بڑی عید اور قومی ذمہ داری

بڑی عید کی آمد آمد ہے ۔ہر طرف خوشیوں بھرے اس تہوار کےانتظار میں گن گن کر دن گزارے جا رہے ہیں۔وہ لوگ جو فیکٹریوں میں سارا سارا دن مزدوری کرنے کے باوجود بھی مہینہ مہینہ اپنے بال بچوں کے بھرپور طعام کا بندوبست کرنے سے قاصر رہتے ہیں، اس خوشگوار احساس سے پھولے نہیں سما رہے کہ عیدِ ایثار آنے والی ہے۔مسلمانوں کایہ منفرد تہوار کچھ سبزی خوروں کےنزدیک غیر ضروری سمجھا جاتا ہے مگر سچ تو یہ ہےکہ فقط ایک تین روزہ تہوار جہاں ہماری معیشت کےجام پہیے کو تیز رفتاری بخشتا ہے وہیں غرباء و مساکین اور ناچار لوگوں کے چہروں پر وقتی طور پر مسکراہٹیں اورشکم سیری کےاثرات مرتب کر جاتا ہے۔

اس دفعہ گرمیوں کی چھٹیوں میں مجھے چمڑے کے ایک نجی کارخانے میں انٹرن شپ کرنے کا اتفاق ہوا۔ہم یہاں روز چمڑے کو پروسیس ہوتا دیکھتے رہے۔ اس کےنقائص اور خصائل پر سیر حاصل گفتگو ہوتی رہی۔ پاکستان کی چمڑے کی صنعت پوری دنیا میں ایک مقام رکھتی ہے۔ سیالکوٹ، قصور، لاہور اور کراچی میں چمڑے کی صنعت بہت عام ہے۔ سیالکوٹ میں اس صنعت سے عملی طور پر منسلک ہونے سے مجھے اس بات کا ادراک ہوا کہ ہمارے ہاں لوگوں میں کھالوں کی حفاظت کےحوالے سے آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے- عیدالاضحیٰ کے موقع پر ملک کے گردونواح سے جب لاکھوں، کروڑوں کھالیں جمع ہوتی ہیں تو فقط بےاحتیاطی اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وطن عزیز کی اس نمایاں صنعت کو کافی نقصان پہنچتا ہے۔

بڑی عید کے موقع پر حاصل ہونے والی جانوروں کی کھالیں چمڑےکی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لیے ہر خاص وعام کو کھالوں کے عمومی نقائص کی بابت مکمل معلومات ہونی چاہیں تا کہ اس صنعت سے وابستہ لوگ اور معیشت اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔اکثر صاحبان قربانی کے جانور کی کھال کے حوالے سے بےاعتنائی سے کام لیتے ہیں اور گوشت کی طرف متوجہ رہتےہیں- ایسا کرنے سے بےتحاشا خوردبینی جاندار مثلاََ بیکٹیریا وغیرہ کھال کی ہئیت کونقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں۔جانوروں کی کھال بھی ہماری چمڑی کی طرح نازک اور حساس ہوتی ہے اور گھنے بالوں کے باوجود کیمیکلز، غلاظت، خون، مٹی میں موجود زہریلے مادوں، بیکٹیریا اور فنجائی سےخراب ہوسکتی ہے۔ اس مقصد کیلئے بڑوں کو چاہیے کہ ایک دو بندوں کے ذمے کھال کی حفاظت لگا دی جائے۔

کھال جانور کے ذبح ہونے سے لے کر دباغتی کاروائی تک مسلسل نقصان پہنچنے اور گردونواح کے ماحول سے متاثر ہونے کے خدشے سے دوچار رہتی ہے۔ سب سے پہلے قصائی کو چاہیے کہ کھال اتارتے وقت اس بات کا خصوصی دھیان رکھے کہ چربی اور گوشت کے چھیچھڑے کم سے کم اتریں۔ قربانی کرنے والوں کو چاہیے کہ کھال کے حوالے سے تین تدابیر ضرور اپنائیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ کھال کو کسی بھی تھیلے یا بوری میں بند نہ کریں کیونکہ ایسا کرنے سے کھال کے گلنے سڑنے اور خورد بینی جانداروں کو بھرپور کاروائی کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ کھال کو کبھی روشنی یا پانی والی جگہ پر نہ رکھیں اور نہ ہی اسے صاف کرنے کے خیال سے دھوئیں بلکہ اسےٹھنڈی، سایہ دار اور خشک جگہ پر پھیلا دیں۔ تیسری اور سب سے اہم بات یہ کہ جب آپ قربانی کےجانور خریدیں توساتھ ہی ان کی کھالوں پر لگانے کیلئے نمک بھی خرید لیں۔ چھوٹی قربانی کیلئے ایک کلو جبکہ بڑی قربانی کیلئے چار سے پانچ کلو نمک خرید لیں اور جب کھال اتر جائے تو اندر گوشت والی سائیڈ پر اس طرح نمک لگا کر رکھ دیں کہ کوئی جگہ خالی نہ رہ جائے۔

اس طرح آپ اپنی قومی صنعت کیلئے ایک اہم ذمہ داری سے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔ نیز کھالیں صدقہ کرنے کی صورت میں بھی صدقہ لینے والوں کیلئے تبھی سود مند ہیں اگر آپ نے کھال کے لیے مناسب حفاظتی تدابیر اپنائی ہوں وگرنہ قیمت کم لگنے یا کھال کے ضائع ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔ ایک حساس اندازے کے مطابق 2016ء میں عید پر جمع ہونے والی پچھہتر لاکھ کھالوں میں سے بائیس لاکھ فقط اس لیےضائع ہو گئیں کہ انہیں بروقت نمک نہیں لگایا گیا تھا۔ گزشتہ دس سالوں میں کھالوں کے اس طرح ضائع ہونے سے چمڑے کی صنعت کو دس ارب روپوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے پاکستان کی چمڑے کی صنعت جو کہ پوری دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے، تنزلی کا شکار ہے جبکہ چین اور بھارت پاکستان کو اس شعبے میں پیچھے چھوڑنے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ گزشتہ دس سالوں میں ہونے والے اس نقصان سے پاکستان کی پچاس فیصد کپڑے کی صنعت اور بیس فیصد چمڑا رنگنے کے کارخانے بند ہو چکے ہیں۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ عیدِ ایثار کے اس موقع پر قومی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور وطنِ عزیز کی اس صنعت کو نقصان پہنچنے سے بچائیں اور کھال اترتے ہی مناسب حفاظتی تدابیر اپنا کر اپنے حصے کا کام کر دیں- پہلی دفعہ نمک لگانے سے کھالیں اگلے چوبیس سے اٹھائیس گھنٹوں کے لیے ہر طرح کے نقصان سے محفوظ ہو جاتی ہیں- صدقے کے طور پر کھالیں جمع کرنے والی تنظیمیں بعد ازاں نمک لگانے کی سرگرمی دہراتی رہتی ہیں مگر اگر ابتدائی طور پر خیال نہ کیا جائے تو کھال ضائع ہونے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے-

Zahir Mehmood
About the Author: Zahir Mehmood Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.