تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے،،،

گذشتے ہفتے دو خبریں عوامی سطح پر زبردست طریقے سے موضو ع بحث رہیں ایک چیف جسٹس آ ف پاکستان کا وہ بیان جس میں انہوں نے کہا کہ موجودہ تبدیلی والی حکومت کے پاس تبدیلی کے لیے کوئی صلاحیت ہے نہ اہلیت،ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج صاحب کی اس اسٹیٹمنٹ کے بعد طوفان کا اٹھنا ایک لازمی امر تھا بہت سے لوگوں کو پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لینے کا سنہری موقع میسر آ گیاکہ اب بتائیں صحافیوں پر تو لفافے کی تہمت اور الزام لگایا جاتا ہے چیف صاحب کو تو کئی لفافہ نہیں دے سکتا پی ٹی آئی والے وضاحتیں دیتے پھر رہے تھے تحریک انصاف مخالفین اگلے پچھلے حسابات اور کھاتے چکتا کرنے ہی والے تھے کہ چیف جسٹس صاحب کا بیان آ گیا کہ ان کی رولنگ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا نہ صرف یہ کہ چیف صاحب نے جنگ اور دی نیوز کی سخت سرزنش کی بلکہ بھری عدالت میں پوچھا کہ کدھر ہے جنگ کا رپورٹراور پھر جنگ و نیوز کو نوٹس بھی جاری کر دیے یو ں یہ قصہ تو تمام ہوا تاہم ایک بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ جیو جنگ اور نیوز نے کوئی پہلی دفعہ ایسا نہیں کیا یہ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ عدالت عالیہ سے ڈانٹ کھا چکے ہیں اب کی بار اگر انہوں نے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کیا ہے تو ان کے خلاف بھرپور کاروائی کی جانی چاہیے،تاہم پی ٹی آئی کے لوگوں کو بھی ذیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیوں کی چیف جسٹس آف پاکستان کا بیان بنی گالہ کیس میں جاری ہوا تھا یہ وہی کیس ہے جس میں خان صاحب کا سینکڑوں کنال اراضی پر بنا گھر ابھی تک ریگولائز نہیں کیا گیا بحرحال معاملہ عدالت میں ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ اس کا فیصلہ میرٹ پر ہو گا ،دوسری اہم خبر جس پر بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں مختلف تبصرے کیے وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیٹے کی شادی کے موقع پر چوہدری نثار اور چوہدری اعتزاز احسن کا تقریباً ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر گروپ فوٹو بنواناہے ،جو لوگ ان دونوں کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ یہ دونوں حضرات بظاہر ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں اور پانچ سال قبل جب اپنے خان صاحب نے کنٹینر پر چڑھ کر میاں نواز شریف کو للکارنا شروع کیا تھا اس وقت جہاں تما م پارلیمنٹیرینز پارلیمنٹ کو بچانے کے لیے متحد تھے اس وقت یہ دونوں اصیل ککڑوں کی طرح ایک دوسرے کو ٹھونگیں مار رہے تھے، اگر ایک دوسرے پر ناجائز پراپرٹی کے الزام لگا رہا تھا تو دوسرا ایل پی جی کے کوٹے کا ذکر کر کے پہلے والے کو چڑا رہا تھا دونوں پارٹیز کے ہیڈز اپنے اپنے پاٹے خان کو سمجھانے کی سر توڑ کوشش میں مصروف تھے،میاں نواز شریف نے تو اعتزاز احسن کی تقریر جس میں جناب نے فرمایا تھا یہ ابھی بھی مجھے گھور رہے ہیں کے وقت چوہدری نثار کو باقاعدہ قابو کر رکھا تھا، انہی دنوں چوہدری نثار نے ایک بار اچانک پریس کانفرنس کا اعلان کر دیا جب گورنمنٹ شدید مشکلات کا شکار تھی ، بتایا گیارات آٹھ بجے چوہدری نثار پریس کانفرنس کر کے اپوزیشن او ر خصوصاً چوہدری اعتزاز احسن کے پرخچے اڑائیں گے،واضح رہے موصوف اس وقت وزیر داخلہ تھے اور اپنے فلمی اسٹائل سے اشرافیہ اور کسی حد تک عوامی حلقوں میں خاصے مقبول بھی تھے انہیں اس پریس کانفرنس سے روکنے کے لیے میاں نواز شریف کو کس حد تک اور کیا جد و جہد کرنا پڑی یہ وہ ہی بہتر بتا سکتے ہیں تاہم اتنا ضرور ہوا تھا کہ حسب معمول عین وقت پر چکری کا شیر بکری ہو گیا اور پریس کانفرنس ملتوی کر دی گئی دوسری طرف بھی صورتحال مختلف نہیں تھی چوہدری اعتزاز احسن نے چوہدری نثار کی مخالفت میں وہ پھریرے لہرائے کہ خدا کی پناہ اور عین اس وقت جب اسمبلی کے اندر اجلاس پورے جوبن پر تھا باہر بلوائی ڈنڈے سوٹے اٹھائے پارلیمنٹ اور پی ایم ہاؤس پر قبضہ کرنے کے درپے تھے تب اعتزاز احسن نے موقع غنیمت جان کر چوہدری نثا ر اور حکومت کے خوب لتے لیے اور اعلان کیا کہ میں اگر چاہوں تو ابھی ساری اپوزیشن کو ساتھ لیکر آپ کی حکومت ختم کر دوں،جموریت پسند لوگ اور قوتیں حیران و پریشان تھیں کہ ان دونوں چوہدری برادران کو آخر ہوا کیا ہے یہ وقت کی نزاکت کو کیوں نہیں سمجھ رہے مگر اس وقت اکثر لوگ ان دونوں کو نہیں سمجھ رہے تھے کہ یہ دونوں اندر سے ایک تھے،ان دونوں کا اندر سے ایک ہونا اب بلکہ کبھی بھی سامنے نہ آتا اگر جنرل صاحب کے صاحبزادے کی دعوت ولیمہ ان دونوں کی اصلیت ہر خاص و عام پر مکمل آشکار نہ کر دیتی نہ ہی کسی کو ان کی اوقات کا پتہ چلتا،سچ ہے کہ دنیا سے رخصت ہونے سے قبل انسان کا باطن آ شکار ہو کر رہتا ہے،یہ دونوں حضرات نہ جانے کب تک خلق خدا کو مزید بے وقوف بناتے مگر بڑے گھر سے بلاوا آ گیا اور یہ دونوں تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے کے مصداق تمام کدورتیں مٹا کر فوراٍ ہی حاضر خدمت ہو گئے،اسی لیے ان سیاستدانوں کے لیے اکثر میں کہتا ہو ں کہ کچھ فرق نہیں ان ساروں میں ، یہ بظاہر ایک دوسرے کے دشمن ایک دوسرے کے نقاد ہیں مگر اپنے مفاد کے لیے سب ایک ہیں ،ان کے نزدیک احساسات حمیت غیرت نام کی کوئی چیز نہیں ،پیسہ اور ڈنڈا ان کی کمزوری ہے ،بڑے بڑے جگادری جو کبھی ذوالفقار علی بھٹو کا دم بھرتے تھے پھر میاں صاحب کا پھر پرویز مشرف نے آن واحد میں پرانی مسلم لیگ میں سے نئی مسلم لیگ تخلیق کر لی،یہاں نوٹ ویکھا میرا موڈ بنے والا محاورہ جو کبھی بازار حسن کی طوائفوں کے لیے مقبول تھا آج ان سیاستدانوں پر فٹ آتا ہے،حال ہی میں چکوال میں بھی تین بڑے جغادری ایک پارٹی سے دوسری ،دوسری سے تیسری اور پھر چوتھی میں پہنچے کچھ نے تحریک انصاف چھوڑی تو کسی صاحب نے عین عالم شباب میں ن لیگ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا،یہاں بھی مقصد طمع حرص اور لالچ کے علاوہ ذاتی مفاد تھا،حیرانی ان قلابازیاں کھاتے مد اریوں پہ نہیں ہوتی حیرت اس اندھی بہری قیادت پر ہوتی ہے جو سب کچھ جانتے بوجھتے اور دیکھتے سنتے بھی پھر انہیں ہی عام کارکنوں پر تر جیح دیتے ہیں،ماریں کھانے اور جیل جانے کے لیے کارکن جبکہ اسمبلی اور اعلیٰ ایوانوں میں جانے کے لیے یہ نانہاد الیکٹیبلز،مگر جو قیادت کارکنوں سے وفا نہیں کرتی وقتی طور پر ان بڑے پردھانوں کو لیکر اسمبلی میں تو پہنچ جاتی ہے مگر انجام یہی ہو تا ہے جو آج دوبڑی پارٹیوں ن لیگ اور پی پی پی اور ان کی اعلیٰ قیادت کا ہو رہا ہے،،،اﷲ سب پر رحم کرے،،