پی ٹی آئی کی حکومت عوام کو ریلیف دے !

 پاکستانی عوام نے کرپٹ سیاست دانوں کی لوٹ مار اوربر سر اقتدارحکمرانوں کی عوامی مسائل سے لاتعلقی سے تنگ آکر 2018 کے عام انتخابات میں دو پرانی اور بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں عمران خان اور ان کی قائم کردہ سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف PTI کو بڑی تعداد میں ووٹ دے کر اس امید پر ایوان اقتدار تک پہنچایا کہ عمران خان اورپی ٹی آئی نے اپنی طویل سیاسی جدوجہد اور انتخابی مہم کے دوران کرپشن کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے عوامی مسائل کو حل کرتے ہوئے تبدیلی لانے کی باتیں کیں ۔عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے قبل دعوے کیے کہ وہ انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے بعد اقتدارمیں آکر پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ کرینگے ،کرپٹ سیاست دانوں کا احتساب کریں گے اور سادگی اختیار کرتے ہوئے ایساطرز حکمرانی اپنائیں گے کہ عوام کو تبدیلی ہوتی ہوئی نظربھی آئے گی ۔

اگر یہ کہا جائے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی جانب سے لگائے جانے والے کرپشن سے نجات اور تبدیلی کے پرکشش نعروں نے اس بار پاکستان کی روایتی سیاسی جماعتوں کی شکست میں بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے پاکستانی سیاست کا نقشہ پلٹ کر رکھ دیا تو غلط نہ ہوگا ۔پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس طرح کی ایک مثال ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی قائم کردہ سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قائم کی تھی جن کی جانب سے لگائے جانے والے سیاسی نعروں ’’روٹی کپڑا اور مکان ‘‘ اور’’ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ‘‘کی عوام میں زبردست پذیرائی نے اس وقت پاکستان کی تمام روایتی سیاسی جماعتوں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو شاندار انتخابی فتح سے ہمکنار کیا تھا۔ذوالفقار علی بھٹو نے تو انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنی پارٹی کے بنیادی نعروں کے مطابق عوامی طرز حکمرانی اختیار کرتے ہوئے پاکستانی عوام کے حقوق کی پاسداری بھی کی اور عوام کو سستی روٹی ،سستا کپڑا اور سستے مکان بھی فراہم کیے جس کی وجہ سے پاکستانی سیاست میں قائداعظم محمدعلی جناح کے بعد سب سے بڑا مقام آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کو ہی حاصل ہے کہ انہو ں نے اپنے دورحکومت کے دوران جو بنیادی نوعیت کے کام اور انقلابی اقدامات کیے وہ ان سے پہلے یا ان کے بعد اقتدار میں آنے والا کوئی حکمران آج تک نہیں کرسکا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی اور عمران خان اپنے نعروں ،دعووں اوروعدوں کے مطابق حکومت کرتے ہیں یا پھر یہ بھی گزشتہ دس سال سے پاکستانی سیاست پر قابض روایتی سیاست دانوں کی طرح عوامی امنگوں کا خون کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے عوام دشمنی پر مبنی اقدامات کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔لیکن ایک بات عمرا ن خان اور پی ٹی آئی کی وجہ سے اقتدار میں آنے والے ہر سیاست دان اور حکمران کو یاد رکھنی چاہیے کہ اگر اس بار بھی عوام کے ساتھ وہی کچھ کیا گیا جو کہ ماضی میں اقتدار کے ایوانوں میں موجود حکمران طبقہ کرتا رہا ہے تو پھر شاید پاکستانی عوام پھر کسی سیاست دان اور سیاسی پارٹی پر کبھی بھروسہ نہیں کرے گی بلکہ ہوسکتا ہے کہ لوگ مایوس ہوکر انتخابات میں ووٹ ڈالنا ہی چھوڑ دیں اس لیے عوامی بھروسے اور اعتماد کو قائم رکھنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری اس وقت وزیراعظم عمران خان اور دیگر وزیروں ،مشیروں اور حکومتی عہدیداروں پر عائد ہوتی ہے۔انتخابات کے دوران جو نعرے وعدے اور دعوے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے کیے گئے ان سب پر عمل کرنا موجودہ سیاسی اور ملکی حالات کو درست سمت میں لے جانے کے لیے بہت ضروری ہے ۔گوکہ عمران خان کو وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائض ہوئے ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں اس لیے ان کی حکومت پر کڑی تنقید کا وقت ابھی نہیں آیا کہ عمران خان نے بھی اپنی حکومت کے خدوخال اور طرز سیاست کے اثرات ظاہر ہونے کے لیے 100 دن کی مہلت مانگی ہے لیکن ایک مشہور کہاوت پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں کے مصداق عمران خان کے ایک ماہ سے زائد عرصے کے دوران کیے گئے اقتدامات سے ان کے آئندہ کے عزائم اور طرز حکومت کا کچھ اندازہ ضرور لگایا جاسکتاہے۔

جہاں تک بات ہے سادگی اختیارکرنے اور حکومتی اخراجات میں کمی کرنے کے حوالے سے عمران خان اور ان کے دیگر اہم حکومتی وزرا کے قول وفعل اور کارکردگی کی تو اس میں تو عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کے دیگر قائدین بھرپور طریقے سے عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔تبدیلی کے دعویدار عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد قوم کو جو چند نمایاں تبدیلیاں فوری طور پر دکھائی دیں ان میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حب الوطنی کے بھرپور اظہار کے ساتھ پاکستان کی قومی زبان اردو اور پاکستان کے قومی لباس شلوار قمیض کی اہمیت اور عزت وتوقیرمیں اضافہ کرنا ،وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کرتے ہوئے حکومتی اخراجات میں کمی کرنا،وزیر اعظم کے لیے مخصوص پرتعیش رہائش گاہ میں رہنے سے گریز ،حکومتی وزرا کابغیر کسی امتیازی پروٹوکول کے عام مسافروں کی طرح قطار میں لگ کر بورڈنگ کارڈ لے کر مسافروں کے ساتھ اکانومی کلاس میں سفر کرنا،وزیراعظم سے ملنے کے لیے آنے والوں کی خاطر داری میں نہایت سادگی کے ساتھ چائے ،بسکٹ اور پانی پیش کرنا،گورنر ہاؤسز کے دروازے عوام الناس کے لیے کھول دینا ،پرائم منسٹر ہاؤس کے ملازمین کی تعداد میں نمایاں کمی کرنا اور وزیراعظم ہاؤس میں موجود انتہائی قیمتی گاڑیوں کو نیلا م کرکے ان کی رقم قومی خزانے میں جمع کروانا،وزیراعظم کے ملکی اور غیر ملکی دوروں کے دوران روایتی پروٹوکول نہ لینااور اسی طرح کے بہت سے اقدامات ہیں جو عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد نئی حکومت کی جانب سے انجام دیے جارہے ہیں جس سے سیاسی ماحول اور طرز حکومت کے اسٹائل میں واضح تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے۔لیکن یہ تمام تبدیلیاں ایسی ہیں جنہیں دیکھ کر عوام خوش تو ہورہے ہیں لیکن اس سے ان کی روزمرہ زندگی کی مشکلات میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہورہی اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی ماحول اور طرز حکومت میں رونما ہونے والی یہ تمام مثبت تبدیلیاں یقینا قابل تعریف اور قابل تقلید ہیں اور ان کے پاکستانی معاشرے پردوررس نتائج بھی مرتب ہونگے لیکن ایک عام آدمی کو تبدیلی اس وقت محسوس ہوگی جب اس کے دیرینہ مسائل حل کیے جائیں گے ،جب مہنگائی پر قابو پاکر تنخواہ در طبقے کی مشکلات دور کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے اور جب حکومت کی جانب سے عوام کو سبسڈی دیتے ہوئے پیٹرول ،گیس ، بجلی ،آٹا ،چینی اور گھی کی قیمتوں میں کمی کی جائے گی تو اس وقت پاکستانی عوام بڑے فخر کے ساتھ یہ کہ سکیں گے کہ عمران خان کو انہوں نے جس تبدیلی کے لیے ووٹ دے کر ایوان اقتدار میں پہنچایا تھا وہ تبدیلی عمل میں آچکی ہے اور جس دن ایسا ہوگیا اور عام آدمی کو یہ محسوس ہونے لگا کہ حکمران طبقہ عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کررہا ہے اور عمران خان کے دور اقتدار ختم ہونے سے پہلے ان کے بیشتر عوامی مسائل حل ہوجائیں گے تو یقین جانیے وہ دن پاکستان بھر کے لیے حقیقی تبدیلی کا دن ہوگا ۔
گوکہ پی ٹی آئی کے حامیوں کا یہ موقف بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ عمران خان کے پاس کوئی الہٰ دین کا چراغ یا جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ وہ آتے ہی سب کچھ چند دنوں میں ٹھیک کردیں گے اور پاکستانیوں کے تمام دیرینہ مسائل چند ماہ میں حل ہوجائیں گے جیسا کہ اپوزیشن جماعتیں اور بعض عوامی حلقے ان سے توقع کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ اس بات کوبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ماضی کی حکومتوں کی جانب سے رائج بادشاہانہ طرز حکومت اور عوامی مسائل سے بے رخی نے ہی عمران خان کی سیاست کے لیے راہیں ہموار کی ہیں اگر سابقہ حکومتیں عوام کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی دکھاتیں تو گزشتہ 35 چالیس سالوں سے پاکستانی سیاست میں سرگرم عمل اور بار بار اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی موجودگی میں عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے لیے انتخابی سیاست میں کامیابی حاصل کرنا آسان کام نہیں تھا لیکن زرداری اور نواز کے کرپٹ اور شاہانہ طرز حکومت نے لوگوں کو نہ صرف پرویز مشرف کے دور کی یاد دلادی بلکہ سیاسی میدان میں عمران خان کو ایک بہترین متبادل کے طور پرابھر کر سامنے آئے اور یوں عوام نے پاکستان کے لیے کرکٹ کا عالمی کپ جیتے والے واحد کھلاڑی اور کپتان عمران خان کی کرکٹ کے علاوہ ان کی فلاحی خدمات اور عوامی طرز سیات کو دیکھتے ہوئے 2018 کے الیکشن میں اپنے ووٹوں کی طاقت سے عمران خان کو بڑی تعداد میں ووٹ دے کر پاکستانی سیاست کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔

زرداری اور نواز دورحکومت کی کرپشن ،اقربا پروری اوربدترین طرز حکمرانی سے تنگ آئی ہوئی عوام نے عمران خان کونجات دہندہ اور مسیحا سمجھ کر اس امید پر ووٹ دیا کہ اگر عمران خان اقتدار میں آگیا توو ہ ان کے زخموں پر مرحم رکھ کر ان کے دکھوں کا مداوا کرے گا اور مہنگائی سے عاجز آئے ہوئے عام آدمی کے لیے ایسے انقلابی اقدامات کرے گا جو اس سے قبل گزشتہ 10 سال کے دوران برسراقتدار رہنے والے حکمرانو ں نے نہیں کیے اوران سے مایوس ہوکر ہی انہوں نے عمران خان اور پی ٹی آئی سے اپنی امیدیں وابستہ کرلی ہیں ۔اب یہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوامی امنگوں پر پورا اترنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ ایسے عملی اقدامات کرے جن کافائدہ عام آدمی کو پہنچے کہ پیسے والوں کے لیے تو کوئی مسئلہ حل کرنا مشکل نہیں ہوتا ،مسائل تو غریب آدمی کو پیش آتے ہیں اور مسائل سے تو عوام کو اب تک نجات نہیں مل سکی بلکہ بعض معاملات میں تبدیلی کی دعویدار پی ٹی آئی کی حکومت نے عوام کو مایوس کیا ۔سوشل میڈیا اور اخبارات میں گردش کرنے والی خبروں کے مطابق بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے جبکہ پیٹرول مہنگا ہونے کی خبریں بھی کافی گرم ہیں اور ان تینوں اشیا ء کا شمار عوامی ضروریا ت میں ہوتا ہے جب یہ چیزیں مہنگی ہوتی ہیں تو اس کانتیجہ روزمرہ استعمال ہونے والی تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے جس سے ایک عام آدمی براہ راست متاثر ہوتا ہے ۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی اگر بجلی ،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں کمی نہ ہوسکی تو پھر عوا م کو عمران خان یا پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہونے سے کیا فائدہ پہنچا ؟ یہ وہ اہم ترین نکتہ ہے جس پر عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے تمام مرکزی قائدین کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا ہوگا کیونکہ عوام تو کمر توڑ مہنگائی اور اپنے گلی محلوں کے دیرینہ مسائل سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اگر انہیں کوئی ریلیف نہ ملا تو ایسی تبدیلی ان کے کس کام کی ۔لہذا پی ٹی آئی کی حکومت کو پیٹرول ،گیس اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی بجائے ان میں نمایاں کمی کرکے عوام کو ریلیف دینا چاہیے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو عوام نے کرپشن سے نجات،کرپٹ سیاست دانوں کے کڑے احتساب اور مہنگائی کے خاتمے کی امید پر ہی ووٹ دیا تھا اور اسی وجہ سے عمران خان آج وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہیں اور پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہے ۔

جو حکمران عوام کے مسائل کو حل کرکے ان کے دل جیتنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہ لوگوں کے دلوں اور تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جس کی روشن مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں قائداعظم محمدعلی جناح ،ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شکل میں موجود ہے۔اب یہ فیصلہ عمران خان نے کرنا ہے کہ وہ اپنا نام لوگوں کے دلوں اور تاریخ کے صفحات میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں یا پھر وہ زرداری اور نواز کے نقش قدم پر چل کر اپنے نام ،عزت ،شہرت ،مقام اور ساکھ کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دینا چاہتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت عوام کو ریلیف دے !

Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 126218 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More