پاکستان ایٹمی طاقت اور اسرائیلی منصوبہ

تمام ممالک کو حق حاصل ہے کہ اپنی بقا کے لیے جو ممکن ہو کرے۔ دفاعی لحاظ سے،اقتصادی لحاظ سے، اخلاقی اور معاشرتی لحاظ سے۔ لیکن اس کے باوجود ترقی یافتہ ممالک کو کچھ اچھی نہیں لگتی ۔ کیوں؟؟ اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ یہ ممالک ترقی یافتہ ہو سکیں یا معاشی اور دفاعی لحاظ سے مضبوط ہو ں پھر خاص طور پاکستان جیسا ملک جو ایک ایٹمی طاقت مسلم ممالک میں بن کر ابھرا۔ پاکستان کا ایٹمی طاقت یہودی لابی کو ایک نظر بھی نا بھایا۔ پاکستانی تنصیبات کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل کے ذریعیے پلان کیا گیا ۔ اس پلان کو وقت کے دفاعی سپہ سالار ایسا پلان کیا جس سے ان کے ناپاک ارادے خاک میں مل گئے۔

جنرل ضٰا الحق اور اسرائیل کا منصوبہ خاک میں تبدیل کرنا

پاکستان جب سے دنیا کے نقشے پر ایک علیحدہ ریاست بن کر ابھرا ہے اسی دن سے پاکستان یہودی لابی کو ایک آنکھ بھی نہیں بھاتا۔ اسرائیل دنیا کا وہ ملک ہے جسے پاکستان نے ابھی تک ایک علیحدہ ریاست قبول نہیں کیا۔ یہ ایسا کیوں اس کی تمام تر تفصیلات آپ کو بآسانی انٹر نیٹ سے ملتی سکتی ہیں۔

1977 سے پاکستان نیوکلئیر پاوور کی تیاری تھا آخر کا ر اللہ کے فضل و کرم کی خاص رحمت سے ڈاکٹر عبدالقدیر سے یہ کام لیا گیا۔ اس میں مرحوم ذوالفقار علی کا بھی ایک خاص رول تھا۔ جب دنیا کو علم ہو ا کہ پاکستان ایک نیوکلیئر پاوور بن چکا ہے اور یہ کسی بھی وقت ایٹمی دھماکے کر سکتا ہے۔ یا یہ دوسرے اسلامی ممالک کی مدد کرے گا لہذا تما م یہودی لابی نے یہ پلان کیا کہ کسی نہ کسی طرح نیوکلیئر پاوور کو ختم کیا جائے، پابندیاں لگائی جائیں یا پھر اقتصادی طور پر بے بس کر دیا۔

پاکستان اللہ کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ ہی وسلم کی طرف سے خا ص عنایت اور تحفہ اور ان کے حکم سے معرضِ وجود میں آیا لہذا پاکستان کو تاقیامت کوئی آنچ نہیں آسکتی۔ حالات کا بدلنا، سیاست دانوں کا ملک کے خلاف دشمن سے بھاری رقوم لے کر اسے نقصان پہنچنا تو ممکن ہے لیکن اسے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان کے اٹیمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے منصوبے بنتے رہے اور بنتے رہیں گے لیکن اللہ کی ذات کبھی بھی ان کو کامیاب نہیں ہونے دی۔ اسی طرح کی ایک ناکام کوشش زیر بحث لا رہا ہوں تاکہ ہمیں اور ہماری نسل کے علم میں ہو۔۔۔۔

1981 میں عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کو کامیابی سے تباہ کرنے کے بعد اسرائیل کا حوصلہ بہت بڑھ گیا اور اس نے انڈیا کے ساتھ ملکر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔

دی ایشین ایج کی دو جرنلسٹس کی لکھی ہوئی ایک مشہور کتاب Deception Pakistan, the US and the Global Weapons Conspiracy میں اس سارے واقعے کی کافی تفصیلات موجود ہیں۔
یہ 80 کی دہائی کا درمیان عرصہ تھا۔

انڈین گجرات کے جمان گڑھ ائر فیلڈ پر اسرائیلی جہازوں کا ایک سکواڈرن پاکستان کے کہوٹہ ایٹمی پلانٹ پر حملہ کرنے کے لیے بالکل تیار تھا۔ انہوں نے پاکستان کا ایک بڑا مسافر بردار جہاز گرانے کا ارادہ کیا تھا جو صبح سویرے بحر ہند کے اوپر سے پرواز کرتا ہوا اسلام آباد جانے والا تھا۔ ان کا پلان تھا کہ وہ ایک کومبیٹ یا ٹائٹ گروپ کی شکل میں پرواز کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہونگے تاکہ پاکستانی ریڈارز کو دھوکہ دیا جا سکے اور ریڈار آپریٹرز یہ سمجھیں کہ شائد یہ کوئی ایک ہی بڑا مسافر بردار جہاز ہے۔ پھر وہ کہوٹہ پر بمباری کر کے اسکو تباہ کر دینگے اور وہاں سے سیدھے جموں کشمیر جاکر ری فیولنگ کرینگے اور نکل جائینگے!

آئی ایس آئی نے اپنی بھاگ دوڑ تیز کر دی اور بالاآخر حملے سے صرف چند گھنٹے پہلے حملے اور سازش کا سراغ لگا لیا گیا۔ یعنی حملہ صبح 4 بجے ہونا تھا اور جنرل ضیا ء الحق کو رات 12 بجے اطلاع دی گئی۔

جنرل ضیاء نے ساری صورت حال کا تیزی سے جائزہ لیا اور فوری فیصلہ کیا کہ حملے کو روکا نہیں جائیگا بلکہ ناکام بنایا جائیگا تاکہ پاکستان کو جوابی حملے کا جواز مل سکے۔ اور فوراً ہی ایک بھرپور جوابی حملے کا پلان بنایا گیا۔

پاکستانی ائر فورس کے تین دستے تشکیل دئیے گئے۔

پہلے کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ اسرائیلی جہازوں کے حملے کو ناکام بنائے اور ان کو مار گرائے (اس معاملے میں اسرائیل کے خلاف پاکستان کا ریکارڈ 100 فیصد ہے:)

دوسرے دستے کو ممبئی میں موجود انڈیا کے بھا بھا نیوکلئیر پلانٹ کو تباہ کرنے کا ٹاسک ملا۔

جبکہ تیسرے دستے کو نجیو ڈیزرٹ میں موجود اسرائیل کے ڈیمونا نیوکلئیر پلانٹ کو تباہ کرنے ٹاسک دیا گیا۔
لیکن اسرائیل پر حملے میں مسئلہ یہ تھا کہ پاکستانی جہاز وہاں ری فیولنگ نہ کر پاتے اس طرح ان کی واپسی ناممکن تھی اور ان کا گرنا لازمی تھا۔ اور یہ ایک فدائی مشن تھا۔ اس کے لیے 4 جوانوں کی ضرورت تھی۔ جب ائیر فورس کے جوانوں سے پوچھا گیا تو 10 تیار ہوگئے اور ان میں 4 کا انتخاب کرنے کے لیے قرعہ ڈالنا پڑا۔ ہر جوان یہ اعزاز حاصل کرنے کے لیے بے چین تھا۔

کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کی عظم و ہمت، قوت فیصلہ اور جنگی حکمت عملیوں سے خوف زدہ انڈین جنرلز اس حملے کے حق میں نہ تھے اور اسکو خودکشی قرار دے رہے تھے۔ انکو قائل کرنے میں اسرائیل اور اندارا گاندھی سے بہت محنت کی تھی۔

جنرل ضیاء اور پاکستانی ائیر فورس شدت سے حملے کے منتظر تھے۔ وہ اس کو عالم اسلام کے دو بڑے دشمنوں کو انکی ایٹمی قوت سے محروم کرنے کا ایک سنہری موقع سمجھ رہے تھے۔

امریکی سیٹلائیٹ نے پاکستانی جہازوں کی غیر معمولی نقل و حرکت کو نوٹ کیا اور فوراً اسرائیل اور انڈیا کو آگاہ کیا اور انہوں نے نہایت بھونڈے انداز میں اپنے مشن سے پسپائی اختیار کرلی۔

اسکو چھپایا بھی نہ جا سکا نتیجے میں پوری دنیا میں دونوں کی سبکی ہوئی۔

تب پاکستان نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ نہ پاکستان عراق ہے اور نہ ہی پاکستانی فوج عراقی فوج ہے۔ آئندہ ایسی کسی بھی مہم جوئی کو اسرائیل کے لیے ایک بھیانک خواب میں تبدیل کر دیا جائیگا۔

ذرا سوچیں اور غور کریں۔ ہمارے مال و زر کے پچاری حکمران کیسے کیسے بیانیے دے رہے ہیں۔ پاک فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بغیر کسی وقفے کے رنگ برنگے ڈائیلاگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں حکمران ان کی مجبوری اور شوق کوخرید کر پاکستان کے خلاف اکساتا ہے اور اپنے ناپاک مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ جولائی 2018کے ہونے والے جنرل الیکشن پاکستان میں ہوئے لیکن مروڑ بھارت کے پیٹ میں انگڑائیاں لینے لگے آخر کیوں۔اسی آنے والے دنوں میں مختلف ممالک کی طرف سے ایک مخصوص انداز میں کچھ بیانات پڑھنے اور سننے کو ملیں گے۔ نہیں تو پھر وہ قوتیں ہمارے ہی کندھوں کو استعمال کریں گے۔

میری آپ سب سے درخواست ہے ہماری پہچان پاکستان ہے۔ ہماری آزادی پاکستان ہی کی بدولت ہے۔ نہیں تو دنیا میں نظر دوڑا کر دیکھو ہمارے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔ میں تمام اداروں سے درخواست کروں گا کہ اپنی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اپنے جونئیرز، بچوں، سٹاف، طلباو طالبات میں ایک مثبت سوچ، پاکستانی سوچ بیدار کریں۔ اللہ کریم مجھے بھی اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماے۔۔ آمین۔

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 156939 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More