دکھی عاشق اور شاعری کی زبان

تحریر زہرا تنویر لاہور
کچھ لوگوں کو شعر و شاعری سے انتہا کا عشق ہوتا ہے کہنا تو شغف چاہیے لیکن ہم یہاں بات کریں گے ان دکھی آتماؤں کی جو ہر وقت عشق و عاشقی پر مبنی شاعری سن کر اور پڑھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے رہتے ہیں۔ اور اس محبت پر پٹ سیاپے ڈالے رکھتے ہیں جو ان لوگوں کو نے کبھی کی ہی نہیں۔ اب محبت کرنے لیے کوئی نازک اندام حسینہ کا بھی ہونا ضروری ہوتا ہے نا جو ان ’’فیلنگ سیڈ‘‘اور ’’فیلنگ لو‘‘والوں کو ملتی ہی نہیں اور اگر کبھی قسمت ان پر مہربان ہو ہی جائے تو صبا ایزی لوڈ والی بیلنس لے کر یہ جا وہ جا اور پھر یہ دکھی آتما ایک عدد روتے منہ بسورتے ماڈل کی تصویر کے ساتھ ایک شعر پوسٹ کر کے اپنے ناکام عشق کی تعزیت وصول کرتے ہیں۔ تعزیت دینے والے بھی ان سے بڑھ کر ہوتے ہیں ایسی ہائے وائے کرتے ہیں کہ الامان۔ ایک موصوف تو اپنے دوست کو کہنے لگے کہ وہ تمہارے قابل ہی نہیں تھی یہ پڑھ کر تو دل میں ان کی ڈی پی کو غور سے دیکھنے کا خیال آیا بس پھر ہم بھی اس بات سے سو فیصد متفق ہو گئے تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ کہ جی آپ واقعی اس قابل نہیں تھے۔

خیر بات ہو رہی تھی شاعری کی تو ایسی شاعری جس میں نینوں کے تیر کی جگہ محبت کے تیر و کمان ہوں، جدائی کی جگہ موت سے کم پر راضی نہ ہوا جائے، وعدے زبان کلامی نہ ہو بلکہ registry کروا کر سائن لے کر کیے جائیں اور آنسوؤں کی جگہ خون کی بات ہو۔ اب اس شاعری کے دیوانے خون سے کم پر بات کرنے کو اپنی توہین مانتے ہیں۔ خون نہ ہو گیا پانی ہو گیا وہ بھی اب دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن یہ عاشق حضرات خون کے بغیر بات کرنے پر تیار ہی نہیں۔ کچھ تو محبوب کو خط بھی خون سے لکھتے رہے ہیں اب سوشل میڈیا کا دور ہے تو فوٹو شاپ کی سہولت سے استفادہ کر کے خون کی بچت کرتے ہیں۔ لیکن ایک بات سوچنے والی ہے کہان کی خوراک کیا ہے جو خون و تیر ہی ہر بات کا آغاز و اختتام ہوتے ہیں۔

ایک بات اس طرح کی شاعری کے دلدادہ حضرات کے حوالے سے یاد آئی کہ جب موبائل اتنا عام نہیں تھا تو اس عاشقی قبیلے نے ایک ڈائری رکھی ہوتی تھی جس پر چن چن کر ایسے شعر نوٹ کیے جاتے تھے جو بوقت ضرورت محبوب کو خط لکھتے یا پھر ملاقات پر سنائے جاتے۔ ہم تو اس محبوب کی ہمت کو داد دیے بناء نہیں رہ سکتے جو اتنی خونی اور لنگڑی شاعری سن کر محبت پر یقین لے آتا ہے۔ سچ کہتے ہیں پیار اندھا ہوتا ہے چاہے کوئی شکل و صورت پر مر مٹے یا پھر ظالم شاعری پر۔ آپ میں سے کچھ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر یہ کون سی شاعری ہے جس کی ٹانگیں توڑی جا رہی ہیں تو آپ کی سماعتوں کی نظر چند اشعار کرتے ہیں تاکہ آپ بھی فیض یاب ہوں۔ ہم تو اکثر و پیشتر یہ سعادت حاصل کرتے رہتے ہیں۔ شعر ملاحظہ فرمائیں۔
جنازہ دیکھ کر میرا وہ بے وفا بول ہی پڑی معصومیت سے
وہ ہی مرا ہے نا جو مجھ پہ مرتا تھا

اب حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو مرنے کے بعد کس کو کچھ پتا چلت ہے کہ میرے جنازے میں کون آیا لیکن ہمارے ہاں کچھ لوگ مرنے سے پہلے یہ وصیت کرتے ہیں کہ مجھے کچھ ہو گیا تو فلاں فلاں رشتے دار کو میرے جنازے میں نہ آنے دینا۔ اب اس شعر میں بھی کچھ ایسی صورت حال ہے کہ زندہ رہتے تو قدر نہ ہوئے لیکن جنازہ دیکھ کر محبوب بول پڑا یہ تو وہی ہے جو مجھ پر مرتا ہے۔ تو پہلے کیا سوئی تھی جب زندہ تھا۔ اور جو زندہ تھا اس کو اتنی حسرت تھی یہ سننے کی تو کوئی ڈرامہ ہی کر لیتا مرنے کا۔ کچھ مزید اشعار
فاصلہ رکھیں ورنہ
پیار ہو جائے گا
ان فاصلہ ہی رکھنا ہے تو پھر یہ شعر کہنے کا مقصد؟؟؟
میرے مذہب میں شراب پینا حرام ہے
اس لیے تیری جدائی میں لسی پی رہا ہوں

یہ شدید قسم کے مذہبی عاشق کے جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے جو نہ تو حرام کو پینا چاہتا ہے اور نا ہی محبوب کو ناراض۔ اس لیے محبوب لکی خوش کے لیے لسی کا جام نوش فرما کر رجسٹرڈ عاشق بننے کی تمنا کر رہا ہے۔
اگر تیری یاد کا کوئی میٹر ہوتا
تو سب سے زیادہ بل ہمارا ہوتا

یہاں بجلی کے بل دیے نہیں جاتے اور یہ موصوف اتنے امیر ہیں کہ جدائی کے بل دینے کو تیار ہیں۔
نا بندوق رکھتے ہیں
نا تلوار رکھتے ہیں
شکر گڑھ کے شہزادے ہیں
جگر اور جگر میں، جان رکھتے ہیں
کیا شاہانہ کلام ہے اس کی تشریح دل گردہ رکھنے والے ہی کر سکتے ہیں۔
آگ لگی ہو جب دل میں
پھر حرج کیا ہے پینے میں
یہ والے عاشق تو خون کو چھوڑ کر آگ میں کود پڑے۔ اﷲ ان کے دل کو ٹھنڈا کرے نہیں تو ریسکیو 1122 کال کرنی پڑے گی۔
زہر کے قابل بھی نہ تھے کچھ لوگ
افسوس ہم انہیں جگر کا خون پلاتے رہے۔
ان حضرت کی ہمت کو داد دینی چاہیے جو جگر کا خون پلاتے رہے ورنہ لوگ تو خون کی تلاش میں مارے مارے پھرتے۔
اب ان اشعار میں موجود جو تخلص ہوتے ہیں ان کا مختصر سا ذکر کریں تو میری نظر سے جو تخلص گزرے ہیں سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ کے طور پر لکھے جاتے ہیں۔ جن میں سرفہرست دکھی آتما، سونی، گجر، چوہدری، شہزادی وغیرہ ہوتے ہیں۔ ہم اس خودساختہ عشق و عاشقان شاعری کے لیے ہمہ وقت دعاگو ہیں کہ یہ کسی صورت جنازے اور خون سے کم پر راضی ہو جائیں ۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1028647 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.