کیا سیاسی عدم استحکام کا سبب دشنام طرازی کی سیاست

وطن عزیز میں دشنام طرازی کی سیاست قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی شروع ہوگئی تھی قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے چند سال بعد1951سے 1958تک کی پاکستانی سیاست میں اقتدار کی میوزیکل چیئرکے بارے تاریخ کے طالب علم خوب جانتے ہیں اُس دور میں اقتدار کے حصول میں سرگرم سیاسی رہنما جس طرح راتوں رات وفاداریاں تبدیل کرتے رہے وہ بھی ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے لیاقت علی خان کے دور حکومت کو چھوڑ کر اگر سولہ اکتوبر 1951سے سات اکتوبر1958 تک کے سات سال کا ذکر کریں تو چھ وزرائے اعظم نے قلیل مدت کے لئے حکومت سنبھالی ،بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی مدت بطور گورنر جنرل پاکستان ایک سال کے لگ بھگ رہی تاریخ کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کی بھی کمی نہ تھی شاید یہ ہی وجہ تھی کہ قائد اعظم نے کسی جگہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں یہ انہوں نے اپنے سیاسی قائدین کے بارے میں ہی فرمایا تھا انکی وفات کے بعد لیاقت علی خان کی شہادت کیا اس بات کی طرف نشاندہی نہیں کرتی تھی کہ وطن عزیز میں مخلص محب وطن سیاستدانوں کو بطور رہنما قبول کرنا ملک دشمنوں کو کسی صورت قبول نہ تھا لیاقت علی خان کی شہادت کے بعداقتدار کے لئے جو میوزیکل چیئر شروع ہوئی اسکا سلسلہ(1951-2018) 67سال سے جاری وساری ہے البتہ پاکستان کے قیام کے ستر سالوں میں سے نصف عرصہ کے لئے غیر سیاسی حکومتوں کے قائم رہنے سے چند سال تک حکومتی سربراہ تبدیل نہ ہوسکے 1958 میں ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد 1962ء میں ہونے والے الیکشن پہلے بالواسطہ انتخابات تھے اگرچہ ملک میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پہلی مرتبہ 1951میں پنجاب ،سندھ اور سرحد کی صوبائی اسمبلی کے منعقدکروائے جا چکے تھے اور مشرقی پاکستان میں 1954 میں صوبائی سطح پر انتخابات کا انعقاد ہوچکا تھا،20دسمبر 1959میں تین ہفتوں میں بی ڈی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوا اِس میں کامیاب ہونے والے اراکین کی تعداد تقریباََ75283 تھی یہ انتخابات مشرقی اور مغربی پاکستان میں منعقد ہوئے جس میں خواتین اور بلامقابلہ جیتنے والوں کی اچھی خاصی تعدادبھی شامل تھی ،1960میں صدارتی انتخابات ہوئے جن میں ان ہی بی ڈی اراکین نے حق رائے دہی استعمال کیا اور جنرل ایوب خان پاکستان کے صدر منتخب ہوگئے۔ بی ڈی ممبران نے 1962 میں اراکین قومی اسمبلی کا انتخاب کیا جن کی تعداد 156 تھی جن میں چھ خواتین شامل تھیں۔ انیس سو باسٹھ کے آئین کے تحت ایک سو چھپن ارکان پر مشتمل جو قومی اسمبلی تین برس کے لئے وجود میں آئی، اس کا انتخاب عوام نے نہیں بلکہ بنیادی جمہوریتی نظام کے تحت عوامی ووٹ سے بننے والے بیسک ڈیموکریٹس نے کیا بعد ازاں آئین میں ترمیم کرکے اسمبلی کے ارکان کی تعداد دو سو اٹھارہ اور الیکٹورل کالج ( بیسک ڈیموکریٹس) کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک کر دی گئی۔1965میں جنرل ایوب خان اور مادر ملت فاطمہ جناح کے درمیان صدارت کے عہدہ کے لئے مقابلہ ہوا اس میں بی ڈی ممبران نے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے جنرل ایوب خان کوکامیاب کروا دیا جنرل ایوب خان نے نتائج کے مطابق 95فیصد ووٹ حاصل کیے،جو آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ لاکھوں لوگ جلسوں میں مادر ملت فاطمہ جناح کو سننے آتے تھے اورکامیاب ٹھہرے جنرل محمد ایوب خان ۔ سانچ کے قارئین !بات شروع ہوئی تھی ملکی سیاست میں دشنام طرازی سے وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کے ابتدائی سالوں کی بات کرنا اس لئے ضروری سمجھا کہ آپ اورخاص طور پر آج کا نوجوان یہ سمجھ جائے کہ ہم نے اپنے قائد کی بہن اور مادر ملت کا خطاب پانے والی عظیم خاتون کو بھی اپنی بے حسی اور اقتدار کے حصول کیلئے بے یارومدد گار چھوڑتے ہوئے شکست سے دوچار کیا تھا بلکہ عورت کی حکمرانی کیخلاف فتوے بھی جاری کروائے گئے تھے ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان میں 13دن کے لئے بھی ایک وزیر اعظم نورالامین بنایا گیا تھاپاکستان میں دشنام طرازی اور سیاسی ورکروں کو ایک دوسرے کا مخالف ہی نہیں بلکہ دشمن بنانے والاایک دور 1988سے 1999تک کا بھی رہا ہے جب انتہائی قلیل مدت کے لئے دو بڑی پارٹیاں باریاں لینے لگیں اسی دور میں نگران وزیر اعظموں کی بڑی تعداد بھی انتخابات کو فری فیئر کروانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ مل کر کرواتی رہی اِن انتخابات کے نتائج خوش دلی سے کبھی بھی مخالف پارٹی نے قبول نہ کیئے اسی دور میں اپوزیشن پارٹی اور برسر اقتدار پارٹی کے ورکروں میں گالم گلوچ اور جھگڑوں کی اطلاعات عام آتی رہتی تھیں اورمخالفین پر تھانوں میں مقدمات کا انداراج بھی تسلسل کے ساتھ جاری وساری رہا کرتا تھابعض دفعہ سیاسی بحث مباحثہ سے بڑھی بات لڑائی جھگڑوں تک پہنچ جاتی جس میں قیمتی جان کا ضیاع بھی ہوجاتا تھا اُس وقت الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا نہ ہونے کی وجہ سے گالم گلوچ کی فوری اور تیز ترین ڈلیوری نا ممکن تھی آج سوشل میڈیا کی بدولت کسی جماعت سے سیاسی وابستگی پر آپ کے ساتھ کسی دوسری جماعت کوچاہنے والے کی بدکلامی کو صرف آپ اپنے موبائل ،لیپ ٹاپ ،کمپیوٹر کی سکرین تک ہی محدود نہیں رکھ سکتے بلکہ اس میں دنیا بھر سے حمایت اور مخالفت میں تبصروں کا سلسلہ جاری ہو جاتاہے 13جولائی کو سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اپنی بیٹی مریم کے ساتھ لندن سے پاکستان گرفتاری دینے کے لئے پہنچے اِ س سے پہلے چھ جولائی کونیب کی عدالت سے سزا کے بعد الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بعض تجزیہ کاروں ،سینئرصحافیوں ،اور سوشل میڈیا پر پٹواری پٹواری اور گالم گلوچ کی رِیت ڈالنے والوں نے ایسے ایسے تجزیے اور دعوی کیئے کہ خدا کی پناہ ،اس میں حصہ الیکٹرانک میڈیا کے چند سینئرزنے بھی ڈالا وہ یہ بھول گئے کہ اُنھیں سننے اور دیکھنے والے ہر طبقہ فکر کے لوگ ہوتے ہیں نیوز چینلز کے اینکرز،تجزیہ کار اگر خود ہی کسی کی سزا اور جزا کے فیصلے کرنے لگ جائیں تو اُس چینل پرخبروں کی غیر جانبداری مشکوک ہوجاتی ہے نجانے الیکٹرانک میڈیا کی طاقت کو غلط استعمال کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سنجیدہ طبقہ زیادہ دیر کسی کے خلاف یا تنقید برائے تنقید کی باتیں سُن کر اُکتا جاتا ہے اور کسی دوسرے چینل کو ٹیون کر لیتا ہے اگر وہاں معاملہ بھی کسی اور کے حق میں چل رہا ہو تو وہ کسی اور چینل کو دیکھنا اور سُننا شروع کر دیتے ہیں بڑے ادارے کا نام ناظرین سامعین اور قارئین کو متاثر نہیں کرتا آج کل سیاسی برداشت سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے تبصروں ،تجزیوں میں کم ہی ملتی ہے اگر کو ئی غیر جانبداری سے نمائندہ کسی ایونٹ کی کوریج کر رہا ہو تو مخالف جماعت کے لوگ یہ بھی برداشت نہیں کرسکتے فوری کوئی کسی کو پٹواری اور کوئی یوتھیا ،کوئی ڈاکو ،کوئی ڈیزل اور نجانے کیا کیا لکھا جاتا ہے سانچ کے قارئین کرام ! گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں پیغام دینے والاشخص یہ فرما رہا تھا کہ "جب آپ نے کسی دور میں سیاست کرتے ہوئے کسی کی بہن بیٹی ماں کی عزت نہیں کی تو آج اپنے اوپرویساوقت آنے پر بات کرنے سے آپ واویلا کیوں مچا رہے ہیں کیا اُس وقت اخلاقیات کا تقاضا کچھ اورتھا اگر آپ بھی کسی کو عزت واحترام دیتے تو آپ کو بھی آج ضرورملتا "اور آخر میں اخلاقیات اور مکافات عمل پرلیکچر دینے والے محترم بھائی نے مخالف پارٹی کے چاہنے والوں کو اپنی زبان سے بُرا کہتے ہوئے کئی ایک بُرے القابات سے بھی نواز دیا کیا خوب پیغام تھا ۔۔۔یعنی کہ درس اخلاقیات کا دیا جائے اور آخر میں خود ہی مخالفت میں دوسرے کو بُرا کہتے کہتے اخلاقیا ت کا جنازہ نکال دیا جائے پاکستانی سیاست وجمہوریت میں استحکام تو پہلے بھی نہ تھا لیکن جلسوں جلوسوں میں گالم گلوچ سے بات ہوتی ہوئی جدید سائنسی دور میں اب الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پربھی بہن ،بیٹی کے تقدس کو سیاست کی نظر کیا جانے لگا ہے کیا سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پرسیاسی مخالفین کو اپنے تبصروں میں جس طرح کی گالیاں دی جاتی ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسی سیاست کو تبدیلی کہا جاتا ہے ؟؟٭
 

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 129 Articles with 121289 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.