چین میں ہاؤسنگ بحران: پانچ کروڑ مکان اور کوئی مکین نہیں

چین کے وہ شہر جہاں ہزاروں کی تعداد میں خالی مکانات مکینوں کا انتظار کر رہے ہیں، دنیا بھر میں ’آسیب زدہ شہر‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

یہ خالی جگہیں اب سیاحت کا گڑھ بن چکی ہیں، لیکن یہ ملک کے حکام کے لیے پریشان کن ہیں۔ ایک آزادانہ تحقیق کے مطابق ملک بھر میں 20 فیصد سے زیادہ گھروں میں کوئی نہیں رہتا۔
 

image


چین میں گھروں کے سروے کو گین لی نے مرتب کیا ہے، جو کہ ٹیکساس کی اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں اکنامکس کے پروفیسر ہیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں ہزاروں چینی محققین کی مدد حاصل کی۔

یہ معلوم ہوا ہے کہ ان میں زیادہ تر جائیدادیں ایسے لوگوں کی ملکیت ہیں جو پہلے سے ہی صاحبِ جائیداد ہیں۔

عالمی مالیاتی فنڈ کے مطابق دنیا کے دس مہنگے ترین شہروں کی فہرست میں سات چینی شہر شامل ہیں۔

گین لِی کہتے ہیں شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہاؤسنگ مارکیٹ میں بہت کم خاندان شامل ہونا چاہتے ہیں۔

سرمایہ کاری کی ڈیمانڈ کی وجہ سے گھروں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ زیادہ خریدار وہ تھے جن کے پاس پہلے سے ہی گھر موجود تھے۔

چائنا ہاؤس ہولڈ فنانس سروے کے مطابق سنہ 2013 میں اور پھر اگلے برس بھی پہلی مرتبہ گھر خریدنے والوں کی تعداد میں 48 فیصد سے 20 فیصد تک کمی آئی ہے۔
 

image


چینی سرمایہ کاروں نے سٹاک مارکیٹ کے بجائے ہاؤسنگ سیکٹر میں سرمایہ کاری کو ایک متبادل کے طور پر ڈھونڈ لیا ہے۔

بہت سے خاندان اپنے بچوں کی مدد کے لیے بھی پراپرٹی میں پیسہ لگا رہے ہیں۔ خاندانوں کے درمیان شادی بیاہ کے معاملات میں بھی پراپرٹی ایک اہم چیز سمجھی جاتی ہے۔

گذشتہ کچھ سالوں میں چینی پالیسی میکرز نے اس روش کو کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کی۔

یہاں تک کہ صدر شی جن پنگ نے کہا کہ ’گھر رہنے کے لیے ہوتے ہیں قیاس آرائیاں کرنے کے لیے نہیں۔‘

گذشتہ مئی میں قانون سازوں نے اگلے پانچ سال کی ترجیحات میں سب سے اوپر پراپرٹی پر ٹیکس لگانے کو رکھا، ایک ایسا پروجیکٹ جس کی مکان مالکان، خاص طور پر امیر مکان مالکان مخالفت کرتے رہے ہیں۔
 

image


گذشتہ برس حکومت نے نیشنل لینڈ اونر شپ ڈیٹا بیس کا آغاز کیا تھا جو کہ مستقبل میں ٹیکس کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے تھا۔

حکام جو بھی کریں انھیں اس عمل کو بہت احتیاط سے کرنا ہو گا۔ یہ اندازہ ہے کہ چین کے کل مجموعی پیداوار کا اندازاً پانچواں حصہ ہاؤسنگ مارکیٹ سے جڑا ہے اور یہ خدشہ ہے کہ اسے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایک کنسلٹنسی کمپنی ایف ٹی کی جانب سے کی جانے والی خفیہ ریسرچ کے مطابق ٹیکس لاگو ہو گیا تو پھر شہری علاقوں میں رہنے والے 20 فیصد مالکان اپنی خالی جائیدادوں کو بیچ دیں گے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیچنے میں تیزی کی وجہ سے قیمتوں میں گراوٹ اور شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

گا لِی نے گذشتہ برس اپنے ایک آرٹیکل میں کہا تھا کہ ’حکومت سے منسلک باخبر ماہرین معاشیات کے درمیان پراپرٹی ٹیکس کو لاگو کرنے کے بارے میں کافی عرصے سے اتفاق رائے ہے۔‘

’مسئلہ سیاست کا ہے۔ کوئی بھر ہاوسنگ مارکیٹ میں آنے والی مندی کی ذمہ داری اپنے سر نہیں لینا چاہتا۔‘

YOU MAY ALSO LIKE:

Chinese President Xi Jinping’s mantra that homes should be for living in is falling on deaf ears, with tens of millions of apartments and houses standing empty across the country. Soon-to-be-published research will show roughly 22 percent of China’s urban housing stock is unoccupied, according to Professor Gan Li, who runs the main nationwide study.