نہلے پہ دہلہ

اپوزیشن کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کی بطور صدارتی امیدوار کے نامزدگی ہوچکی۔وہ جناب اعتزازاحسن سے اس لیے زیادہ قابل قبول قرار پائے ہیں کہ اپوزیشن کی زیادہ جماعتو ں کی تائید حاصل ہے۔اعتزاز احسن کو میدان میں اتارے رکھنا اب پی پی کے لیے ہذیمت کا باعث ہوگا۔صدارتی الیکشن میں اپوزیشن کو شکست ہوجانا قرین قیاس ہے۔ مگر پی پی چاہے تو یہ الیکشن خاصہ دلچسپ بنا سکتی تھی۔اگر مولانا صاحب کو متفقہ امیدوار مان لیا جاتاتوگیم پلٹ سکتی تھی۔حیرت ہوتی ہے کل تک جناب زرداری اعتزاز کو شک کی نظر سے دیکھ اکرتے تھے۔مولانا صاحب ان کی آنکھ کا تارہ ہواکرتے تھے۔اب پتہ نہیں کیوں ترجیحات الٹی ہوگئیں۔

صدارتی الیکشن خود تحریک انصاف کے لیے بھی کسی نئی کسوٹی سے کم نہیں ۔وہ ایک دریا عبور کر پاتی ہے تو دوسرے دریا کا سامنا ہوجاتا ہے۔پچھلی تھکن اترتی نہیں کہ اگلی آن دبوچتی ہے۔کچھ عناصر ہمارے ہاں ایسے ہیں جو اس طرح کی بے چینیوں پر لطف اندوز ہوتے ہیں۔عمران خاں نہ چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ کرتے چلے جارہے ہین۔یہ عناصر مزے لے رہے ہیں۔ان کا طریقہ واردات ہی یہی ہے۔وہ افراتفری اور خلفشار میں خوش رہتے ہیں۔انہیں قابل اور تجربہ کارلوگوں سے چڑ ہے ۔اس طرح کے بندے معاملات سدھارنے میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ کسی حد تک سدھار بھی لیتے ہیں۔انہیں تو صرف ایسے بندے پسند ہیں جودست نگر رہیں۔پتلیاں بنے رہیں۔عمران خاں کو ناتجربہ کاری کے سبب جن چھوٹے موٹے مسائل کا سامنا ہے۔یہ عناصر اس سے بھرپورمزالے رہے ہیں۔ابھی انہیں لطف اندوزی کے اور بھی بہت سے مواقع میسررہیں گے۔عمران خاں کے لیے مرکز میں حکومت بنانے کے لیے ناخوشگواراقداما ت اٹھانا پڑے۔وہ کچھ لوگوں سے ہاتھ ملانے پر آمادہ نہ تھے۔ملانا پڑے۔ کچھ لوگوں کو ساتھ بٹھانا نہیں پسند نہ تھا۔یہ لوگ ساتھ بٹھانا پڑے ۔ کئی عہدے اور مراتب شاید کچھ اور لوگوں کے لیے سوچ رکھے تھے۔انہیں کچھ اور لوگوں کے سپرد کرنا پڑا ۔عمران خاں ۔جہانگیر ترین۔علیم خاں ۔چوہدری فواد۔سب کے سب دل کی دل میں رہ گئی کی تفسیر بنے ہوئے ہیں۔ پنجاب فتح کرنابھی توقع سے زیادہ کٹھن رہا۔آزاد اراکین کو ساتھ ملانے کا کھیل اتنا لمبا ہوتا چلا گیا کہ عزت سادات بھی چلی گئی۔خیال تھا دو چار دن میں چوری چوری چپکے چپکے ضرو رت کے مطابق سامان خرید لیا جائے گا۔کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔شرافت ایمانداری اور پارسائی کا پردہ اترنہ پائے گا۔ایسا نہ ہوسکا۔اسلام آباد میں ان آزاد لوگوں کو انصافی بنانے کا کھیل اتنا لمبا ہوگیا کہ بچے بچے کو ایچی بیچی کا پتہ چل گیا۔اب خاں صاحب پریشان ہیں کہ صدارتی الیکشن آن پہنچے ۔اب پھر وہی سری سیاپا۔وہی بارگین۔وہی نخرے اور وہی بے اصولیاں جانے اس طرح کے اور کتنے امتحان آنا باقی ہیں؟

پی پی کی طرف سے اعتزازاحسن کا نام کسی خفیہ ڈیل کا غمازی ہے۔اعتزا ز احسن کو اگر نصف انصافی قراردیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ان کا ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو وہ پی پی سے زیادہ عمران خاں کے ہم آواز رہے ہیں۔انہوں نے لیگی قیادت کو پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ قراردینے میں عمران خاں کی آواز میں آواز ملائی ۔ان کے میڈیا ٹاک شوز دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے پی ٹی آئی میں گھسنے کی راہ نکال رہے ہیں۔اگر ان کے نام پر آج زرداری صاحب ڈٹ رہے ہیں تو کچھ نہ کچھ وجہ ضرور ہے۔تاہم وہ وجہ پارٹی مفاد نہیں ہوسکتی ۔اگر پی پی کا مفاد عزیز ہوتاتو جناب زرداری خود صدارتی الیکشن میں حصے لیتے ۔یا کسی دوسرے اہم ترین بندے کا انتخاب کرتے جس کی پارٹی سے وفاداری مسلم ہوتی۔وہ خورشید شاہ کا نام چلنے ۔راجہ پرویز اشرف ۔یوسف رضاگیلانی۔جیسے بیسیوں بڑے نام موجود ہیں۔رضاربانی ۔اور فرحت اللہ بابر جیسے لوگوں کے ہوتے ہوئے اگر اعتزاز احسن کا نام چناجاتاہے تو دال میں کچھ کالا ہونے کا شبہ پڑتا ہے۔اعتزاز احسن شریف فیملی سے اتنا ہی بغض رکھتے ہیں۔جتنا عمران خاں اس طرح کے صدارتی امیدوار کا نامزد ہونا پی پی کی طر ف سے خیر سگالی کا پیغام ہی تصور کیا جانا چاہیے۔جہاں تک متحدہ اپوزیشن کی بات ہے انہوں نے مولانا فضل الرحمان کو نامزد کرکے نہلے پہ دہلہ پھینکا ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور عمران خان ایک دوسرے کے لیے چڑ بن چکے۔اعتزاز احسن کانام تحریک انصاف کے لیے جتنا حوصلہ افز اء تھا۔مولانا کانام اتنا ہی بھیانک ہے۔یہ نامزدگی شاید نئی لیگی قیادت کی طرف سے بھی حکمت عملی تبدیل کیے جانے کا اشارہ ہے۔وہ بھی مصلحت اور رواداری سے ڈستے ڈستے دیوار سے جالگی ۔شہبازشریف اب جناب زرداری سے مذید لکا چھپی کھیلنے پر آمادہ نہیں ہیں۔مولانا فضل الرحمان کا انتخاب ان کی طرف سے نہلے پر دہلہ ہے ۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 124284 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.