جوتوں کا صدقہ

مولوی راستی کے رستے کی نشان دہی کرتا ہے‘ جب کہ پیرومرشد‘ ناصرف راستی کے رستے کی نشان دہی کرتا ہے‘ بل کہ اس پر چلنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے‘ لوگ راستی کی راہ پر چلیں۔ یہ ہی ہوتا آیا ہے۔
بدقسمتی دیکھیے‘ مولوی نے تقسیم کے دروازے کھولے ہیں۔ وہ ہمیشہ سے‘ پیٹ سے سوچتا آیا ہے۔ اس کی کسی بات پر نکتہ چینی کی صورت میں‘ کافر کا فتوی صادر ہو جاتا ہے۔ کسی دوسرے فرقے کے نظریات سنے بغیر اس پر کفر کی مہر ثبت کر دیتا ہے۔

جعلی پیروں کی صورت بھی اس سے مختلف نہیں۔ جعلی پیروں کے ہاں بھی‘ پیٹ ہی سوچ کا مرکز رہا ہے۔ عیش کی گزارتے ہیں۔ عمل میں وہ حسین کی راہوں کے راہی نہیں ہیں۔ ان کی عشرت بھری زندگی دیکھ کر‘ منفی بات کرو گے تو فورا سے پہلے وہابی قرار پاؤ گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دو کے حوالہ سے لوگوں میں‘ مختلف نوعیت کے قصے‘ سننے میں آتے رہتے ہیں۔

ایک پیر صاحب اپنے مرید کے ہاں رکے ہوئے تھے۔ مرید نے دریافت کیا: سرکار کدو شریف پکا لیا جائے۔
پیر صاحب نے جواب دیا: ہم گناہ گزار لوگ ہیں‘ اس قابل کہاں کہ کدو شریف کھائیں‘ کوئی آوارہ سا مرغا پکا لو١

مرید ماڑا آدمی تھا۔ اس نے اپنے رف جوتے‘ پیر صاحب کو پہننے کے لیے دے دیے اور ان کے اعلیٰ درجے کے جوتے‘ فروخت کرکے ان کی خدمت کی۔

دو تین روز کے قیام کے بعد‘ پیر صاحب جانے کے لیے تیار ہوئے‘ ساتھ میں مرید کو شاباش بھی دی۔ چلتے وقت‘ انہوں نے اپنا جوتا طلب کیا۔ مرید نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا‘ حضور یہ آپ کے جوتوں کا ہی کمال تھا‘ ہم آپ کی خدمت تواضع کر سکے‘ ساتھ میں آپ کے جوتوں کا صدقہ‘ ہم نے بھی چنگا چوسا کھایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١- آوارہ مرغا سے مراد دیسی مرغا

فانی مقصو حسنی
About the Author: فانی مقصو حسنی Read More Articles by فانی مقصو حسنی: 184 Articles with 193845 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.