تصوف کیا ہے؟

دنیا میں ہر دورمیں ہر طبقے اور ہر مذہب میں ایسے لوگ نظر آتے ہیں کہ جو دنیا کو بھائی چارے ، امن وآتشی، پیا ر محبت اور باہمی اخوت کا پیغام دیتے ہیں۔ یہ لوگ صوفی کہلاتے ہیں ۔ یہ لوگ اﷲکی ذات میں خود کو کھونے اور اس کی حقیقت کو جاننے کے متلاشی ہوتے ہیں۔تصوف کے اور صوفی کے معنوں کے بارے بہت اختلاف ہے ۔ بعض لوگوں کے خیال میں صوف اونی لباس ہے جو یہ مرتاض لوگ پہنتے ہیں اس حوالے سے صوفی کہلاتے ہیں۔کچھ کہتے ہیں کہ صفا کا مطلب (purity)صاف اور پاک ہوتا ہے یہ لوگ چونکہ دنیا کی آلائشوں سے پاک ہوتے ہیں اس لئے صوفی کہلاتے ہیں۔ صفوی(منتخب لوگ)، حضور رسول کریم ﷺکے عہد میں کچھ لوگ مسجد نبوی کے ایک حصے میں بیٹھے عبادت میں مصروف ہوتے تھے،یہ اسلام کے ابتدائی دنوں کے منتخب لوگ تھے چنانچہ بہت سے لوگ اس حوالے سے صوفی کو نسبت دیتے ہیں۔ آج دنیا دہشت گردی کے ہاتھوں پریشان ہے اور ایسے لوگوں کی تلاش میں ہے جو دنیا کو امن کی راہ پر گامزن کریں ۔ یقیناً یہ صوفی لوگ ہی ہیں۔ دنیا صوفی ازم کی ترویج کے لئے کوشاں ہے۔

آج دنیا انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کے لئے امن اور بھائی چارے کا فروغ چاہتی ہے۔ اس لئے دنیا بھر کے اہل علم، دانشور یا Social Sciencetist صوفی ازم کیے حوالے سے کام کر رہے ہیں ۔ صوفی ازم دنیا میں ایک تحریک کے طور پر روشناس ہو رہا ہے۔اس لئے کہ عقل و دانش کے مطابق، بھائی چارہ اوراخوت ایک آفاقی پیغام ہے۔ یہ کسی کی میراث نہیں۔یہ ایک جذبہ ہے جو ساری دنیا کے امن پسندوں کا خواب ہے۔ ہر رنگ، ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگوں کے دل میں خدا کی جستجو اور اس کے انسانوں سے پیار کا پیغام پنہاں ہے۔ یہی صوفی ازم ہے اور میرے آپ اور ہم سب کے لئے محبت پیغام ہے ۔صوفی ازم جو آج ہر امن کے متلاشی اور میرا بھی عقیدہ ہے اور اس عقیدے کے مطابق آ ج کے جدید دور میں سوشل سائنٹسٹ صوفی ازم کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں کہ
Sufism is a science whose objective is reparation of heart and turning it away from all else but Allah.

صوفی ازم کا مقصد انسانی دل کی درستی اور اسے رب العزت کی محبت کے سوا ہر چیز سے بے نیاز کر دینا ہے۔
ایک عالم اور ایک صوفی میں فرق یہ ہے کہ عالم کے نزدیک رب العزت کی ذات جبار ہے، قہار ہے وہ اگر اچھے کام پر انعام دیتا ہے تو برائی کا بھی پورا حساب لیتا ہے۔عالم لوگوں کو اﷲ کے عذاب سے ڈراتا ہے ۔اسے پھونک پھونک کر ہر قدم اٹھانے کی تاکید کرتا ہے۔ جب کہ صوفی کے نزدیک رب العزت رحیم ہے کریم ہے۔اس کی رحمت اور کرم کا حساب نہیں۔وہ انسان کیساتھ اس کی ماں سے بھی زیادہ شفیق ہے صوفی کا ہر بھٹکے ہوئے کو یہ پیار بھرا پیغام بھلائی کی امید دلاتا ہے اور وہ اس کی طرف کھنچا چلا آتا ہے۔ ؂ہر دور میں صوفیا انسانوں کو اپنی طرف بلاتے رہے۔ اسے امن اور بھائی چارے کا درس دیتے رہے۔ بڑی تعداد میں لوگ ان سے فیض یاب ہوتے رہے۔لوگوں کی بڑی تعداد صوفیا کے گرد دیکھ کر بہت سے حکمران ان لوگوں کے دشمن بھی ہوئے ۔انہیں نقصان بھی پہنچایا مگر لوگوں کے صوفیا سے پیار اور عقیدت میں کبھی کمی نہ آ سکی۔

صوفیوں کا ایک گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے اﷲتک رسائی کے لئے اﷲکی محبت کا راستہ اپنایاوہ سمجھتے ہیں کہ اﷲکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے وہی طریقہ اختیار کیا جائے کہ جو طریقہ محبوب کوخوش رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ان لوگوں نے بنیادی عبادتوں کے علاوہ اپنی عبادت میں اﷲکے بعض ناموں کاورد بھی شامل کر لیا۔ فاقہ کشی اور شب بیداری کو اپنا شعار بنا یا۔حضرت رابعہ بصری اور پھر حضرت ابو یزید بسطامی ان صوفیوں میں اولین لوگ تھے۔ یہ صوفی ،مجذوب کہلاتے ہیں۔بہت زیادہ ریاضت کے سبب ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ذات تحلیل ہو گئی ہے اب ان کے اور اﷲکے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں،یہی فنائے ذات ان کے نظریات کی بنیادی حیثیت ہے۔ مجذوب صوفیوں میں ایک خامی یہ ہوتی ہے کہ ان میں سے بہت سے صوفی عشق الہی میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ ان کی ریاضت انہیں کسی حد تک شریعت سے کچھ بیگانہ اور بے لگام کر دیتی ہے ۔یہ ان کی وہ اندرونی کیفیت ہے جس پر ان کو قابو نہیں رہتا۔حسین بن منصور حلاج جو ابو یزید بسطامی کا شاگرد تھا، اسی منزل کا راہ رو تھا اور اسی جذب اور سر مستی میں اس نے انالحق کا نعرہ لگایا تھا۔

وہ صوفی جو مجذوب نہیں ہوتے ، متین کہلاتے ہیں۔ اس اسلامی تصوف کے بانی حضرت جنید بغدادی کے خیال میں مجذوب لوگوں کی انتہا پسندی ان کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اس لئے ذات کی فنا کے بعد اس کی بقا بھی ضروری ہے۔اپنی ذات میں پوری طرح خدا کو بسا لینے کے بعد اپنی ذات پر مکمل اختیار بھی پانا ضروری ہے۔یہ ایک مکمل انسان کی نشانی ہے۔ حسین بن منصور حلاج ایک مجذوب صوفی تھا جس نے خود کو آشکار کیا۔ فنا کی منزل میں کھو گیا ۔ سر مستی کے عالم میں انا الحق کا نعرہ لگایااور نقصان اٹھایا۔

حسین بن منصور حلاج سے کسی نے پوچھا کہ تصوف کیا ہے۔ ہنس کے جواب دیا، جو کچھ تم دیکھ رہے ہو مگر یہ ابتدائی منزل ہے۔ اس وقت تک حسین بن منصور حلاج کو ٹکٹکی پر باندھ کر تین سو کوڑے لگائے جا چکے تھے۔ ہر کوڑے پر پر اسرار آواز گونجتی تھی۔ حسین بن منصور مسکراتا تھا اور عربی میں کچھ شعر پڑھتا جاتاتھا۔ پھر خلیفہ کے حکم پر اس کے دونوں ہاتھ کا ٹے گئے تھے۔جلادوں نے انتہائی بے دردی سے ظالمانہ قطع و برید سے اس کے دونوں کان ، ناک، زبان اور آنکھیں اس کے تن سے علیحدہ کر دی ہوئی تھیں۔اس کے پاؤں کٹ چکے تھے اور وہ جان کنی کی حالت میں زندہ تھا۔ مگر اس نے اف تک نہ کی تھی۔؂
پوچھنے والے نے دوبارہ پوچھا، ’’اس سے اعلیٰ منزل کیا ہے۔جواب ملا، ’’مجھے مار دیا جائے گا اور پھر میری خاک اڑا دی جائے گی۔ اس سے آگے مجھے معلوم نہیں‘‘۔جب صبح ہوئی تو حسین بن منصور کو صلیب سے اتارا گیا اور جلاد اسے جائے قتل کو لے کر گئے۔ کہتے ہیں اسوقت اس نے جان کنی کی حالت میں آسمان کی طرف دیکھا اور کہا،’’ اے اﷲ تو اس سے بھی محبت کرتا ہے جو تجھے ایذا دیتا ہے ، تو اس سے کیسے محبت نہ کرے گا جسے تیری وجہ سے ایذا دی گئی‘‘۔جائے قتل پر لے جا کر اس کا سر کاٹ دیا گیا۔ اس کے سر کو نمائش کے لئے بغداد کے پل نصب کر دیا گیا۔ اس کے جسم کو جلا دیا گیا اور راکھ دریائے دجلہ میں بہا دی گئی۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444224 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More