سانحہ مستونگ کےحقائق

جب اپنے ماضی قریب پہ نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت واضح دکھائی دیتی ہے کہ سرزمین پاکستان کے چپے چپے پر دہشت گردوں کے ہاتھوں خون کی ھولی کھیلی گئی۔ مسجدیں، خانقاہیں اور امام بارگاہیں بھی ان کے شر سے محظوظ نہیں رہیں۔ لیکن افسوس کہ عالمی طاقتیں موردالزام بھی ہمیں ہی ٹھہرا کر ہمارے خون کا تماشا کرتی رہیں۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے ریاست پاکستان اور پاک فوج کو بہ یک وقت تین محاذوں پر برسرپیکار ہونا پڑا، عالمی طاقتوں کی سازشوں کو بے نقاب کرنا، ان کے آلہ کار لوگوں کا قلع قمع کرنا اور براہ راست دہشت گردوں سے مقابلہ کرنا۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ہمارے ہزارہا فوجی و سول جوان جام شہادت نوش کرگئے، انہوں نے لازوال قربانیوں سےتاریخ رقم کر کے دہشت گردوں کی سرکوبی کی۔ اب ایک نیا کھیل کھیل کر ہمیں سازشی بھنور میں ھکیلا جا رہا ہے جو بہت ہی خطرناک ہے۔ ویسے تو عرصہ دراز سے بلوچستان کی سرزمین پر غیر ملکی طاقتیں فتنہ و فساد بر پا کر رہی ہیں۔ علیحدگی پسند تنظیموں کو مضبوط کرکے پاکستان کی سالمیت کو داؤ پر لگایا جا رہا ہے۔ مختلف قبائل کو آپس میں لڑا کر امن و امان کے مسائل کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ لیکن اب محب وطن بلوچی راہنماؤں کو قتل کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں بلوچستان کے ضلع مستونگ میں خودکش حملے اور بم دھماکے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما اور حلقہ پی بی 35 سے امیدوار نواب زادہ سراج رئیسانی سمیت دو سو کے قریب افراد شہید کر دیے گئے۔نوابزادہ سراج رئیسانی ایک محب وطن پاکستانی تھے جو 4 اپریل1963 کو ضلع بولان کے علاقے مہر گڈھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق بلوچستان کے رئیسانی قبیلے سے تھا۔سراج رئیسانی کے والد مرحوم نواب غوث بخش رئیسانی سابق گورنر بلوچستان اور سابق وفاقی وزیر خوراک و زراعت بھی رہ چکے ہیں۔ 1970 میں بلوچستان متحدہ محاذ کی بنیاد رکھنا بھی ان کا ہی کارنامہ ہے۔ ان کے صاحبزادے سراج رئیسانی چند سال قبل بلوچستان متحدہ محاذ کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے رواں سال تین جون کو اپنی جماعت کو صوبہ بلوچستان کی فعال سیاسی جماعت "بلوچستان عوامی پارٹی" میں ضم کرنے کا اعلان کیا تھا اور حالیہ انتخابات میں "بی اے پی" کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی نشست حلقہ پی بی35 مستونگ سے الیکشن لڑرہے تھے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ اس حقیقت سے آگاہی بھی ضروری ہے کہ سات سال قبل جولائی2011 میں مستونگ میں ہی ایک بم دھماکے میں نوابزادہ سراج رئیسانی کا بیٹا اکمل رئیسانی شہید ہو گیا تھا۔ رئیسانی خاندان ہمیشہ سے محب وطن پاکستانی رہا ہے اور انہوں نے پاکستان کی سالمیت اور استحکام پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ۔سراج رئیسانی کے والد نواب غوث بخش رئیسانی بلوچستان میں وفاق پاکستان کو مضبوط کرنیوالے عناصر میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔سراج رئیسانی اپنے دبنگ مزاج اور حقیقی جذبہ حب الوطنی کے تحت چودہ اگست کواپنی گاڑی پر قومی پرچم سجا کر بلوچستان کے گلی کوچوں میں گھوما کرتے تھے۔ 23 مارچ یوم پاکستان کے موقع پر وطن عزیز سے والہانہ محبت کا سوشل میڈیا پر ویڈیو میسج نشر کرتے۔ اگر معروضی حالات کا تجزیہ کیا جائے تو صوبہ بلوچستان اور خصوصا مستونگ کے مقامی پس منظر میں یہ غیر معمولی جرات کا مظاہرہ تھا۔ سراخ رئیسانی یقین کی حد تک جانتے تھےکہ بلوچستان میں کاروائیاں کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کو فنڈز مہیا کرنے والی بھارتی خفیہ ایجنسی را ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بطور احتجاج بھارتی پرچم کو پیروں تلے روند کر تصاویر بنائی اور سوشل میڈیا پر نشر کر دیں،۔بھارتی جھنڈے کے رنگوں والے جوتے بنوائے اور انہیں پہن کر تصویر بنوائی۔ وہ اپنے جلسوں میں کھل کر عوام کو بتاتے کہ ان نام نہاد بلوچ قوم پرست شدت پسندوں کے کرتوتوں کے پیچھے بھارت کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔ ان کا مقصد بھارت کو باور کروانا تھا کہ تمہاری سازشیں ہم سے ڈھکی چھپی نہیں لہذا ایسی قبیح اور شرمناک حرکتوں سے باز آجاؤ. حالیہ انتخابات میں سراج رئیسانی پہلی بار صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے تھے اوراپنے قبائلی محافظوں کے ساتھ بلا خوف و خطر ہر جگہ انتخابی مہم کے سلسلے میں جلسے کر تے اور پوری اخلاقی جرآت سے اپنے موقف کا اظہار کرتے۔ یہی ان کے "جرم" تھے جن کی پاداش میں انہیں دہشت گردی کا ہدف بنایا گیا۔ شواہد یہ بتاتے ہیں کہ یہ حملہ فقط ایک پروپاکستان قبائلی سردار کو رستے سےہٹانے کے لئے کیا گیا۔بلوچستان میں کھل کر پاکستان کے لئے کھڑا ہونے والا اوربھارتی لابی کی کھل کر مذمت کرنے والا ایک بے خوف ، نڈراور شیردل جوان شہید کر دیا گیا۔ یہ یقینی طور پر باہر کی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائی ہے۔ البتہ یہ ضرور دیکھنا ہوگا کہ مقامی سطح پر کون لوگ اس بزدلانہ کاروائی کے لئے استعمال ہوئے۔ عموما دیکھا گیا ہے کہ شدت پسند بلوچ تنظیمیں اس نوعیت کے فدائی حملے نہیں کرتی۔ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ کیا ان کے پاس اب یہ’’ صلاحیت ‘‘آ گئی ہے یا پھر کوئی کالعدم تنظیم اس مقصد کے لئے استعمال ہوئی؟ ہم ببانگ دہل کہہ سکتے ہیں کہ سراج رئیسانی پاکستان کی بقاء اور سالمیت کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوئے، پوری پاکستانی قوم ان کی جدائی کے غم میں افسردہ ہے اور اس دھرتی کے بہادر سپوت کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ تمام بڑی جماعتوں کے راہنماؤں نے بلوچستان جا کر سراج رئیسانی کے لواحقین سے تعزیت کی۔ ان کا یہ حق بنتا ہے کہ ان کے لئے قومی سطح پر خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے بڑا ایوارڈ دیا جائے۔۔ پاکستانی قوم کی اکثریت کو ایسے شیرد نوجوان سے واقفیت ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ہوئی البتہ پوری قوم ان کے جذبہ حب الوطنی کو سلام پیش کر رہی ہے۔ سراج رئیسانی! ہم آپ کی دلیری ، جرآت و بہادری سلام اور آپ کےدل میں ولولہ انگیز پاکستانیت کے جذبے کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔اللہ کریم پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کو نیست و نابود فرمائے اور سراج رئیسانی اور ان کے رفقاء پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ آمین

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219681 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More