کردارہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان یقینی طورپر مذاکرات کرانے میں مددکرسکتاہے اورایسے اقدامات کرسکتاہے جن سے طالبان پردباؤبڑھے اور وہ سیاسی عمل کے ذریعے کسی حل پر پہنچنے کیلئے تیارہوسکیں‘‘۔ایلس جی ویلزنے پاکستان اور امریکاکے درمیان حالیہ روابط کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا’’ہم پاکستان سے رابطوں میں یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہم ایک دوسرے کے ساتھ کیسے کام کر سکتے ہیں؟ پاکستان کی جائز شکایات کوکیسے دور کر سکتے ہیں اور کیونکہ ہم اب اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ صرف مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں استحکام لا نے میں کامیاب ہوسکتے ہیں‘‘۔

پاکستان کے رویے میں تبدیلی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ایلس جی ویلز نے کہا کہ ابھی تک پاکستان کے رویے میں فیصلہ کن اور مستقل تبدیلی دیکھنے کے منتظرہیں اور وہ پاکستان کو ان امور میں شریک کرتے رہیں گے جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان تبدیلی لانے کیلئے معاون اورمدد گارکرداراداکرسکتاہے۔

کیا پاکستان کی امداد بندکرنے سے کوئی فرق پڑا؟اس سوال کے جواب میں ایلس جی ویلزنے کہا حکومت پاکستان کے ساتھ ایک عمل شروع کیاہے اوراس سلسلے میں کئی اعلیٰ سطح کے وفود کا تبادلہ ہواہے۔انہوں نے پاکستان کی خارجہ سیکریٹری تہمینہ جنجوعہ(۷مارچ۲۰۱۸) کے دورے کے حوالہ بھی دیاکہ وہ پاکستان سے منہ نہیں موڑرہے ہیں، پاکستان کی سول اورفوجی قیادت سے وسیع مذاکرات ہوں گے جن میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ کس طرح دونوں ملک مل کر کام کر سکتے ہیں لیکن دوسری طرف امریکاکی دوعملی اورمنافقت کا اظہارپاکستان پروہ دباؤہے جہاں وہ"ایف ٹی اے ایف"کے ذریعے پاکستان کودہشتگردقراردینے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے جبکہ پاکستان کی نگران وزیرخزانہ طالبان کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ طالبان کی بعض شکایات بھی جائزہیں جن میں افغانستان میں حکومتی سطح پرپائی جانے والی کرپشن کامسئلہ بھی شامل ہے۔

افغان حکومت اورطالبان کے درمیان جنگ بندی کے بعدکابل سمیت ملک کے دوسرے شہروں میں کئی طالبان آئے اوردودن تک شہروں میں آزادانہ گھومتے رہے۔ بی بی سی پشتو کی نامہ نگار ملائکہ احمدزئی نے کابل پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کے سامنے کے علاقے باغ بالامیں ایک طالبان جنگجولیڈرسے پوچھاکہ آپ کابل میں اپنے ساتھ کیاپیغام ساتھ لے آئے ہیں؟اس کےجواب میں طالب کمانڈرنے کہاکہ’’ہم پاکستان کیلئےنہیں ،ہم صرف خدا کیلئے لڑرہے ہیں،کسی اورکیلئےنہیں۔ ہمیں کوئی فنڈنگ نہیں کررہا،جب تک یہاں امریکاہے،ہم لڑتے رہیں گے۔جب تک افغانستان میں غیر ملکی افواج موجود ہوں گی،اُس وقت تک امن اورصلح کاامکان نہیں ہے‘‘۔ نامہ نگارملائکہ احمد زئی نے پوچھا کہ’’ اب افغان آرمی کے نوجوان آپ کوبھائی کہہ کرمخاطب کرتے ہیں، کیا جنگ بندی ختم ہونے کے بعد آپ لوگ اُن پرگولیاں چلائیں گے؟‘‘اس پر کمانڈرکاکہناتھا’’افغان فوج کے جوجوان غیرملکی فوجیوں کے شانہ بشانہ ہوں گے، طالبان کے حملوں سے وہ نہیں بچ سکتے البتہ ان کیلئے یہ پیغام ہے کہ وہ امریکاکے خلاف ہماری صفوں میں شامل ہو جائیں تاہم امریکی افواج کے جانے کے بعدافغان فوج سے مصالحت ہوسکتی ہے۔‘‘ادھرامن کونسل نے طالبان پرزوردیا تھا کہ وہ دوبارہ جنگ کی جانب نہ لوٹیں لیکن طالبان قیادت نے افغانستان میں عید کے موقع پر جاری تین دن کی جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعدجنگ بندی میں مزیدتوسیع کومستردکردیا اورجنگ بندی کا معاہدہ ختم ہونے کے بعدسکیورٹی فورسز کے خلاف اپنی کارروائیوں کا دوبارہ آغاز کرنے کااعلان کررکھاہے۔گویاوہ وقت اب دورنہیں جب افغان طالبان کاعزم یقیناًامریکی نسلی برتری کے تعصب کوپاش پاش کرکے ایک نئی تاریخ مرتب کرے گا،ان شاءاللہ۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 350322 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.