خوف آتا ہے

شہر کر اچی کا ہر فر د سہما ہو ا ڈ را ہو ا دکھا ئی دے رہا ہے یو ں محسوس ہوتا ہے گو یا دشمن کے نر غے میں ہیں قا بض فوج فاتح کی طرح قتل عام کر رہی ہے اگر ایسا ہوتا تو ہم اپنے مقدر کا لکھا سمجھ کر صبر کر لیتے کہ آخر دہلی بھی تو سات بار لٹی تھی نا در شاہ نے وہا ں پر پا نچ روز تک قتل عام کا حکم صادر کر ایا تھا۔ لیکن ! یہا ں تو اپنے ہی اپنے گھر کو آگ لگا نے اپنے ہی گھر کے چراغ ہیں یہ تو ہمارے ہم وطن اور مسلما ن ہیں۔ کراچی میں آگ و خون کا کھیل پھر اپنے عروج پر ہے اربا ب اختیار اسے روکنے سے قا صر اور بے بس ہیں پھر وہی سیاسی پا ر ٹیوں سے گفت وشنید اور با ہمی مفا ہمت اور تعاون کی یقین دہا نیاں ہیں اس بار حکومت نے کراچی میں جزوی کر فیو کے نفا ذ کا فیصلہ کیا ہے اہل کر اچی کے لیے یہ کو ئی نئی با ت نہیں قیا م پا کستا ن کے بعد سے اب تک تیس مرتبہ کر اچی پر اس کا اطلاق ہو چکا ہے خدا کرے یہ نسخہ تیر بہ حدف ثا بت ہو اورشہر میں دیر پاامن قائم ہو سکے ۔ پیا رے نبی ﷺ نے فر ما یا ”تم میں ایک زما نہ ایسا بھی آئے گا کہ جب مقتو ل کو خبر نہ ہو گی کہ اسے کیو ں قتل کیا گیا “،آج ایسے ہی زما نے سے ہم گذ ر ر ہے ہیں‘یہ ہمارے لیے کسی عذا ب سے کم نہیں ’ جب انسان کے دلو ں سے انسا ن کا احترام اٹھ جا ئے تو سمجھ لیجیے کہ عذا ب کا مو سم آپہنچا ، ایک ہی ملک کے ایک ہی مذ ہب کے پیرو کا ر ایک ہی ملت کے امین ایک دوسرے کو خو فزدہ کر یں یا ان سے خو ف زدہ رہیں تو اس سے بڑھ کر عذاب موسم اور کیا ہو سکتا ہے ،ایک ہی وطن کے لو گ ایک دوسر ے کو بر ی نگا ہو ں سے دیکھیں کو ئی کسی کا پر سان حا ل نہ ہو تو با قی کیا رہ جا تا ہے انسان اپنے ہی دیس میں خو د کو پر دیسی محسو س کر نے لگے تو عذا ب ہے ۔ کسی سیا نے نے کہا ہے کہ جب زمانہ امن کا ہو اور حا لا ت جنگ جیسے ہو ں تو سمجھو عذاب ہے ۔جنا زے اٹھ رہے ہوں کند ھا دینے وا لو ں کی تعداد میں اضا فہ ہو تا جا رہا ہو ، آنکھیں نم ہو ں ارد گرد جشن منا نے وا لے در ند ے ہو ں، دلو ں سے مروت نکل جا ئے ایک دوسرے کا احساس ختم ہو جا ئے ، کیا ہم ظا لم قو م ہیں ،کیا ہم پر کو ئی عذا ب نہیں آئے گا یو م حسا ب نہیں آئے گا مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم واقعی ظالم پا کستا نی بے حس قوم ہیں ہما ری آنکھو ں پر نفرت کی پٹی بند ھی ہو ئی ہے ،کیا ہم نے کبھی یہ سو چا کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کے لیے کیسا پا کستا ن بنا رہے ہیں ہم انھیں کیا جواب دیں گے ۔ ہم نسل، ز بان علا قے کی بنیا د پر کب تک خون بہا تے رہیں گے یہ کیو ں بھو ل جا تے ہیں کہ جب تعصب کی ہوا چلتی ہے تو پھر انسانیت کو چ کر جا تی ہے ۔

کراچی کے با رے میں اب یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسے مختلف لسا نی اور قومیت کے در میا ن تقسیم کر دیا گیا ہے ایک قو میت کے فرد کو دوسرے علا قے میں جا نے کی اجا زت نہیں یا اسکے لیے خطرنا ک ہے ،کر اچی ایک آتش فشا ں کا روپ دھا ر چکا ہے جس میں وقفے وقفے سے لا وا ابل کر با ہر آتا ہے تبا ہی مچا تا ہے جا نو ں کا نظرانہ و صو ل کر تا ہے اور خا موش ہو جا تا ہے ۔

ایک ہفتے میں پچاس سے زائد شہری جا ن سے ہا تھ دھو بیٹھے کیا یہ المیہ نہیں ؟کچھ دن امن رہتا ہے پھر وہی بگڑتی صو رتحا ل ، روز انہ گھرو ں سے کا م پر نکلنے والوں کو کو ئی امید نہیں ہوتی کہ واپس صحیح سلا مت آئیں گے یا خدا نخوستہ کسی ان جا نی گو لی کا شکا ر ہو جا ئیں گیں کہیں سے کو ئی انسا ن نما حیوا ن وارد ہو کر کئی گھرو ں کے چشم وچرا غ گل کر کے غا ئب ہو جا تے ہیں، پھر لا کھ کو شش کر یں قا تلو ں کے با رے میں کچھ پتہ نہیں لگتا ۔خانہ پر ی کے لیے بے گنا ہ لو گ پکڑے جا تے ہیں قا نو ن نا فذ کر نے والے الگ بے بس ہیں گو یا ا پنے ہی ملک میں اپنے ہی لو گو ں کے ہا تھو ں ایک دوسر ے کے خو ن سے ہا تھ رنگے جا رہے ہیں ۔درجنو ں لو گو ں کی ہلا قتو ں کے بعد سرکا ری مشنری حرکت میں آتی ہے تصفیہ کے لیے پا رٹیو ں کو ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے سیا ست دا ن اپنی پا رٹی کی مظلو میت میں نعر ہ لگاتے ہیں کہ یہ سیا سی نعرے ان کی سیا سی اقتدار کو مستحکم کر تے ہیں ان کے وسائل کا رو بار چلتا ہے ان کی فتح کا پر چم بلند ہو تا ہے اور ہماری معصوم عوا م نہیں جا نتے کہ جس جگہ اور جہا ں ان کے مفا دات وا بستہ ہوں وہ اپنی قوم کو قر بانی کے لیے آگے کر دیتے ہیں یہ معصو م عوام اپنی قومیت کے زعم میں ما ری جا تی ہے ۔ کو ئی سندھی ہے تو اسے وڈیرو ں کی بڑا ئی اپنے اندر محسوس ہو تی ہے، کو ئی پنجا بی ہے تو گو جر چو ہدری سب سے اعلیٰ وارفع نظر آتے ہیں ، پشتو ن ہیں تو اپنے اندر خلجی عظمت کے امین بنتے نظر آتے ہیں ۔میں سمجھتی ہو ں کہ پا کستا نی ایک قوم بن کر رہنے میں ہما ری عظمت اور بھلا ئی ہے با قی سب با تیں فضو ل ہیں ہم سب ایک پا کستا نی شہری ہیں جو صدیو ں سے مختلف تہذ یبو ں کا گہوا را ہے،جہا ں تما م قو میت اپنا ایک ا علیٰ مقام رکھتی ہے اس لسا نی فسادات میں ہم اپنے ہی مسلما ن بھا ئی خو ن بہا رہے ہیں ایسی خطر نا ک صو رتحا ل سے نبٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ان ٹا رگٹ کلنگ کے اصل و جو ہا ت کو تلا ش کیا جا ئے جب تک اصل مسئلہ کو حل نہیں کیا جائے گا یہ سلسلہ جا ری رہے گا ٹار گٹ کلنگ کی جو لہر اس شہر میں آئی ہے خدا کر ے کہ اس کا خاتمہ ہو سکے ۔افتخار عارف کی یہ نظم ایسا لگتا ہے اسی شہر کے تنا ظرمیں لکھی گئی آپ کی نذر ہے۔
اس شہر و خس خاشاک بسے خو ف آتا ہے
جس شہر کا وارث ہوں اس سے خوف آتا ہے
شکل بننے نہیں پا تی کہ بگڑ جا تی ہے
نئی مٹی کو چا ک سے خوف آتا ہے
وقت نے ایسے گھمائے کہ افق، آفاق کہ بس
محور گردش سفا ک سے خوف آتا ہے
یہی لمحہ تھا کہ معیار سخن ٹہرا تھا
اب لہجہ بے کاک سے خوف آتا ہے
آگ جب آگ سے ملتی ہے تو لہو دیتی ہے
خاک کو خاک کی پو شاک سے خوف آتا ہے
کبھی افلا ک سے نا لوں کے جواب آتے تھے
ان دنوں عالم افلا ک سے خوف آتا ہے
رحمت سید لو لا ک پہ کامل ایما ن
امت سید لو لا ک سے خوف آتا ہے
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 147914 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.