عمران خان پر تنقید کیسی!؟

ہم ہار چکے ہیں، ہمارا کہیں کوئی حق نہیں، حتی کہ ہم اپنے حقوق پر بھی کوئی حق نہیں رکھتے ، ہم صرف اور صرف مغرب اور اہل مغرب نیز امریکہ کی بلکہ پیسے کی پرستش کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ کوئی ہمیں دوٹکے دے تو ہم ایمل کانسی کو بھی اس کی گود میں ڈال دیتے ہیں، کوئی ہمارے منہ میں چند ڈالر دال دے تو ہم عافیہ صدیقی کی بات ہی نہیں کرتے، ہم نہیں جانتے کہ ہم ایک آزاد ملک کے باشندے ہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ استعمار سے آزادی کے بعد ہمارے حقوق میں کس قدر اضافہ ہوا ہے، ہمیں احساس ہی نہیں کہ ۱۴ اگست نے ہماری زندگیوں میں کیا تبدیلی لائی ہے۔

ہمیں اپنی دھرتی میں چھپے خزانوں کا بھی ادراک نہیں، ہمارے معدنی ذخائر کو اغیار نکالتے اور لے جاتے ہیں ، چونکہ ہم ایسی ٹیکنالوجی اور تعلیم سے ہی نا آشنا ہیں، ہمارے آبی ذخائر خشک ہو رہے ہیں لیکن ہمارے نصاب تعلیم میں پانی کے بحران سے نمٹنے کی کوئی ٹکنیک ہمیں نہیں سکھائی گئی، ہمارے جنگلات سکڑ رہے ہیں لیکن ہماری تحقیقات میں کہیں جنگلات کا ذکر ہی نہیں آتا۔

ہمارے ہاں بعض پرندوں اور جانوروں کی نسلیں نایاب ہو رہی ہیں لیکن ہمارے نظامِ تعلیم و تربیت کا کوئی دریچہ اس طرف نہیں کھلتا۔ہمارے اقتصاد کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے لیکن ہماری کسی یونیورسٹی ، دینی مدرسے یا تھنک ٹینک کے پاس کوئی متبادل تھیوری نہیں۔

جن ممالک کے پاس پیسہ ہے وہ ہماری سیاست کو پہیے کی طرح گھماتے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کو انگلیوں کے اشاروں پر نچاتے ہیں، جن کے پاس عسکری طاقت ہے وہ ہمیں بارڈرز پر مشغول رکھتے ہیں۔جن کے پاس پیسہ ، نظریہ اور ٹیکنالوجی ہے وہ ہمیں آپس میں لڑاو اور کمزور رکھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

ہماری شکست خوردہ ذہنیت کا یہ عالم ہے کہ ہم جتنا اعتبار چین جیسے کافر ملک پر کرتے ہیں ، اتنا اعتبار کسی دوسرے اسلامی فرقے پر بھی نہیں کرتے ، ہم سے یہ تو نہیں برداشت ہوتا کہ کسی دوسرے فرقے کا جلوس ہماری گلی سے گزر جائے لیکن ہم امریکہ و مغرب میں جا کر وہاں کے ٹوائلٹس کو بڑی منکسر المزاجی سے صاف کرتے ہیں، ہم سے بازار میں کسی دوسرے مکتب کی کتاب بکتی ہوئی برداشت نہیں ہوتی لیکن ہم اپنے بچوں کو آکسفورڈ اور کیمرج کا سلیبس بخوشی پڑھاتے ہیں۔

ہمارے سکولوں میں ایسا نظامِ تعلیم رائج ہے جس سے صرف اور صرف امریکہ و مغرب کے نوکر پیدا ہوتے ہیں، جو دن رات ایک کر کے امریکہ و مغرب کی خدمت کرتے ہیں اور جو اگر پاکستان میں کسی پوسٹ پر بیٹھ بھی جائیں تو پیسے کی ہوس میں اتنی کرپشن کرتے ہیں کہ ادارے ناکارہ ہوجاتے ہیں اور اداروں میں منافع کے بجائے خسارہ ہونے لگتا ہے۔

اس ثقافتی ، علمی اور ذہنی شکست کے ساتھ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ہماری عورت امریکی و مغربی معاشرے کی طرح اپنے حقوق کا دفاع کرے،ہمارے ہاں بھی امریکہ و مغرب جیسی جمہوریت ہو، ہمارے انتخابات سے بھی امریکہ و مغرب کی طرح لائق لوگ برسرِ اقتدار آئیں، ہمارا معاشرہ بھی امریکہ و مغرب کی طرح آزاد ہو، ہمارا ملک بھی امریکہ و مغرب کی طرح ترقی کرے ، ہمارے لوگوں کوامریکہ و مغرب کی طرح وسائل زندگی فراہم ہوں اور ایسا کرنے کے لئے ہم نے صرف اور صرف بھیک مانگنے کا راستہ ڈھونڈ رکھا ہے۔

ہم اپنا ماضی بھول چکے ہیں ، ہم نے اسلام کو فراموش کر دیا ہے، ہم نے پاکستان بنانے کے مقصد کو دفنا دیا ہے،ہم نے اپنی خودی کھودی ہے،ہمیں نہیں معلوم کہ اسلام کے پاس بھی کوئی سیاسی، اقتصادی، اجتماعی اور آفاقی نظریہ موجود ہے، ہم واپس اسلام اور پاکستان کی طرف پلٹنے کے بجائے ، امریکہ اور یورپ کو اپنے بچوں کے لئے آئیڈیل بنا کر پیش کرتے ہیں۔

ہمیں بعض مولویوں نے جس قدر تعصب ، گالی گلوچ اور تکفیر سکھائی ہے اگر اس قدر دین سکھاتے تو آج ہم بھی اپنے ملک کے مسائل کے حل کے لئے کوئی دینی تھیوری پیش کرتے ۔

ہمارے دینی مدارس وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں، ہماری مساجد عالمی حالات سے لا تعلق ہیں، ہمارے علما کی اکثریت جدید علمی تھیوریز سے نا آشنا ہے اور ہمارے منبروں سے آج بھی فرضی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں،۔

ہماری توجہ اپنے نصابِ تعلیم پر ہے ہی نہیں، اصلاحات کے لئے ہماری ترجیحات میں ہمارے مدارس اور یونیورسٹیز نہیں آتیں، ہماری نظر اپنے معدنی و آبی ذخائر پر نہیں پڑتی،ہمیں اپنی نسلِ نو پر اعتماد نہیں اور ہماری فکر اپنی عوامی طاقت پر نہیں ٹھہرتی۔۔۔

ہاں یقین کیجئے ، ہماری شکست خوردہ ذہنیت ، بھیک مانگنے کے علاوہ کچھ اور سوچتی ہی نہیں اور بھیک مانگنے کا یہ عمل ہماری مساجد و مدارس سے شروع ہوتا ہے اور حکومتی ایوانوں تک جا پہنچتا ہے۔یہاں پیسے کے زور سے فتوے بکتے ہیں، مسلمانوں کی تکفیر ہوتی ہے اور حکومتوں کی پالیسیاں بنتی ہیں ۔ہمارے بعض دینی مدارس ، سعودی عرب سے بھیک مانگ کر طالبان پالتے ہیں اور ہمارے حکمران سعودی عرب سے بھیک مانگ کر ملک چلاتے ہیں۔

آپ خود بتائیں اگر عمران خان پیسے مانگنے سعودی عرب نہ جاتے توپھر کہیں اور تو جاتے ، مانگنی تو بھیک ہی تھی، ظاہر ہے جو پیسہ دیتا ہے وہ پالیسیاں بھی دیتا ہے، اب پیسہ لیا ہے تو اطاعت بھی کرنی ہوگی ،آج تک ہم پیسے والوں سے پیسہ لے کر اطاعت ہی تو کرتے چلے آرہے ہیں۔ سو اس دفعہ تنقید کیسی!؟ یہ کوئی پہلی مرتبہ تھوڑی ہورہا ہے۔۔۔ایسا ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا جب تک ہم اپنی خودی کی طرف نہیں پلٹتے۔

کاش حکومت کے ناقدین، تنقید کے بجائے کوئی متبادل تھیوری ، کوئی قابلِ عمل اقتصادی نظریہ اور کوئی نئی اقتصادی پلاننگ بھی پیش کرتے۔لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا چونکہ شکست خوردہ دماغ بانجھ ہوتے ہیں اور بانجھ دماغوں سے نئے افکار جنم نہیں لیا کرتے۔ جس معاشرے میں نئے افکار جنم نہ لیں وہاں گداگر تو پیدا ہوتے ہیں مفکر نہیں۔


 

nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 64761 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.