آزادی ِ صحافت درست مگر۔۔۔۔۔

صحافت سے مراد خبر کو تیار کرکے عوام تک پہچانا۔ خبریں تلاش ،تیار ،تبصرہ، تشہیر کرنے والوں کو صحافی کہا جاتا ہے ۔ معلومات لوگوں تک پہنچانے کے لیے خبر بنائی جاتی ہے ۔ اس خبر کو عوام تک پہچانے کے لیے مہارت کے ساتھ غیر ضروری مواد کو تلف کر کے حتی ٰالمکان مختصر کرنے کے بعد اخبار ، ٹی وی ، ریڈیو یا سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے ذریعے عوام تک بھیجا جاتا ہے ۔ یہ خبریں عوام کے اذہان پر خاطر خواہ اثر پذیر ہوتی ہیں ۔ یہی خبریں رائے عامہ تشکیل دیتی ہیں ۔

صحافت ، کسی بھی ریاست کو قائم رکھنے ، ریاست میں موجود سماجی برائیوں کی نشاندہی اور ان کا حل تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں ۔ عوامی سطح پر رائے عامہ کی تشکیل کے لیے صحافت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ صحافت اور میڈیا ریاست کا ایک اہم ستون ہے ۔صحافت اور میڈیا جہاں لوگوں میں آگاہی اور رائے عامہ پیدا کرتا ہے وہا ں یہی میڈیا ، منفی پراپگنڈے ، قوم میں مایوسی ، خوف و ہراس اور سسپنس پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا تا ہے ۔

اگر ماضی قریب کا جائزہ لیا جائے تو ملک نہایت ہی کڑے وقت سے گزراجہاں دہشت گردی نے ملکی معیشت کی کمر توڑ دی وہاں ان گنت جانوں کے زیاں کا دکھ بھی قوم کی جھولی میں آیا ۔افواج ِ پاکستام اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی بہترین حکمت ِ عملی کے باعث ملک گیر بم دھماکوں میں کمی واقع ہوئی تو دوسری جانب بلوچستان کے عوام نے افواج ِ پاکستان پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے قومی دھارے میں شمولیت کو یقینی بنایا ۔دہشت گردی کی اس جنگ میں ان گنت قربانیوں کے بعد ملک میں امن کا قیام ممکن ہوا ۔ لیکن عالمی قوتوں اور ملک دشمن عناصر نے پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے لیے عوام اور افواج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی مضموم کوششیں شروع کر دی ہیں ۔

بدقسمتی سے آزادی صحافت اور آزادی ِ رائے کی آڑ میں قومی اداروں خصوصا سیکیورٹی اداروں ، افواج ِ پاکستان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ ان اداروں میں بھی کرپشن ہو گی ، لیکن ا س کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عوام اور ان اداروں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے لیے ان اداروں کو بدنام کیا جائے ۔یا آئے روز اپنے ہی سیکیورٹی اداروں پر کیچڑ اچھالا جائے ۔ اگرچہ دشمن ملک کا میڈیاپاکستانی سیکیورٹی ایجنسیز اور افواج پر کیچڑ اچھالنے سے کبھی گریز نہیں کرتا ۔ بلکہ ان کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ بدنام کیا جائے اور وہ اپنے میڈیا کی بدولت اپنے مقصد میں بہت حد تک کامیاب بھی ہیں ۔تاہم اب اس کام میں پاکستان کے اپنے صحافی ، سیاست دان اور میڈیا ہاوسز بھی ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کٹھ پیلی بن چکے ہیں ۔جانے ان جانے میں ایسی خبریں اور بیانا ت میڈیا پر چلائے جاتے ہیں وہ بلواسطہ ملک اور افواج پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔ یہ میڈیا ہاوسزاپنی زیٹنگ بڑھانے یا روپیہ پیسہ کمانے کی غرض سے ملکی اور بین اقوامی سطح پر پاکستان فوج ، آئی ایس آئی کے خلاف پراپگنڈا کر نے میں مصروف ِ عمل نظر آتے ہیں ۔ یار رہے ! یہ آئی ایس آئی اور افواج ِ پاکستان ہی ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کو کنڑول کر لیا گیا ہے ۔ ملک میں کسی قسم کی کوئی آسمانی آفت آئے یا اندرونی مسئلہ ہو ، یہاں تک کہ شفاف الیکشن کروانے کے لیے بھی فوج کی خدمات لی جاتی ہیں ۔ دوسری جانب ، آئی ایس آئی کو دنیا کو اول درجے کی خفیہ ایجنسی مانا جاتا ہے ۔اس ایجنسی ہی کی وجہ سے ملک دشمن عناصر ، اپنی ہر سازش میں ناکام رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ آزاد بلوچستان کا نعرۂ لگانے والے بھی جان چکے ہیں کہ بلوچستان کی ترقی ، پاکستان کی ترقی سے ملحق ہے ۔عالمی طاقتیں ہر لحظہ آئی ایس آئی کو کمزور کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں ۔ آئی ایس آئی کے خلاف بیانات ، میڈیا نیوز ، یا سوشل میڈیا پوسٹنگ براہِ راست ان طاقتوں کے آلہ کار بننے والی بات ہے۔

اس کے علاوہ چند سیاست دان بھی بنا ثبوت کے ایسے بیانات دے رہے ہیں جن کا تعلق براہ راست قومی اداروں خصوصا فوج یا آئی ایس آئی سے ہے ۔ ان بیانات کی بدولت پاکستا ن کو عالمی سطح پر گرے لسٹ میں شامل کر دیا گیا ۔میڈیا عوام میں ایسی سنسنی اور ہیجان کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے جو ملک میں انارکی کا سبب بن سکتا ہے ۔ اندرون ِ ملک اختلافات اور انارکی لوگوں کو اپنے ہی ملک سے بدظن کر دیتی ہے ۔ایسے حالات دشمن کے لیے انتہائی سازگارہوتے ہیں کہ وہ اس ملک کو نقصان پہنچا سکے ۔ یہاں یہ بات واضع کرتی چلوں کہ پاکستان کو عالمی سطح پر بے تحاشا نقصان ، میڈیا کے درست سمت میں نہ ہو نے اور کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے اٹھانے پڑے ہیں۔

صرف الیکٹرانک میڈیا ہی نہیں سوشل میڈیا کو بھی آج کل رائے عامہ کی ہمواری کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے ۔سوشل میڈیا اکاؤٹنس کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ خصوصا الیکشن کے دنوں میں کم وبیش ہر سیاسی پارٹی سوشل میڈیا پر واویلا کرتی نظر آتی ہے ۔ سوشل میڈیا چونکہ عوام کی دسترس میں ہو تا ہے اور عوام بھی کسی بھی کے اکاؤنٹ پر کمنٹ یا لائک کر سکتے ہیں اس لیے عوام کی زیادہ تر تعداد سوشل میڈیا کی خبروں کو نہ صرف اہمیت دیتی ہے بلکہ اس کو مزید پھیلانے کا سبب بھی بنتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے سوشل میڈیا ٹیمز بنا دی گئی ہیں ۔

تصویر کا اگر ایک رخ خوبصورت ہے تو دوسرا بے انتہا خوفناک ۔ یہی سوشل میڈیا اکاؤنٹس عوام میں سنسنی ، میڈیا ہاوسز کی خبروں کی مزید تشہیر کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ جعلی فیس بک ، واٹس ایپ یا ٹوٹئیر اکاؤنٹ بنا کر منفی پراپگنڈٖہ ، عوام کے دلوں میں فوج اور آئی ایس کے خلاف جذبات بڑھانے کا کام کر رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ بعض پیغامات کو آئی ایس پی آر (افواج پاکستان کے ترجمان ) میڈیا سے منسوب کرکے سوشل میڈٖیا پر پھیلا دیے جاتے ہیں ۔ اس سے عوام میں خوف و ہراس پیدا کر دیا جاتا ہے ۔ چونکہ پاکستانی عوام ، ملکی اداروں میں آئی ایس پی آر کی جانب سے شائع کی گئی خبروں پر کسی بھی ادارے کی نسبت زیادہ اعتماد کرتی ہے ۔ اس لیے اس ادارے سے منسوب خبروں کو بلا تحقیق آگے پھیلا دیا جاتا ہے ۔

یہاں یہ وضاحت لازمی ہے کہ آزادی صحافت کے نام پر منفی پراپگنڈا کرنا ، اور اپنے ہی سیکیورٹی اداروں کے خلاف ہزرسائی کرنا ملک کی بدنامی کا سبب بنتا ہے ۔دوسری جانب عوام کے دلوں میں افواج کے لیے نفرت کے جذبات ابھارنے سے ملک کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کی ایک مذموم سازش کا شاخسانہ ہے ۔ صحافت ایک مقدس پیشہ اور قوت ہے اس کو ملک و ملک کی بھلائی اور ترقی کے لیے استعمال کرنا چاہیے ۔نہ کہ روپے پیسے کی خاطر اپنے ہی ملک کے خلاف اس طاقت کا استعمال کیا جائے ۔ میڈیا ہاوسز کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ملک میں سنسنی پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے اور نہ ہی ملکی ایجنسیوں کے خلاف پراپگنڈا میں حصہ لینا چاہیے ۔

Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 149841 views i write what i feel .. View More