صدارتی نظام کی چاپ

ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثارکی رفتارتندی اوراحتسابی تحریک یہ بتانے کوکافی ہے کہ ملک میں بہت ساری تبدیلیوں کا فیصلہ کرلیاگیاہے اوراس فیصلے کومقتدرحلقوں کی بھی حمائت حاصل ہے اوراس خاموش اکثریت کی بھی جوجمہوریت کے کڑوے پھل کھاکرانتخاب سے دن بدن کنارہ کش ہوتی جارہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ انتخاب میں ووٹوں کی شرح بڑھانے میں جعلی ووٹوں کاتناسب کتناہوتا ہے،یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔اب ملک میں حکمرانی کاطریقہ کارہی نہیں بلکہ نظامِ حکومت کے طریقہ کارکوبھی بدل کرملکی مزاج کے مطابق ڈھالنے کیلئے پارلیمان کی بجائے صدارتی کرنے کے پرانے منصوبے کوتکمیل تک پہنچا دینے کاپلان بھی بتایاجاتاہے۔یہ منصوبہ جو صدرجنرل محمدضیاء الحق کی سوچ وبچاراورشریف الدین پیرزادہ جیسے نامور قانون دان کی ریسرچ کانچوڑتھا۔ضیاء الحق کی شہادت کے تیس سال گزرنے کے بعداب تک یہ منصوبہ زندہ وجاویدایک حلقے میں رہاہے۔یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ نہ صرف جنرل ضیاء الحق کی برسی کے دن ہی پاکستانی کی پارلیمنٹ میں عمران خان کونیاوزیراعظم منتخب کیاگیاہے بلکہ اپوزیشن کی طرف سے گرینڈالائنس بھی ختم ہو کراب انفرادی اپوزیشن تک محدودہوکررہ گیا ہے گویاجمہوریت کی پٹاری میں سے اب کئی نئے کھیل تماشے شامنے آئیں گے جس کو دیکھ کرعوام موجودہ پارلیمانی نظام کی خامیوں کودیکھ کر نئی تبدیلی کی کھلے دل سے حمائت پرمجبورہوجائیں گے۔

اب پارلیمانی نظام کے یہ تلخ ثمرات بین الاقوامی سطح پربھی وقوع پذیرہوئے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے معاملات یمن جنگ کے بارے میں پارلیمنٹ میں گئے اوران حساس معاملات پرپارلیمنٹ نے جوپالیسی بیان دیااس نے پاکستان کی تنہائی میں اضافہ کردیا۔ایک ٹی وی انٹرویو میں سابق صدرآصف علی زرداری نے بتایاکہ اس وقت پاکستان دامے درمے سخنے مدد کرنے والے سعودی اوراماراتی حکومتوں کی ہمدردی ہی نہیں کھوچکاہے بلکہ سوائے تاجکستان کے کوئی بھی ملک حمائتی نہیں رہا۔ماہرین کے معاملے کوجب غیر ماہرین کی اکثریت سے مربوط کردیا جائے توایساہی ہوتاہے۔اب تویہ بحث بھی چھڑگئی ہے کہ پارلیمنٹ کوعدالت پربالادستی ہے کہ نہیں اورکون بالادست ہے۔

ملک کے آئین میں صدارتی نظام کی کوئی گنجائش نہیں مگر یہ بھی نہیں ہے کہ ملک میں گنجائش نکالنے والے ماہرقانون بھی نہیں ہیں نظریہ ضرورت اورچیف ایگزیکٹوکی اصطلاح کے ذریعے فوجی حکمرانوں کی گنجائش بھی تونکال لی گئی آخرآصف زرداری بخوبی جانتے ہیں کہ اگرکرنے والے کرنے پرآئیں توسب کچھ کرگزریں گے،اس لئے انہوں نے اپنے صدارتی دورکے آخری مہینوں میں صدرکے اختیارات کم کرکے انہیں پارلیمنٹ کومنتقل کردیاتھاتاکہ اگرصدارتی نظام کا فیصلہ ہوتوصدرکے اختیارات ذوالفقار علی بھٹوکے دورکے صدرچوہدری فضل الٰہی جیسے ہوں مگرباخبرحلقوں کاکہنا ہے کہ صدارتی نظام کی بھی تیاری کرنے والوں نے تیاری مکمل کی ہوئی ہے۔ پارٹی گرفت سے آزادممبران اسمبلی اس کام میں ان کے ساتھ ہوں گے اورپارلیمنٹ جس نے صدرکے اختیارات ماضی قریب میں وزیراعظم کومنتقل کیے تھے ،وہ خوش دلی کے ساتھ صدر کو اختیارات منتقل کرنے اورملک میں صدارتی نظام نافذکرنے میں کوئی لیت ولعل سے کام نہیں لیں گے۔

ان آزادارکان پرکسی کاکوئی دباؤ بھی نہیں ہوگا،نہ ہی یہ کسی کے فیصلے کے پابندہوں گے۔ ترکی کے صدرطیب اردوگان نے جس طرح نظام حکومت بدل کررکھ دیا،یہ عمل پاکستان میں بھی جگہ بناسکتاہے۔عدالتی احتساب اورجمہوریت کے امتزاج سے ملک کوایک ایسا نظام حکومت دیئے جانے کی کوشش ہے جومتوازن ہو۔صدرمملکت بے دست وپانہ ہو اورپارلیمنٹ منہ زورنہ ہو۔پہلے صدرکے پاس اسمبلی برخواست کرنے کاآئینی اختیار''اٹھاون ٹو بی"تھاجو پارلیمنٹ کے دلدادہ حض نے ختم کردیا،اب یہ حالت ہوچلی ہے کہ پارلیمنٹ جس کے فیصلوں نے پاکستان کوعالمی سطح پرتنہائی کاتحفہ دیا۔وہ عدالت کے پرکاٹنے اورفوج کے نظام کوہاتھ میں لینے کی حدتک سوچنے لگاہے۔ترکی طرزکا صدارتی نظام جس میں صدرکوکل کاسٹ کردہ ووٹوں کاپچاس فیصدلینالازم ہوتا ہے،اگرکوئی بھی امیدواریہ تعدادحاصل نہیں کرپاتاتو سب سے زیادہ اوردوسرے نمبروالے امیدوارکے درمیان دوبارہ مقابلہ کرایاجاتاہے اوریوں پچاس فیصد سے زائد کاحامل صدربن جاتاہے اورصدرکوجوحقیقی اکثریت کا نمائندہ ہوتا ہے خوب اختیارات ہوتے ہیں۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستان کے مقتدرحلقے اسی طرز حکومت کی پیش بندی کئے ہوئے ہیں ۔کیایہ عجیب بات نہیں کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی بلاشرکت غیرے حکومت رہی ،اس کے ووٹ مخالف ووٹوں کی تعدادسے کم تھے اور یوں جعلی اکثریت نے اسے سندھ میں حکمران بنادیا۔اب آصف زرداری اورفریال تالپورکے گردگھیراتنگ ہونے سے اس پارٹی کوبھی گرد و غبار کا سامناہے اوربات دوسری سمت چل رہی ہے۔آصف زرداری کے ساتھی انورمجیداوران کے بیٹے غنی مجیدکوبینکنگ کورٹس کی طرف سے نہ صرف گرفتاربلکہ ان کا جسمانی ریمانڈ بھی دے دیاہے۔ان پرالزام ہے کہ انہوں نے سمٹ بینک پاکستان سے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے 40 /ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی ہے۔انورمجیدکے اکاؤنٹس سے نہ صرف آصف زرداری کے اکاؤنٹس میں رقوم کی منتقلی کے شواہدمل گئے ہیں بلکہ مشہور زمانہ ماڈل گرل ایان علی کوبھی زرداری صاحب کے اکاؤنٹس سے ادائیگی کے ثبوت مل گئے ہیں۔ایک اطلاع کے مطابق بینکنگ کورٹس نے آصف علی زرداری اوردیگر19/مفرورافرادکے ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کردیئے ہیں جبکہ فریال تالپورضمانت قبل ازگرفتاری کرواچکی ہیں۔یادرہے کہ ماڈل گرل ایان علی عدالت سے ضمانت منظورہوتے ہی ملک چھوڑچکی ہے جبکہ ایان علی کے مقدمے میں تحقیقات کرنے والے انسپکٹر کوقتل کردیاگیاتھااوراس کے قاتلوں کاابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔گویا بات چل نکلی ہےاب دیکھیں کہاں تک پہنچے!

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 317074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.