مظلوم سائنسدان

عمران خان کی حکومت آتے ہی ملک میں سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی گئی جس میں یہ مطالبہ تھا کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کی خدمات کے صلے میں صدر پاکستان بنایا جائے۔ یہ مطالبہ بیچاری عوام کا تھا جو فرط محبت میں یہ باتیں کررہی تھی ۔ انہیں کیا معلوم کہ یہاں خدمات کے صلے میں عہدے نہیں دیے جاتے بلکہ دیے گئے عہدے بھی چھین لیے جاتے ہیں۔ انہیں عزت دینے کے بجائے ان کے ساتھ ذلت آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔انہیں ہیرو بنانے کے بجائے زیرو بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستانی ایٹم بم کے خالق ، عظیم مسلمان سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے ساتھ بھی ایساہی کچھ کیا گیا۔ ڈاکٹر عبد القدیرخان وہ مایہ ناز مسلمان سائنس دان ہیں جنہوں نے آٹھ سال کے انتہائی قلیل عرصہ میں انتھک محنت و لگن کی ساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کرکے دنیا کے نامور نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالا تھا۔ مئی ۱۹۹۸ء میں آپ نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے مقابلہ میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے تجرباتی ایٹمی دھماکے کرنے کی درخواست کی ـ اور آپ نے چاغی کے مقام پر چھ کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کیے ـ۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبد القدیر خان نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہم نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔ ۱۹۸۹ء میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ہلال امتیاز کا تمغا عطا کیا گیا۔ ۱۹۹۳ء میں کراچی یونیورسٹی نے ان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند سے نوازا۔ ۱۴ ؍ اگست ۱۹۹۶ء میں صدر پاکستان فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا ۔ ایٹمی دھماکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی پاکستان کی سلامتی کے لیے یہ ایک ایسی کاوش تھی جس نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت Critical Mass کے مصنف نے لکھا: ’’پاکستان ٹیکنا لوجی کی اس معراج کو پہنچ جائے گا کہ وہ ایٹم بم بناسکے گا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا، کسی اور قوم کی تاریخ ایسی نہیں ہے کہ انہوں نے وسائل کی اتنی کمی کے باوجود اتنا کچھ کر دکھایا ہو جتنا پاکستانی قوم نے کیا، ہر لحاظ سے پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ ایک سو سے زائد دنیا کے ممالک میں پاکستان غربت کی سطح کے ۱۲۰ ویں نمبر پر آتا ہے، اس کی اکثریت ان پڑھ ہے۔ پاکستان مشکل سے زندہ رہنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے پاس ایران جیسا تیل کا ذخیرہ نہیں ہے نہ عراق کے شیوخ کی دولت ہے۔ اس کی صنعت بھی بھارت کے مقابلے جیسی نہیں ہے۔ اسرائیل جیسے سائنسدانوں کی کھیپ بھی اس کے پاس نہیں ہے۔ یہ کوریا جیسا رازداں بھی نہیں ہے جو کسی بھی ملک کی مضبوطی کی علامت ہوا کرتی ہے، الغرض پاکستان ایک ایسا استثنیٰ کہ جو ہر قاعدے کی نفی کررہا ہے۔ ایسے میں اس کا ایٹمی قوت ہوجانا کسی طور معجزے سے کم نہیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب کے اس کام پر پوری دنیا میں پذیرائی ہوئی لیکن پاکستان میں ان پر بے بنیاد الزام لگاکر ان کی کاوشوں کوداغ دار کیا گیا۔ ان کا عرصۂ حیات تنگ کیا گیا۔ ایٹمی دھماکے کے بعد مغربی دنیا نے پروپیگینڈا کے طور پر پاکستانی ایٹم بم کو ’’اسلامی بم ‘‘ کا نام دیا جسے ڈاکٹر عبد القدیر خان نے بخوشی قبول کر لیا۔پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر صاحب پر ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کا الزام لگایا گیا اور اسی الزام میں آپ کو نظر بند کردیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے دیرینہ رفیق جبار مرزا صاحب اپنی کتاب ’’ نشانِ امتیاز‘‘ میں لکھتے ہیں: کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ غیر ملکی پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں اور ہم محسنوں کو مجرم بناکے ترنگ میں کہتے پھرتے ہیں کہ ’’ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں!‘‘ حالانکہ جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کے سامنے تاریخ کا سب سے بڑ ا بزدل ہونے کی مثال قائم کی ہے۔

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی اور باقاعدہ مہم چلا کر اس کا اعزاز ’’ثمر مند‘‘ کے سر رکھنے کی کوشش کی گئی ۔مشاہد سید حسین اور ان کے چاہنے والے جن میں خلیل ملک بھی شامل تھے، انہوں نے ۲۸مئی ۱۹۹۸ء کو چاغی کی سرنگ میں کیے جانے والے طاقتور ایٹمی دھماکے کا سہرا ’’ثمر مند ‘‘ کو پہنانے کی کوشش کی۔ راتوں رات راولپنڈی اسلام آباد کی شاہراہوں کی دیواروں پر ثمر مبارک مند زندہ باد، چاغی کے ہیرو کو دھماکے مبارک کے نعرے لکھوادیے ۔ ثمر مبارک مند کی آمد پر اس کا بھر پور استقبال کرکے میڈیا کو تاثر دیا گیا کہ ایٹمی دھماکوں کا ہیرو ثمرمند مبارک مند ہی ہے۔ حالانکہ پاکستان کے سابق صدر غلام اسحاق خان نے زاہد ملک کے نام اپنے ایک خط میں لکھا تھا : ’’ یہ افسوس ناک بات ہے کہ ۲۸ مئی ۱۹۹۸ء کے تجربات کی کامیابی میں غیر ضروری تضاد پیدا کردیا گیا ہے کہ اس کی کامیابی میں کون کتنا حصہ دار ہے۔ یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی KRLٹیم کے سوا کوئی اور نہ تھا۔ ‘‘ اسی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھی جبار مرزا پر بھی یہی دباؤڈالا گیا۔ جب ان پر خفیہ اداروں نے دباؤ ڈالا کہ ثمر مند کو ہیرو بناؤ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو میں نے ہیرو نہیں بنایا، میں ہیرو نہیں بناتا اور ہیرو بنائے بھی نہیں جاتے ، ہیرو پیدائشی ہوتے ہیں ، ثمر مند نہ آج ہیرو ہے نہ کبھی بن سکے گا۔ تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ سرکاری پریس ریلیز جو جاری ہوئی اس میں ثمر مبارک مند کو ہیرو بنایا گیا اور اخبارات میں بھی اسی پریس ریلیز کی بنیاد پر خبریں بنائی گئیں اور ثمر مبارک مند کو زبردستی ہیرو بنایا گیا۔الغرض ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا احسان مند ہونے کے بجائے ان پر روزِ اول سے ہی ملک کے اندر اور باہرمسلسل تنقید ہورہی ہیں ۔ بیگانے تو بیگانے ، اپنے بھی ان کی کر دار کشی کرنے میں مصروف ہیں۔ ان پر عرصۂ حیات تنگ کرکے ان کی خدمات کا صلہ دیا ریاجارہا ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے کالم ’’فقید المثال گمنام ہیروز‘‘ میں میزائل لانچنگ کے متعلق لکھتے ہیں : ’’اپریل ۱۹۹۸ء میں جب ایک اہم ٹیسٹ کرنے والے تھے تو ہم نے کہوٹہ کے قریب لانچنگ سائٹ بنائی تھی کیونکہ ہمارے لئے یہ سیکورٹی کے لحاظ سے اور ہر قسم کی سہولت قریب ہونے کی وجہ سے بہت مناسب جگہ تھی۔ لانچنگ سے دو دن پہلے ایک اعلیٰ افسر جو خود کو عقل کل سمجھتے تھے اور اکثر اچانک اُلٹے سیدھے فیصلے کر لیتے تھے کو یہ خیال آیا کہ میزائل جب داغا جائے گا تو پنڈی پر سے گزرے گا اور اگر یہ وہاں گر گیا تو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے، ہمیں سائٹ تبدیل کرنے کو کہا گیا۔ ہمارے لئے یہ بہت بڑی پرابلم بن گئی۔ ان صاحب کو سمجھایا کہ اگر میزائل میں خرابی ہوتی ہے تو لانچنگ کے وقت یا فوراً بعد ہوتی ہے اور چند سیکنڈ میں یہ میزائل تین سو کلو میٹر سے بھی اونچا چلا جاتا ہے، اگر اس دوران میزائل پھٹ جائے تو اس کے اتنے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہو جاتے ہیں کہ ان کے گرنے سے کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ بہرحال ہمیں ٹلّہ جہلم سے میزائل فائر کرنا پڑا۔‘‘ آگے لکھتے ہیں: ’’یہاں ایک اہم واقعہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں جہلم اور ٹلّہ رینج کور کمانڈر منگلا کے انڈر آتی ہے، اس وقت وہاں کا کور کمانڈر مشرف تھا۔ میں نے ازراہ خوش اخلاقی اس کو فون کیا کہ ہم آپ کے علاقہ سے لمبی مار کے، ایٹمی ہتھیار لے جانے والی، بیلسٹک میزائل فائر کرنے والے ہیں میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں اور یہ لانچنگ دیکھیں۔ اس نے کہا مجھے چیف جنرل جہانگیر کرامت نے اس کی اطلاع دی ہے اور نہ ہی دعوت دی ہے کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں۔ میں نے کہا میں ان کو بتا دوں گا کہ میں نے دعوت دی ہے، جنرل کرامت بہت نرم مزاج، کم گو اور اچھے افسر ہیں انھوں نے اجازت دے دی۔ دوسرے دن صبح سات بجے جنرل مشرف اپنے ہیلی کاپٹر میں آئے، مجھ سے میرے ساتھیوں جن میں جناب چوہان (سابق سرجن جنرل پاکستان آرمی اور پھر ہمارے میڈیکل ڈویژن کے سربراہ)بھی شامل تھے ملاقات کی۔ ہم اوپر ایک چھت پر بیٹھ گئے جہاں سے ہر چیز بہت صاف نظر آ رہی تھی۔ جب مشرف نے ہم سے گفتگو شروع کی تو اس کے منہ سے شراب کی بو آ رہی تھی، میں نے کہا کہ ایسے مبارک دن اس حالت میں آنا مناسب نہیں ہے اس کو یہ بات بُری لگی اور بعد میں جب یہ آرمی چیف بن گیا تو اس نے ملکی مفاد کے قطعی برعکس یہ بیانات دیے کہ وہ میزائل ٹیسٹ فیل ہو گیا تھا اور وارہیڈ اپنے ہدف پر نہیں پہنچا۔ اگر یہ فرض کر لیا بھی جائے کہ ایسا ہوا ہو تو کیا ایک ملک کے سربراہ کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اس قسم کے ملک دشمن بیانات دے۔ بہرحال عقل ہوتی تو یہ بات سمجھ میں آتی‘‘۔

ڈاکٹرصاحب کے خلاف کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ جبار مرزا صاحب کی کتاب ’’ نشانِ امتیاز‘‘ پر پڑھ دل خون کے آنسو رو پڑتا ہے کہ ملک کے حکمرانوں نے محسن کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔ اس کتاب کا ایک واقعہ پڑھ دل دہل جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی عافیہ صدیقی کی طرح امریکہ کے قبضے میں جانے سے بال بال بچے۔ جنرل پرویز مشرف اپنے دورِ آمریت میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا سودا کرچکے تھے۔ جنرل پرویز مشرف سے متعلق سابقہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش نے اپنی کتاب Decision Pointمیں گلہ کیا اور لکھا کہ جنرل پرویز مشرف نے وعدے پورے نہیں کیے حالانکہ وہ عسکریت پسندوں کو لینے کے لیے جنرل مشرف کو بھاری قیمت دیتے رہے۔ صدر بُش نے نام نہیں لکھا ۔ اس جملے میں انہوں جس شخصیت کے نہ ملنے کا گلہ کیا ہے وہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں جن کے سر کی قیمت پرویز مشرف نے وصول کرلی تھی۔ راولپنڈی کے ہوائے اڈے چکلالہ نور خان ائیر بیس پر فوجی ٹرانسپورٹ طیارہ C-130تیار کھڑا تھا۔ مگر اس وقت کے وزیرِ اعظم میر ظفر اﷲ خان جمالی نے بطورِ چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر صاحب کی Exitپر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ظفر اﷲ جمالی صاحب کی وزارتِ عظمیٰ سے جبراً علیحدگی کردی گئی تھی اور چوہدری شجاعت کو وزیرِ اعظم بنادیا گیا تھا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب پر مقدمہ چلا کر۲۰۰۴ء میں نظر بند کردیا گیا تھا۔ کوئی جرم ثابت نہیں ہوسکا۔ صرف ایک ہی جرم تھا کہ انہوں نے پاکستان کو مضبوط کرنے اور ملک کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ایٹمی پروگرام کو مضبوط کیا۔ بس اسی جرم کی پاداش میں نظر بند کیا گیا۔ بہت سارے الزامات لگائے گئے لیکن پانچ سال تک ایک بھی الزام ثابت نہیں ہوسکا۔ بالآخر ۶ فروری ۲۰۰۹ ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے محسنِ پاکستان کو باعزت بری کیا لیکن اسی کے ساتھ چند شرائط لگائی گئیں ۔ وہ یہ تھیں کہ اگلی ساری عمر بیرونِ ملک نہیں جاسکیں گے۔ فارن میڈیا سے نہیں ملیں گے، لوکل میڈیا سے ملاقات سے پہلے اجازت لینا ہوگی، لوکل شہر کے اندر کہیں جانے کے لیے چار گھنٹے پہلے اطلاع کرنی ہوگی اور بیرونِ شہر جانے کے لیے چار دن پہلے بتانا ہوگا۔ اس کے بعد حفاظت پر معمور عملے کی صوابدید پر منحصر ہوگا کہ وہ کن شرائط پر اجازت دے یا نہ دے۔ مذہبی جماعتوں کے راہنماؤں سے ملاقات کی اجازت نہیں ہوگی۔ ایک شرط یہ بھی تھی کہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پرویز مشرف پر تنقید نہیں کریں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ بعض اوقات جبار مرزا صاحب جیسے ڈاکٹر صاحب کے بہت قریبی اور دیرینہ ساتھیوں کی ملاقات میں بھی رخنہ ڈال دیا جاتا تھا۔ انہیں وجوہات کی بناء پر اور ڈاکٹر صاحب کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے ظفر اﷲ خان نیازی نے کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ ہمارے ’’زندہ شہید ‘‘ہیں ۔ ان شرائط سے اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ محسن کے احسان کا بدلہ کس طرح دیا جارہا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر صاحب نے اپنے انٹر ویو میں کہا تھا کہ میں اب ملک کے لیے کچھ نہیں کروں گا کیونکہ یہاں قدر کرنے کے بجائے الٹا الزام لگادیا جاتا ہے اور زندگی عذاب بنادی جاتی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کو انہیں کے رفقاء کے ذریعے بدنام کروانے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ جبار مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر عبد القدیر صاحب کے سلسلے میں میرے پاس ایک سابق فوجی کرنل آئے ۔ ابتداءً انہوں نے میرے کالموں کی تعریف کی ، پھر کبھی کسی سوشل مسئلے پر ہمدردی کا اظہار کیا۔ چند دن بعد مجھ سے فون نمبر مانگا۔ پھر مجھ سے ملنے آگئے ۔ مجھے PTIمیں شمولیت کی دعوت دی۔ وہ میرے گھر پر PTIکا بہت بڑا جھنڈا لگانا چاہتے تھے جس کا میں نے انکار کردیا۔ میرے انکار پر وہ بولے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی محبت کے خمار سے باہر نکلو ۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ آپ کے پاس گاڑی بھی نہیں ہے۔ اور گھر بھی کرائے کا ہے، بچوں کی شادیاں ابھی باقی ہیں۔ کبھی غور کیا کہ کس قدر مشکلات درپیش ہیں؟ آپ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ رہیں گے تو یہی حال رہے گا۔ پھر کہا کہ اگلے ایک آدھ دن میں ملنے آؤں گا تو خود کو بدلنے کی کوشش کرلیں۔ اگلے روز وہ میرے پاس ایک آفر لے کر آئے او ر کہا کہ بحریہ ٹاؤن اسلام آباد میں ایک کنال کی ڈبل منزل کوٹھی آپ کے لیے موجود ہے۔ میں نے کہامیرے پاس کیش نہیں۔ وہ بولے کہ تحفہ ملے گا۔ میں نے ان کی طرف غور سے دیکھا تو وہ مزید فرمانے لگے کہ گاڑی بھی ملے گی اور ہاں دو تین سال کا پیٹرول بھی مل جائے گا۔ لیکن اس قدر مہربانی کے بدلے مجھے کیا کرنا پڑے گا؟ وہ بولے ایک کتاب تیار پڑی ہے بس صرف آپ کا نام اوپر لکھنا ہے اور پندرہ بیس ہززار چھاپ کے بانٹ دینی ہے۔ یہ کیا کام ہوا؟ جو کتاب میں نے لکھی ہی نہیں وہ میرے نام سے کیسے چھپ سکتی ہے؟ آخر وہ کتاب ہے کیا؟ کرنل صاحب بولے وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف ہے۔ ان کی اس بات سے فوراً میرا دھیان مبشر لقمان کی کتاب ’’کھرا سچ ‘‘ کی طرف چلا گیاجسے بعض دفعہ تیزی میں’’ کھسرا سچ‘‘ پڑھ جاتا ہوں ۔ مذکورہ کتاب مبشر لقمان نے نہیں لکھی بس اوپر اس کا نام ہے۔ وہ کتاب لغویات پر مبنی اخلاق باختہ کتاب روزنامہ جنگ کے چیف ایڈیٹر جناب میر شکیل الرحمٰن کے خلاف ہتک آمیز مواد لیے ہوئے ہے۔ اور وہ کتاب بھی انہی کرنل صاحب نے چھپوائی تھی۔بہرحال میں نے کرنل صاحب سے پوچھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے متعلق کتاب کے لیے آپ کی نظرِ انتخاب مجھ پر ہی کیوں پڑی؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ اس لیے کہ آپ گذشتہ دو تین عشروں سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے رابطے میں ہیں۔ ان کے بھروسے کے بندے ہیں۔ اُن پر چند کتابیں آپ کی چھپ بھی چکی ہیں۔ آپ کے نام سے آئے گی تو لوگ یقین کرلیں گے ۔ موقع ہے چھوڑو ڈاکٹر واکٹر کو ۔ خود کو سنبھالو۔ آفر قبول کرلینے سے ہمارا مقصد تو پورا ہوگا ہی اور آپ کی بے خانمی بھی ختم ہوجائے گی۔ زندگی کے بقیہ چند دن سکون سے گزار لوگے ۔ مزید کہا کہ فیصلہ کرنے میں تاخیر سے آپ کا نقصان ہوگا۔ ہمارا کیا ہے ہم تو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے مقاصد حاصل کرلیں گے ، بس مجھے رہ رہ کر آپ کا خیال آتا ہے اسی لیے میں نے آپ سے بات کی ۔ میں نے کہا: کرنل صاحب ! اگر محشر میں ڈاکٹر صاحب سے میرا سامنا ہوگیا اور انہوں نے مجھ سے پوچھ لیا کہ جس بنگلے اور گاڑی کے لیے دوستی کا سودا کیا تھا وہ دنیا میں ہی کیوں چھوڑ آئے ؟ قبر میں لے آتے۔ تو پھر میں انہیں کیا جواب دوں گا؟ کرنل نے کہا: جس جہاں میں زندہ ہو اس کی فکر کرو ، جو ابھی آنا ہے دیکھا بھی نہیں اس کو چھوڑدو۔ میں نے کہا مجھے کرائے کے مکان میں پڑا رہنے دیں ۔ آخرت بچالینے دیں۔ اگر ڈاکٹر صاحب میدان حشر مجھے گریبان سے پکڑ کر میرے آخری نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اورکہہ دیا کہ یہ ہے وہ بد بخت جس نے اپنی دنیا سنوارنے کے لیے میرے اعتماد کا خون کیا تو بتائیں میں کیا جواب دوں گا۔ میری بات جاری تھی کہ کرنل صاحب چائے کا آدھا کپ چھوڑ کر غصے میں کھڑے ہوئے اور گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔

ان واقعات سے حکمرانوں کی ڈاکٹر صاحب سے دشمنی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے ساتھ کتنا قابلِ مذمت رویہ روا رکھا جارہا ہے۔ اعلیٰ سطح پر ان کے خلاف سازشیں کرکے انہیں بدنا م کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے حکمرانوں کا یہ رویہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ ایک ایسا شخص جسے اﷲ تعالیٰ نے ملک کو ایٹمی پاور بنانے صلاحیتیں عطا کی ہوں تو اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ شکنی کرنا انتہائی افسوس ناک عمل اور ملک و قوم سے غداری کا ثبوت ہے۔ بدقسمتی سے قوم کاہیرو آج اپنے گھر کی چار دیواری میں جیل سے بھی زیادہ سختیوں میں اپنی زندگی کے باقی ایام گزارنے پر مجبور ہے۔ جس ہیرو کو آج اپنی مرضی سے زندگی گزارنے نہیں دیا جارہا تو اسے ملک کا صدر بنانے کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
 

Muhammad Riaz Aleemi
About the Author: Muhammad Riaz Aleemi Read More Articles by Muhammad Riaz Aleemi: 79 Articles with 76264 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.