پاک امریکا دوستی میں تناؤ

 حالیہ تناؤ پر بات کرنے سے پہلے ہم پاک امریکا دوستی اور صدر ٹرمپ کی ماضی میں پاکستان سے متعلق ہرزہ سرائیوں کا سرسری جائزہ لیتے ہیں تا کہ یہ بات سمجھنے میں آسانی رہے کہ اس تناؤ کے اصل محرکات کیا ہیں۔ پاکستان نے ابتداء ہی سے مغربی ممالک خصوصاً امریکا کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر خاصی توجہ دی اور بہت سے موقعوں پر امریکا کی فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کیا۔ ان کا سب سے بڑا سبب قیام پاکستان کے وقت بلکہ اس سے قبل سے نئی دہلی کے ایسے مذموم عزائم تھے جن سے نوزائیدہ مملکت کو مٹانے کے خطرات بالکل واضح تھے لہٰذا ان تعلقات کا مقصد دشمن پڑوسی ملک کو یہ پیغام دینا تھا کہ نئی مملکت تنہا نہیں ہے اور اگر کوئی آزمائش کا وقت آیا تو اس کے اتحادی شانہ بشانہ نظر آئیں گے۔ دوسری جانب سوویت یونین اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے باعث امریکا کے لئے بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ خطے میں اثر و رسوخ کا توازن برقرار رکھنے کے لئے پاکستان سے دوستی استوار کرے۔ تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان نے پچھلے اکہتر برسوں میں امریکا کے ساتھ دوستی کا حق ادا کیا ہے اور ہر آزمائش اور مشکل کی گھڑی میں اُس کا ساتھ دیا ہے۔ جب 1979 ء میں روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو پاکستان نے روس کے خلاف جنگ میں اپنے قومی مفادات کو قربان کرکے امریکا کی ڈکٹیشن پر عمل کیا اور امریکہ کی فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کیا جس کی وجہ سے پاک روس تعلقات ابتر ہوئے۔ اس کے برعکس اس حقیقت سے بھی راہ ِ فرار ممکن نہیں کہ 1965 ء اور 1971 ء کی جنگوں میں پاکستانیوں کو اپنے دوست ملک کے حوالے سے سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا حالاں کہ اس آمازئش کی گھڑی میں ڈھیروں اُمیدیں وابستہ و پیوستہ تھیں۔ روس سے ابتر ہوتے ہوئے تعلقات بعد ازاں پاکستان کے مشرقی بازو کو کاٹنے کے بھارتی عزائم میں روس کی اعانت کا سبب ٹھہرے۔ اس واقعہ کا افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ اسلام آباد کو دوست ملک امریکا کی جانب سے ایک بحری بیڑا بھیجنے کی تسلیاں دی جاتی رہیں جو آج تک پاکستان کی کسی بندرگاہ پر لنگر انداز نہ ہو سکا اور یوں مشرقی پاکستان کا سقوط ہو گیا۔ تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ واشنگٹن نے کئی بار مسئلہ کشمیر کے پُر امن حل کی یقین دہانیاں اور وعدے کئے جو آج تک ایفا نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ امریکا نے متعدد بار ہماری فوجی و اقتصادی امداد بند کی۔ ان تمام حقائق کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ اپنی دوستی کا حق برابر ادا کیا اور نائن الیون کے واقعات کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگی مہم میں ایک بار پھر فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کیا اور عوامی جذبات کو کچل کر افغان پالیسی پر یو ٹرن لیا جس کا خمیازہ پاکستان نے بھاری جانی و مالی نقصان کی صورت میں برداشت کیا۔ پاکستان کی ان قربانیوں کو امریکا نہ کبھی کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا ہے ۔ جہاں تک صدر ٹرمپ کی بات ہے تو انہوں نے صدارت کی کرسی سنبھالنے سے قبل 2012 ء میں ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا۔ ’’اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے لئے پاکستان کو تمام دنیا سے معافی مانگنی چاہیے ‘‘۔ فوکس نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا۔ ’’امریکا کے دس ہزار فوجی افغانستان میں رہنے چاہئیں کیوں کہ افغانستان پاکستان کا ہمسایہ ہے جو کہ ایک نیو کلیئر طاقت ہے ‘‘۔سی این این کو دیئے گئے بیان میں کہا تھا۔ ’’پاکستان کا ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام ایک اہم مسئلہ ہے، انہیں چاہیے کہ صورت حال پر بہتر کنٹرول حاصل کریں ‘‘۔مارچ 2016 ء میں لاہور میں ایسٹر کے تہوار کے موقع پر مسیحی بھائیوں پر دہشت گردی کے حملے میں ستر سے زائد ہلاکتوں پر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا تھا ۔ ’’ اس مسئلے کا حل صرف میرے پاس ہے ‘‘۔انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کہا تھا ۔ ’’ پاکستان دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے۔جس کو کنٹرول کرنے کے لئے بھارت کو حرکت میں لانا ہوگا۔ میں اس سلسلہ میں فوراً بات چیت شروع کروں گا ‘‘۔ایک اور بیان میں موصوف کا کہنا تھا کہ پاکستان نیم غیر مستحکم ملک ہے اور دہشت گردوں کا ٹھکانہ ہے۔ جنوری 2017 ء میں صدارت کی کرسی پر براجمان ہونے کے بعد توقع یہی تھی کہ الزام تراشیوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہے گا۔ اُس نے مارچ 2017 ء میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ امریکی بجٹ میں شامل ان رقوم میں کمی لائی جائے گی جو اتحادی ممالک کو بطورِ امداد فراہم کی جاتی ہے ، یعنی 2016-17 کے بجٹ میں افغانستان ، اسرائیل اور پاکستان کے لئے بالترتیب 4.7 ارب ڈالر ، 3.1 ارب ڈالر اور 742 ملین ڈالر کی امداد مختص کی گئی تھی۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ امریکا پاکستان کو جو مالی امداد فراہم کر رہا ہے اس کا تعلق زیادہ تر افغانستان میں جاری امریکی آپریشنز کے لئے سہولت کاری کی فراہمی ہے۔ اس سال کے آغاز میں انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ امریکا نے گزشتہ پندرہ برسوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر بطور امداد دے کر بے وقوفی کی جب کہ انہوں نے ہمیں سوائے جھوٹ اور دھوکے کچھ نہیں دیا۔

حالیہ تناؤ گزشتہ اتوار کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فوکس نیوز سے بات کرتے ہوئے شروع ہوا۔ جس میں ان کا کہنا تھا کہ جبپاکستان میں ہر کسی کو معلوم تھا کہ اسامہ بن لادن فوجی اکیڈمی کے قریب رہتے ہیں اور ہم انہیں سالانہ 1.3 ارب ڈالر امداد دے رہے ہیں۔ اَب ہم یہ امداد نہیں دے رہے ہیں۔ میں نے یہ امداد بند کردی تھی کیوں کہ وہ ہمارے لئے کچھ نہیں کرتے۔ اس قسم کے بیانات امریکا کی جانب سے ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ اور موجودہ صورت حال میں یہ بیان آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کیوں کہ پاکستان کی نو منتخب حکومت کی پالیسیوں کا جھکاؤ برادر اسلامی ممالک اور چین و روس کی جانب زیادہ رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے حالیہ بیان پر جو ردعمل سامنے آیا ہے ، اُس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ نیا پاکستان اپنی خارجہ پالیسیوں کو از سر نو مرتب کر رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکی حکومت اور ٹرمپ کو آڑے ہاتھوں لیا اور اپنی اہمیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا نائن الیون سے کوئی تعلق نہ تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ اس جنگ میں پاکستان نے پچھتر ہزار افراد کی قربانی دی اور 123 ارب ڈالر کا مالی نقصان برداشت کیاجب کہ اس بارے میں امریکی امداد محض بیس ارب ڈالر کی ہے۔ اس جنگ سے نہ صرف قبائلی علاقے تباہ ہوئے بلکہ جنگ نے عام پاکستان شہریوں کو بھی متاثر کیا۔ انہوں نے امریکہ کو یاد دلایا کہ پاکستان آج بھی امریکی افواج کو اپنے زمینی اور فضائی راستے استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔ وزیر اعظم کے اس بیان پر صدر ٹرمپ کا ٹویٹ سامنے آیا جس میں انہوں نے لکھا کہ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر اَب اس لئے نہیں دیتے کیوں کہ وہ پیسے لے لیتے ہیں لیکن کرتے کچھ نہیں۔ پاکستان نے ٹرمپ کی جانب سے لگائے جانے والے پے درپے الزامات کو مسترد کیا اور امریکی ناظم الامور کو طلب کرکیاپنا احتجاج ریکارڈ کیا۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے ایک ٹوئیٹر پیغام میں لکھا ہے کہ دنیا کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان نے عسکری ، معاشی ، سیاسی اور سماجی لحاظ سے انتہائی زیادہ قیمت چکائی ہے اور ہم افغانستان میں امن کے لئے کوشاں رہیں گے ۔ تاہم پاکستان کا وقار اور تحفظ اولین ترجیح رہے گا۔

امریکی صدر کی حالیہ الزام تراشیوں کا واحد مقصد پاکستان کی نئی خارجہ پالیسیوں پر اثرانداز ہونا ہے کیوں کہ پچیس جولائی کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت اس بات کا عندیہ دے چکی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو از سر نو تشکیل دیا جائے گا اور اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان قلیل مدت میں دو مرتبہ سعودی عرب اور ایک ایک مرتبہ چین اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کر چکے ہیں۔ چین کی وزارت خارجہ نے متعدد بار امریکا کے پاکستان بارے بے بنیاد اور بلا جواز الزامات پر اپنے ردّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کا ایک اہم ملک ہے، پاکستان خطے میں امن و سلامتی ، اقتصادی و معاشی ترقی اور عوامی خوش حالی کا ضامن ہے اور پاکستان خطے اور بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف لڑائی کا اہم کردار ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت نقصان اٹھائے ہیں۔ لہٰذا بین الاقوامی برادری کو پاکستان کی خدمت و رویہ کو سراہنا چاہیے۔ چین کے ساتھ لازوال دوستی اور بڑھتے ہوئے معاشی و اقتصادی تعلقات وہ محرکات ہیں جو آج امریکا کو ایک آنکھ نہیں بھا رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ ہمہ وقت پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف رہتے ہیں۔

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 209 Articles with 267343 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.